مدثر علی شہپر
محفلین
اپنی انا کے خول میں دبکا ہوا آج کا انسان کبھی یہ سمجھ بیٹھا تھا، کہ وہی اس کائنات کا موجب ہے، ضرور اسکی کوئی مرکزی حیثیت ہے، ابھی نہ سہی مگر ایک دن ضرور سب انسان اسکی عظمت کے معترف ہو جائیں گے، اور اسکے گن گانے لگیں گے، یہ تب ہو گا جب اسکے پاس ڈھیر سارا پیسا ہوگا، پھر وہ کسی کا محتا ج نہ ہو گا، اور دل کھول کے غریبوں پر بھی خرچ کرے گا، اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی دے گا، تب وہ ان گھمنڈی لوگوں کو بھی بھیک میں کچھ نہ کچھ دے دے گا، جو ابھی اسکے سامنے اپنی بے بہا دولت کی نمائیش میں کوئی قصر نہیں چھوڑتے، مگر یہ دن کبھی نہیں آتا، اور وقت کی بے رحم تلخیاں، اور تھپیڑے اسکا دماغ ہلا کر رکھ دیتے ہیں، تب وہ بری طرح ٹوٹ جاتا ہے، وہ نانی اماں کی کہانیوں کا ہیرو، وہ بہن بھائیوں کا مان، وہ کالو پھیری والے کی شان ، ایک دوکان کھول کر بیٹھ جاتا ہے، اپنی ڈگریوں کو جلا دیتا ہے، اپنے گیتوں کو دفنا دیتا ہے، اب اسکی محفل بچوں سے پر ہوتی ہے، انکے کھلونے، ٹافیاں ، بسکٹ، صبح ، دوپہر اور شا م اور وہ۔۔۔۔۔