خرم شہزاد خرم
لائبریرین
پچھلے ایک ماہ سے میری کیا مصروفیات رہی میں اردو محفل پر اور نیٹ پر بہت کم کیوں آیا یا کیوں نہیں آیا اس کی دو وجوہات تھی ایک تو میرا لیپ ٹاپ خراب ہو گیا تھا اور دوسرا آج کل نیا کام شروع کر دیا ہے جب وقت ملتا تھا تو تھوڑا تھوڑا لکھ لیتا تھا آج دل کیا سب کچھ آپ کو بھی بتا دوں تو یہ لیں جناب
آج کل نیا کام
جو اللہ ابوظہبی میں روزی دے رہا ہے وہی پاکستان میں بھی دے رہا ہے۔ اس لیے فکر کس بات کی۔ اگر ایک در بند ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہیں۔یہ باتیں میں ابوظہبی میں ہر اس بندے سے سنا کرتا تھا جو وہاں جاب کرتے تھے۔ لیکن جب ان کا ویزا ختم ہونے والا ہوتا یا ان کی جاب کو کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ بہت پرشان ہو جاتے اور اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے کے ویزا رینیو ہو جائے۔ سب کی طرح میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا اور سوچتا ہوں۔ میں پاکستان سے جب چھٹی گزار کر واپس گیا تو اس وقت باس کے کام کے حالات بہت خراب تھے۔ اتنے خراب تھے کہ مجھے ابھی تک 5 ماہ کی تنخوا نہیں ملی۔حالات خراب ہونے کے باوجود باس مجھے کہتے تھے کہ میں تمہارا ویزا رینیو کر دوں گا۔ اور میں یہ کہتا تھا کہ اگر آپ کو میری وجہ سے کوئی پرشانی ہے یا کام نہیں ہے تو کوئی بات نہیں آپ مجھے ابھی فارغ کر دیں میں پاکستان واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن وہ کہتے پاکستان جا کر کیا کرو گے، پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، بہت مہنگائی ہے۔ تو میں یہی کہتا تھا کہ جو اللہ ابوظہبی میں روزی دے رہا ہے وہی اللہ پاکستان میں بھی روزی دے گا۔ ویسے میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ اگر مجھے جلدی فارغ کر دیا جائے تو میں ابوظہبی میں ہی کوئی جاب تلاش کر لوں لیکن مجھے اس وقت جواب دیا گیا جب میرے پاس دن بہت کم تھے۔ اس لیے میں نے زیادہ کوشش نہیں کی ایک دو دوستوں کو کہا اور کام نا ہونے کی صورت میں پاکستان آ گیا۔ پاکستان آتے ہی اللہ تعالیٰ نے نورِ سحر کی صورت ایک بہت بڑی خوشی عطا فرمائی۔ اس کے بعد ایک دو ماہ گزرنے کے بعد سب پوچھنے لگے کے کیا کرو گے اب۔ میرا اور والد صاحب کا خیال تھا کہ کمپوٹر کی شاپ کھول لیتے ہیں۔ لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر ابھی تک شاپ نہیں کھل سکی ۔ اب میں ویلا تو رہ نہیں سکتا تھا۔ایک تو کام کرنے والا بندہ ویلا نہیں رہ سکتا اور دوسترا دانوں کے لیے بھی تو کچھ کرنا تھا۔ یا ایسا زیادہ بہتر رہے گا کہ اب میری روزی اسی طرح لکھی تھی۔ہمارے محلے کے بہت سارے دوست فروٹ منڈی جاتے ہیں۔ اور ان کا سلسلہ اچھا چل رہا ہے میں نے بھی ایک کزن کو کہا میں بھی جاؤں گا ۔ سب کی مخالفت کے باوجود میں بھی کزن کے ساتھ منڈی چلا گیا۔ اس طرح میرے لیے ایک اور تجربہ انتظار کر رہا تھا اور میں نے وہ کامیاب تجربہ کر لیا۔ رمضان کا پورا مہینہ میں کزن کے ساتھ فروٹ منڈی جاتا رہا اور ایک مہینے میں اتنے پیسے کما کر خرچ کے اگر میں فارغ رہ کر خرچ کرتا تو دوسروں کا محتاج ہو جاتا۔ بے شک والدین اور بھائیوں سے ہی پیسے لیتا لیکن محتاجی تو ہوتی لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہوا اللہ کے کرم سے اچھا سلسلہ چل رہا ہے اور یہی وجہ رہی کہ میں نیٹ پر بھی کم ہی ملتا رہا۔ کیونکہ صبح فجر کے بعد جاتا تھا اور دن دو بجے واپس آتا تھا روزے کی وجہ سے بہت تھکن اور پیاس لگی ہوتی تھی سو جاتا تھا اور پھر افطار کے لیے اٹھتا تھا۔ اس کے بعد رات کو بھی جلدی سونا پڑتا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ عید کے بعد یہ سلسلہ کیسا رہتا ہے۔
