فرخ منظور
لائبریرین
آج شب کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی
اور مکیں کوئی نہیں ہے،
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
"کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت"
کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت
کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم
ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم
اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے