آج کا دن : غالب کا یوم پیدائش: تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

سیما علی

لائبریرین
غالب کا یوم پیدائش: تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

غالب کا یوم پیدائش: تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
2021۔12۔27
آج 27 دسمبر 1797 اردو
کے سب سے مشہور شاعر، زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار، استدلالی اندازِ بیاں، تشکک پسندی، رمز و ایمائیت، جدت ادا اور اردو فارسی کے ممتاز و عظیم شاعر مرزا اسد ﷲ خاں غالبؔ کا یومِ ولادت ہے۔
ان کام مرزااسدﷲ خاں اور تخلّص غالبؔ تھا۔ وہ 27؍دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے۔ غالبؔ کی اولین خصوصیت طرفگئی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالتا ، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو ۔
میرؔ کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہ ادا کردینے سے گویا شاعر خود مجبور تھا کہ اپنی تسکین روح کی خاطر روح اور قلب کا یہ بوجھ ہلکا کردے ۔ ایک طرح کی سپردگی تھی جس میں شاعر کا کمال محض یہ رہ جاتا ہے کہ جذبے کی گہرائی اور روحانی تڑپ کو اپنے تمام عمن اور اثر کے ساتھ ادا کرسکے۔
اس لیے بے حد حساس دل کا مالک ہونا اول شرط ہے اور شدت احساس کے وہ سپردگی اور بے چارگی نہیں ہے یہ شدت اور کرب کو محض بیان کردینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پاجاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ تڑپ اٹھنے کے بعد پھر اپنے جذبات سے کھیل کر اپنی روح کے سکون کے لیے ایک فلسفیانہ بے حسی یا بے پروائی پیدا کرلیتے ہیں۔
اگر میرؔ نے چر کے سہتے سہتے اپنی حالت یہ بنائی تھی کہ۔ مزا جو ں میں یاس آگئی ہے ہمارے نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی تو غالب ؔ اپنے دل و دماغ کو یوں تسکین دیتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں غالبؔ کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رند منش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے ۔
باوجود اس کے کہ زمانے نے جتنی چاہئے ان کی قدر نہ کی اور جس کا انہیں افسوس بھی تھا پھر بھی ان کے صوفیانہ اور فلسفیانہ طریق تفکر نے انہیں ہر قسم کے ترددات سے بچالیا۔(الخ) اور اسی لیے اس شب و روز کے تماشے کو محض بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے ۔
دین و دنیا، جنت و دوزخ ، دیر و حرم سب کو وہ داماندگئ شوق کی پناہیں سمجھتے ہیں۔(الخ) جذبات اور احساسات کے ساتھ ایسے فلسفیانہ بے ہمہ دبا ہمہ تعلقات رکھنے کے باعث ہی غالبؔ اپنی شدت احساس پر قابو پاسکے اور اسی واسطے طرفگئی ادا کے فن میں کامیاب ہوسکے اور میرؔ کی یک رنگی کے مقابلے میں گلہائے رنگ رنگ کھلا سکے۔
’’لوح سے تمت تک سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یاخوابیدہ موجود نہیں۔‘‘ لیکن غالبؔ کو اپنا فن پختہ کرنے اور اپنی راہ نکالنے میں کئی تجربات کرنے پڑے۔
اول اول تو بیدلؔ کا رنگ اختیار کیا لیکن اس میں انہیں کیامیابی نہ ہوئی سخیوں کہ اردو زبان فارسی کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کرسکتی تھی مجبوراً انہیں اپنے جوش تخیئل کو دیگر متاخرین شعرائے اردو اور فارسی کے ڈھنگ پر لانا پڑا۔
صائبؔ کی تمثیل نگاری ان کے مذاق کے مطابق نہ ٹھہری میرؔ کی سادگی انہیں راس نہ آئی آخر کار عرفیؔ و نظیری کا ڈھنگ انہیں پسند آیا اس میں نہ بیدلؔ کا سا اغلاق تھا نہ میرؔ کی سی سادگی۔
اسی لیے اسی متوازن انداز میں ان کا اپنا رنگ نکھر سکا اور اب غیب سے خیال میں آتے ہوئے مضامین کو مناسب اور ہم آہنگ نشست میں غالب نے ایک ماہر فن کار کی طرح طرفہ دل کش اور مترنم انداز میں پیش کرنا شروع کردیا۔ عاشقانہ مضامین کے اظہار میں بھی غالبؔ نے اپنا راستہ نیا نکالا شدت احساس نے ان کے تخیئل کی باریک تر مضامین کی طرف رہ نمائی کی گہرے واردات قلبیہ کا یہ پر لطف نفسیاتی تجزیہ اردو شاعری میں اس وقت تک (سوائے مومنؔ کے ) کس نے نہیں برتا تھا۔
اس لیے لطیف احساسات رکھنے والے دل اور دماغوں کو اس میں ایک طرفہ لذت نظر آئی ۔ ولیؔ ، میرؔ و سوداؔ سے لے کر اب تک دل کی وارداتیں سیدھی سادی طرح بیان ہوتی تھیں۔ غالبؔ نے متاخرین شعرائے فارسی کی رہ نمائی میں اس پر لطف طریقے سے کام لے کر انہیں معاملات کو اس باریک بینی سے برتا کہ لذت کام و دہن کے ناز تر پہلو نکل آئے۔
غرض کہ ایسا بلند فکر گیرائی گہرائی رکھنے والا وسیع مشرب، جامع اور بلیغ رومانی شاعر ہندوستان کی شاید ہی کسی زبان کو نصیب ہوا ہو موضوع اور مطالب کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب (مثلاً جوش کے موقع پر فارسی کا استعمال اور درد و غم کے موقع پر میرؔ کی سی سادگی کا ) بندش اور طرز ادا کا لحاظ رکھنا غالب ؔ کا اپنا ایسا فن ہے جس پر وہ جتنا ناز کریں کم ہے اسی لیے تو لکھا ہے ۔ 15فروری 1869ء کو غالبؔ انتقال کر گئے۔ پیش ہے غالب کے کچھ منتخب کلام:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے



