نیرنگ خیال
لائبریرین
آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرف نفرت کوئی، شمشیر غضب ہو جیسے
تاابد شہر ستم جس سے تباہ ہوجائیں۔
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیاہ جائیں۔
آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی
مد بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرف نفرت کوئی، شمشیر غضب ہو جیسے
تاابد شہر ستم جس سے تباہ ہوجائیں۔
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیاہ جائیں۔
آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی