فرخ منظور
لائبریرین
آج کرسمس ہے
شہر میونخ میں آج کرسمس ہے
رودبارِ عسار کے پُل پر
جس جگہ برف کی سلوں کی سڑک
فان کاچے کی سمت مڑتی ہے
قافلے قہقہوں کے اترے ہیں
آج اس قریۂ شرا ب کے لوگ
جن کے رخ پر ہزیمتوں کا عرق
جن کے دل میں جراحتوں کی خراش
ایک عزمِ نشاط جو کے ساتھ
امڈ آئے ہیں مست راہوں پر
بانہیں بانہوں میں، ہونٹ ہونٹوں پر!
برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں
کوئے میریں کے اک گھروندے میں
ایک بوڑھی، اداس ماں کے لیے
پھول اک طاقچے پہ ہنستے ہیں
گرم انگیٹھی کے عکسِ لرزاں سے
آگ اک آئینے میں جلتی ہے
ایک دستک ہے! کون آیا ہے؟
زرد کمرے کے گوشے گوشے میں
جورِ ماضی کا سایۂ مصلوب
آخری سانس لینے لگتا ہے
ماں کے چہرے کی ہر عمیق شکن
ایک حیران مسکراہٹ کے
دلنشیں زاویوں میں ڈھلتی ہے
’’میری شالاط، اے مری شالاط
اے میں قرباں، تم آ گئیں، بیٹی!‘‘
اور وہ دختِ ارضِ الماں جب
سر سے گٹھڑی اتار کر جھک کر
اپنی امی کے پاؤں پڑتی ہے
اس کی پلکوں پہ ملک ملک کی گرد
ایک آنسو میں ڈوب جاتی ہے
ایک مفتوح قوم کی بیٹی
پارۂ ناں کے واسطے، تنہا
روئے عالم کی خاک چھان آئی
دس برس کے طویل عرصے کے بعد
آج وہ اپنے ساتھ کیا لائی؟
روح میں، دیس دیس کے موسم!
بزمِ دوراں سے کیا ملا اس کو؟
سیپ کی چوڑیاں ملایا سے
کینچلی چین کے اک اژدر کی
ٹھیکری اِک مہنجودارو کی
ایک نازک بیاض پر، مرا نام
کون سمجھے گا اس پہیلی کو؟
فاصلوں کی کمند سے آزاد
میرا دل ہے کہ شہرِ میونخ ہے
چار سو، جس طرف کوئی دیکھے
برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں
مجید امجد
شہر میونخ میں آج کرسمس ہے
رودبارِ عسار کے پُل پر
جس جگہ برف کی سلوں کی سڑک
فان کاچے کی سمت مڑتی ہے
قافلے قہقہوں کے اترے ہیں
آج اس قریۂ شرا ب کے لوگ
جن کے رخ پر ہزیمتوں کا عرق
جن کے دل میں جراحتوں کی خراش
ایک عزمِ نشاط جو کے ساتھ
امڈ آئے ہیں مست راہوں پر
بانہیں بانہوں میں، ہونٹ ہونٹوں پر!
برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں
کوئے میریں کے اک گھروندے میں
ایک بوڑھی، اداس ماں کے لیے
پھول اک طاقچے پہ ہنستے ہیں
گرم انگیٹھی کے عکسِ لرزاں سے
آگ اک آئینے میں جلتی ہے
ایک دستک ہے! کون آیا ہے؟
زرد کمرے کے گوشے گوشے میں
جورِ ماضی کا سایۂ مصلوب
آخری سانس لینے لگتا ہے
ماں کے چہرے کی ہر عمیق شکن
ایک حیران مسکراہٹ کے
دلنشیں زاویوں میں ڈھلتی ہے
’’میری شالاط، اے مری شالاط
اے میں قرباں، تم آ گئیں، بیٹی!‘‘
اور وہ دختِ ارضِ الماں جب
سر سے گٹھڑی اتار کر جھک کر
اپنی امی کے پاؤں پڑتی ہے
اس کی پلکوں پہ ملک ملک کی گرد
ایک آنسو میں ڈوب جاتی ہے
ایک مفتوح قوم کی بیٹی
پارۂ ناں کے واسطے، تنہا
روئے عالم کی خاک چھان آئی
دس برس کے طویل عرصے کے بعد
آج وہ اپنے ساتھ کیا لائی؟
روح میں، دیس دیس کے موسم!
بزمِ دوراں سے کیا ملا اس کو؟
سیپ کی چوڑیاں ملایا سے
کینچلی چین کے اک اژدر کی
ٹھیکری اِک مہنجودارو کی
ایک نازک بیاض پر، مرا نام
کون سمجھے گا اس پہیلی کو؟
فاصلوں کی کمند سے آزاد
میرا دل ہے کہ شہرِ میونخ ہے
چار سو، جس طرف کوئی دیکھے
برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں
مجید امجد