 

سیما علی

لائبریرین
صریر عین نوازش؀
عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ (1796-1869ء ) بھی ہیں ۔
غالبؔ کے عہد میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا جس میں ہند ایرانی اثرات سے مملو تمدن آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری بڑھتی جارہی تھی گویا زندگی اور تمدنی انقلاب کے نئے نئے تقاضوں سے ہندوستانی عوام نبرد آزما تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں غالبؔ نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی اور اپنے منفرد اور اچھوتے طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا ، دراصل غالب کی شاعری کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے متعدد بار غائر مطالعہ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے اور مرزا غالبؔ کا کلام دنیائے ادب کی وحدت کا جزو لاینفک بن گیا ہے عمومی طور پر غالبؔ ایک مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں آپ بھی دیکھ لیجئے :

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہو گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں
دام شنیدن ، گرمئی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالبؔ کی شاعری مشکل سمجھی گئی ۔ اس طرح نادر تشبیہات اور حشر خیز خیالات کو عہد غالبؔ میں اسی زمرہ میں رکھا گیا تھا ۔
تھا میں گلدشتہ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقاء میرے بعد
الغرض غالبؔ کی شاعری کے تجزیہ نگاروں نے غالبؔ کی مشکل پسندی اور ان کے خیالات کی انفرادیت کو ان کی خوش پرستی ، انفرادیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا رہا ، لیکن یہ مشکل پسندی دراصل جذبات و احساسات کی تہہ داری ہے ۔ ان کے گرد و پیش کے خیالات ، جبر و اختیار ، واقعات کی کشاکش اور ان کی زندگی کی تلخیاں انہیں فلسفہ زندگی کی جمالیات اور معیارات کا دوسرے ہم عصر شعراء سے الگ الگ شناخت عطا کی جو مشکل پسندی (Thinking poetry) ہے جو غور و فکر کرنے والے ادب کی بنیاد گزار بنی ہے ۔ غالبؔ کی ایک اور فکری عنصر تصوف کو ملاحظہ فرمایئے :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا
مندرجہ بالا شعر عبارت کی دشوار ترکیب ، استعارات کی پیچیدگی ، نقطہ نظر ، فلسفہ ادب اور زاویہ نگاہ کی دین ہے ۔ اسی لئے تو وہ خود کہتے ہیں:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
غالبؔ نے اپنی شاعری کو فکری اور فلسفیانہ رنگ روپ دیا ہے ۔ گویا تہذیب و ثقافت کی ایک طویل ارتقائی سفر کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے ۔ شاعری بنیادی طور پر جذبات پر مبنی ہوتی ہے لیکن غالبؔ کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ اس فکری عنصر نے متعدد نتائج پیدا کئے ہیں ۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
غالبؔ کے مطابق لالہ و گل اور کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں پویند خاک ہوئیں جو اپنے وقت میں بے نظیر تھیں یہ تصور غالبؔ کی فکری حقیقت نگاری سے عبارت ہے :
دل میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
سیاہ خانے کو روشن و منور کرنے والی شمع سحر ہونے تک جلتی رہتی ہے ۔ خدا معلوم اس وقفہ میں اس پر کیا گذرتی ہوگی ایک اور خیال میں غالبؔ محبوبہ کے ہونٹوں کی تصویرکشی اس طرح کرتے ہیں۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غالبؔ اس شعر میں محبوب کی گالیوں کو میٹھی بولی سے تعبیر کررہے ہیں مزید محبوب کی بے وفائی سے متعلق کہتے ہیں ۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
بہرحال غالبؔ کا دور سیاسی لحاظ سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لہذا اس پرآشوب زمانہ کی تلخ و پریشان کن حالات ان کی اقتصادی زندگی کو تہس نہس کررکھا تھا ،غالبؔ کی چیختی زندگی کی تصاویر ان کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے ۔
نقش فریادی ہے کس شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بہ مہری یارانِ وطن یاد نہیں
شکوہ سنجی کی طبیعت غالبؔ کی ہرگز نہیں تھی لیکن ہم عصروں کی چشمک ، زمانہ کی ناقدر دانی ، حکومت کا زوال ، وظیفہ کی مسدودی نے غالبؔ کی زندگی کو بدمزہ کردیا ۔ انسانی نفسیاتی کا تقاضہ بھی یہی ہیکہ انسان جن حالات کا شکار ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت پر ظاہر ہوتے لگتے ہیں ۔

