محسن وقار علی
محفلین
آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ
گھور اندھیرا دیکھ تو آکاش کے تارے نہ دیکھ
ایک دریا ہے یہاں پر دور تک پھیلا ہوا
آج اپنے بازوؤں کو دیکھ پتواریں نہ دیکھ
اب یقیناً ٹھوس ہے دھرتی حقیقت کی طرح
یہ حقیقت دیکھ لیکن خوف کے مارے نہ دیکھ
وہ سہارے بھی نہیں اب جنگ لڑنی ہے تجھے
کٹ چکے جو ہاتھ ان ہاتھوں میں تلواریں نہ دیکھ
یہ دھندلکا ہے نظر کا تو محض مایوس ہے
روزنوں کو دیکھ دیواروں میں دیواریں نہ دیکھ
راکھ کتنی راکھ ہے، چاروں طرف بکھری ہوئی،
راکھ میں چنگاریاں ہی دیکھ انگارے نہ دیکھ
گھور اندھیرا دیکھ تو آکاش کے تارے نہ دیکھ
ایک دریا ہے یہاں پر دور تک پھیلا ہوا
آج اپنے بازوؤں کو دیکھ پتواریں نہ دیکھ
اب یقیناً ٹھوس ہے دھرتی حقیقت کی طرح
یہ حقیقت دیکھ لیکن خوف کے مارے نہ دیکھ
وہ سہارے بھی نہیں اب جنگ لڑنی ہے تجھے
کٹ چکے جو ہاتھ ان ہاتھوں میں تلواریں نہ دیکھ
یہ دھندلکا ہے نظر کا تو محض مایوس ہے
روزنوں کو دیکھ دیواروں میں دیواریں نہ دیکھ
راکھ کتنی راکھ ہے، چاروں طرف بکھری ہوئی،
راکھ میں چنگاریاں ہی دیکھ انگارے نہ دیکھ
"سائے میں دھوپ" سے انتخاب