اللہ کرے یہ خرم نا ہو
صبح چھ بجے کا وقت تھا ہم لوگ ٹرک پر سیب بیچ رہے تھے۔ یوں تو ہم چار حصے دار تھے لیکن اور کزن بھی اپنا کام ختم کر کے ہمارے ٹرک پر آ جاتے تھے تاکہ کام جلدی ختم ہو جائے۔ ہمارے پاس بہت رش لگی ہوئی تھی میرا کام صرف پیسے پکڑنا ہوتا تھا۔ جو بھی سیب کی پیٹی سیل ہوتی اس کے پیسے میں ہی لیتا ۔ اس دن رش کی وجہ سے ہم دو لڑکے پیسے پکڑ رہے تھے۔ ٹرک پر کھڑا انساں دور سے ہی نظر آ جاتا ہے اور میں نہیں جانتا تھا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے میں تو اپنی مستی میں کام میں مصروف تھا کیونکہ اگر ایک بندہ بھی پیسے دیئے بغیر چلا جاتا تو وہ میرے سر پڑ جاتا۔ اسی دوران مجھے کسی نے آواز دی میں نے پیچھے موڑ کر دیکھا ۔ پہلے تو میں حیران ہوا پھر بہت خوش ہوا کیونکہ نسٹ یونیورسٹی کے کولیک ارشد صاحب میرے پیچھے کھڑے تھے۔ میں نے دوسرے کزن کو پیسوں کے لیے کھڑا کیا اور ان سے ملنے لگا۔ حال اخوال پوچھنے کے بعد ارشد صاحب نے کہا میں نے تم کو دوسر سے ہی دیکھ لیا تھا۔ مجھے لگا کہ تم خرم ہی لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ " اللہ کرے یہ خرم نا ہو" میں نے پوچھا آپ نے ایسی دعا کیوں کی۔ کہنے لگے تمہیں یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی ہے۔ میں نے کہا حیرت کس بات کی جناب کام کر رہا ہوں کوئی چوری ڈاکہ تو نہیں مار رہا۔ اللہ کا کرم ہے محنت مزدوری کر کے کما رہا ہوں۔ اس بات پر وہ خوش تو ہوئے لیکن پھر بھی مجھے ان کی اس بات پر حیرت ہوئی۔ ان کے جانے کے بعد اور کام سے فارغ ہو جانے کے بعد میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اس کام میں کیا بُرائی ہے۔ جب کام کرنا ہے تو کرنا ہے پھر شرم کس بات کی۔ جو بھی مجھ سے پوچھتا ہے کہ خرم کیا کر رہے ہو تو صاف کہتا ہوں منڈی جاتا ہوں مزدوری کرتا ہوں ، کچھ کہتے ہیں چلو کچھ نا کرنے سے تو بہتر ہے ،اور کچھ کہتے ہیں نہیں یار یہ بھی کوئی کام ہے۔ میری دعا ہے اللہ سے کہ میں کوئی ایسا کام نا کروں جسے دیکھ کر سچ میں یہ کہنا پڑے کہ " اللہ کرے یہ خرم نا ہو" اب جو کام میں کر رہا ہوں اس سے میں مطمین اور جب تک اسی طریقے سے رزق لکھا ہے تو یہی کام کرتا رہوں گا۔ ہم کس طرح کام کرتے ہیں یہ بھی بتاؤں گا جلد ہی
ہم کیسے کام کرتے ہیں
اکثر دوست مجھ سے پوچھتے ہیں آج کل کیا کرتے ہو تو میں کہتا ہوں منڈی میں مزدوری کرتا ہوں۔ پھر وہ تفصیل پوچھتے ہیں تو سوچا کیوں نا سب کو ہی بتا دیا جائے کہ ہم کیسے کام کرتے ہیں۔ اس وقت چار پاٹنر ہیں چاروں نے اپنی توفیق کے مطابق رقم جمع کروائی ہے۔ رقم جمع کرنے والا میں ہوں۔ اب جیتنے پیسے جمع ہوتے ہیں اس سے ہم سیب کی پیٹیاں خرید لیتے ہیں۔ اس میں دو تین قسم کا سیب ہوتا ہے۔ پھر ہم وہ ساریاں پیٹیاں ایک ٹرک میں ڈال کر رکھ دیتے ہیں اور اگلے دن جا کر وہ ساری بولی لگا کر سیل کرتے ہیں۔ جب ساری پیٹیاں سیل ہو جاتی ہیں پھر ہم حساب کرتے ہیں جتنی پیسوں کی پیٹیاں لی ہوتی ہیں وہ الگ کرتے ہیں پھر جو پیسے بچتے ہیں ان سے جو خرچے ہوئے ہوتے ہیں مطلب ٹرک کا کرایہ ہمارے آنے جانے کا کرایہ اور مزدوروں کی مزدوری نکال کر جو پیسے بچتے ہیں وہ ہم تقسیم کر لیتے ہیں۔