آج کی تازہ بہ تازہ گرم خبریں

زیرک

محفلین
یہ حکومت کا نہیں لفافوں اور سرکاری اشتہارات کا بحران ہے۔
حکومت کے پاس دینے کو بھی کیا رہ گیا ہے؟ وہ دینا بھی چاہتی ہے تاکہ مخالف زبانیں بند ہو جائیں مگر آٹا مک گیا ہے، دینے کو کچھ نہیں رہا۔ مجھے ان میں سے کسی سے اچھائی کی کوئی توقع نہیں، نی سیاسیوں سے نہ خاکی وردی والوں سے۔ سب حرص کے بندے ہیں۔ کب کا باجوہ یا کوئی اور آ چکا ہوتا، لیکن چونکہ خزانہ خالی ہے اس لیےکسی اور نے عنان نہیں سنبھالی، قربانی کا نااہل بکرا چاہیے تھا، مل گیا، مگر وہ ماجا قصائی بنا غریب عوام کو کاٹتا جا رہا ہے جس کا مجھے افسوس ہے کہ قصور کس کا تھا؟ اور سزا کس کو ملی۔ مجرم کون تھے؟ سیاسی خاردار ببول کے کانٹوں بھرے پودے اور ان کی سرکاری نرسری والے جسے نااہل عدلیہ اور کرپٹ کاروباری ایلیٹ کا بھرپور ساتھ حاصل تھا اور حاصل ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں نوازشریف کا کبھی بھی مداح نہیں رہا، مگر اس نے عمران خان کو سیاسی گیم میں ابھی تک مات پہ دی ہے۔ سیاست سے نااہل ہو گیا، بدنامی کا بحراکاہل ثابت ہو چکا لیکن ایسی کمینگی کر گیا کہ عمران خان کہنے کو حکومت کر رہا ہے لیکن نوازشریف کی چالوں نے عمران خان سے حکومت کرنے کی چس ہی چھین لی ہے، اس نے عمران خان سے حکومت کرنے کا جو ہنی مون پیریڈ ہوتا ہے وہ بھی چھینا،اسے تین سال تک تاریخ کا بھاری قرض واپس کرنا ہے، کچھ کر دیا کچھ اور واپس کرنا ہے۔ یہ وہ دلدل تھی جس میں نوازشریف نے عمران خان کو دھکیلا، وہ جانتا تھا کہ عمران خان میں حکومت چلانے کی کوئی اہلیت نہیں ہے، دس بارہ کھلاڑیوں کو دھونس دھمکی سے چلایا جا سکتا ہے لیکن بیوروکریسی جس میں شریف مافیا نے 35 سال تک اپنے بندے پلانٹ کیے ہوئے ہیں اس سے نمٹنے کا عمران خان کو کوئی تجربہ نہیں، تاجر طبقہ پکا پکا نوازشریف کے ہاتھوں میں ہے اسے ڈنڈے سے ڈیل نہیں کیا جا سکتا، عمران خان بڑھتی عمر اور نااہلی و نا تجربے کاری سے اپنے سامنے کھدی دلدل کو نہیں پہچان سکا۔ نوازشریف نے اس سے بھی بڑا کمال یہ کیا کہ الیکشن سے قبل ایسے قرضے لیے گئے جو عمران خان کے لیے دلدل ثابت ہوئے، اس نے حالات ایسے پیدا کر دئیے کہ عمران خان کو معیشت کو چلانے کے لیے مزید مہنگائی کرنے اور تاریخ کا بھاری بھرکم قرض لینے پر مجبور کر دیا۔
اوپر صحیح تمہید باندھ کر نیچے کیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے؟ ایک طرف خود مان رہے ہیں کہ نواز شریف جان بوجھ کر ملک کو دیوالیہ کرنے کی غرض سے آنے والی حکومت کیلئے معاشی لینڈ مائنز بچھا کر گیا ہے۔ تو دوسری وہ حکومت جو ملک کو نواز شریف کے چھوڑے ہوئے معاشی بحران سے نکال رہی ہے پر نکتہ چینی شروع کر دی ہے:
قریباً ڈیڑھ سال کی حکومت میں عمران خان نے یہی چند کام کیے ہیں ایک تو وہ مہنگائی بڑھا رہا ہے اور دوسرا بھاری بھرکم قرضے بھی لے رہا ہے، تیسرا جرم اس نے روپے کی قدر میں تاریخی کمی کر کے اپنے پیر کاٹ لیے، چوتھا جرم ساری معیشت آئی ایم ایف کے حوالے کر دی اور ایسی شرائط مان لیں جو کوئی بھی خود مختار حکومت نہیں مان سکتی تھی، عمران خان نے آئی ایم ایف کی وہ شرائط بھی مانیں جو کوئی ملک نہیں مان سکتا، اب پاکستان کی معیشت کلی طور پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسی پر چل رہی ہیں، جووزیرخزانہ کے سامنے فائل بنا کر بھیج دیتے ہیں، ان کو اس پر سائن کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے وہ بے چارے اسے اٹھا کر کیبنٹ میں پیش کر دیتے ہیں جہاں منظوری دے کر سائن کے بعد اصل سرکار کے پاس چلی جاتی ہے جو اس ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چلا رہے ہیں۔
مہنگائی ڈالر مہنگا ہونے کیو جہ سے بڑھی ہے۔ اور ڈالر مہنگا اس لئے ہوا ہے کیونکہ نواز شریف نے اسے 4 سال تک لگاتار 104 روپے فی ڈالر پر رکھا ہوا تھا۔ اور اس مصنوعی قیمت کا دفاع قومی خزانہ کے ذخائر کی لوٹ مار کرکے ادا کر رہا تھا۔