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی سے مرا بھلا نہ ہوا
زندگی اپنی جب اس شکل میں گذری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے
غالبؔ کا جو عملی فلسفہ حیات رہا ہے اس میں غم روزگار بھی شامل ہے ۔ بے روزگاری زندگی کے لئے ایک ناسور کی طرح تکلیف دہ شئے ہے جس سے غالبؔ دوچار تھے ، زندگی کی اسی ویرانی کو دو مختلف مضامین میں دیکھئے:
اُؑگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
غالبؔ کے اشعار میں زندگی کی شکست و ریخت کے فکری و حقیقی عناصر کے ساتھ ان میں حاوی عنصر ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے اس تاثر کو انہوں نے ظاہری اور باطنی معانی میں
مخفی رکھا تاکہ قاری اپنی بساط اور مشاہدے کے مطابق الفاظ اور معانی کی تہہ کھولتا چلا جائے :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
گر خامشی سے فائدہ اخضائے حال ہے
خوش ہوں کہ مری بات سمجھنا محال ہے
وقت زندگی کے فیصلے صادر کرتا ہے اس حقیقت کو غالبؔ اپنی شاعری میں ندرت فکر اور جدت بیان کے ساتھ اور موضوعات کی انفرادیت ، روزمرہ اور محاورہ کے استعمال اور منفرد مفکرانہ طریقہ اظہار کی بابت
غالبؔ کی شاعری سمجھنے اور سمجھانے کی چیز بن گئی ہے :
بیان کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مدہو جو پنبہ رکھدیں دیواروں کے روزن میں
میرے خیال میں غالبؔ کے کلام کا مطالعہ اسلوب اور فکر کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے مشکل اور آسان کا تصور محض بے جا ہے ۔ آپ کا تصور احساسات ، جذبات اور تجربات کا ردعمل ہے ۔ اسی لئے غالبؔ کی شاعری کی فہم مشاہدات اور حقائق کا فہم کا تقاضہ کرتی ہے
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہوگئیں
جہاں غالب نے اپنی شاعری میں قاری کے لئے نامانوس ، اجنبی تشبیہات اور استعارات ، غیر مرئی اشیا کو مرئی اشیا کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہیں نشتریت ، کثیر المعانی خیالات ، ایجاد وابداع ، فکر و تصوف ، تصورات کی ندرت ، دقیق مطالب ، تراکیب ، مضامین ، الفاظ کی بندش، معنی آفرینی ، شوخی تحریر اسلوب ، فلسفہ حیات ۔ غرض یہ کہ غالبؔ کے بیشتر تاثرات ذاتی تجربات اور عینی مشاہدات کی بنیاد پر مبنی محسوس ہوتے ہیں جس میں صداقت کی تہہ داری پنہاں ہے ، قدرتی جبر و انسان کی بے چارگی ، ظریفانہ شوخی اور طنزیہ اشعار ملاحظہ فرمایئے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا!!!!!!!
منقول
 
Top