نیز بھاری بھرکم قرضے اس ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے لئے جا رہے ہیں جو نواز شریف پیچھے چھوڑ کر گیا ہے۔

18 ارب ڈالر خسارہ کا مطلب ہے اس حکومت کو پہلے سال 18 ارب ڈالر کابیرونی قرضہ لینا پڑا ہے۔ یہ سب کچھ 2016 میں ہی معیشت دانوں نے تخمینہ لگا کر معلوم کر لیا تھا۔

نیز آئی ایم ایف کی شرائط ان سے قرضہ لینے اور ملک کی خارجہ معیشت مستحکم کرنے کے عوض مانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محض 16 ماہ میں پاکستان کی ریٹنگ منفی سے اسٹیبل ہو گئی ہے۔
Moody’s upgrades Pakistan’s outlook to stable
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اب کہنے کوعمران خان خان کی حکومت ہے، احکامات انہی کے چلتے ہیں، انہوں نے جو اندھے اقدامات لیے اس کی وجہ سے بیروزگاری بڑھی، مہنگائی کو راکٹ انجن فٹ ہو گیا، ٹیکس، شرح سوداور افراطِ زر کی بڑھتی شرح پر اب حکومت کا کوئی اختیار نہیں رہا، لوگ اب عمران خان کو گالیاں دے رہے ہیں۔
عمران خان کو ان گالیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس نے حکومت میں آتے ساتھ ہی 18، 18 گھنٹے کام کرکے ملک دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ بدمست عوام جو پچھلی حکومت میں مصنوعی سستے ڈالر اور 60 ارب ڈالر کی درآمداد پر عیاشیاں کر رہی تھی اب درآمداد کم ہونے اور اپنے کاروبار بند ہونے پر عمران خان کو گالیاں نکال رہی ہے۔ ان کو کچھ معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ پچھلی حکومت نے کیا کھیل کھیلا تھا۔ لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سب معلوم ہے اور اسی لئے عمران خا ن کو ملک کی معاشی سمت درست کرنے کیلئے سلیکٹ کیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قصور کس کا تھا؟ اور سزا کس کو ملی۔ مجرم کون تھے؟
جس کا قصورتھا اسے سزا مل چکی ہے۔ وہ سیاست سے تاحیات نااہل ہے۔ کرپشن کے دو مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔ اسوقت بیماری کا بہانہ بنا کر جیل سے مفرور ہے۔ اسکے بچے ،بھائی اور بھتیجے فوج کے خلاف انقلاب لانے کا خواب دکھاکر مزید کرپشن کیسز سے بچنے کیلئے اب انہی کے بوٹ چاٹ رہے ہیں۔ ملک میں اپوزیشن کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ اور دور دور تک ان قومی چوروں لٹیروں کی اقتدار میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
 

زیرک

محفلین
جس کا قصورتھا اسے سزا مل چکی ہے۔ وہ سیاست سے تاحیات نااہل ہے۔ کرپشن کے دو مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔ اسوقت بیماری کا بہانہ بنا کر جیل سے مفرور ہے۔ اسکے بچے ،بھائی اور بھتیجے فوج کے خلاف انقلاب لانے کا خواب دکھاکر مزید کرپشن کیسز سے بچنے کیلئے اب انہی کے بوٹ چاٹ رہے ہیں۔ ملک میں اپوزیشن کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ اور دور دور تک ان قومی چوروں لٹیروں کی اقتدار میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اب تمہاری باری ہے، اور تمہارا خان فارن فنڈنگ کے خلاف ہاتھ پیر مار رہا ہے، لیکن ایک نہ ایک دن شکنجے میں ضرور آئے گا۔
 

زیرک

محفلین
عمران خان کو ان گالیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس نے حکومت میں آتے ساتھ ہی 18، 18 گھنٹے کام کرکے ملک دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ بدمست عوام جو پچھلی حکومت میں مصنوعی سستے ڈالر اور 60 ارب ڈالر کی درآمداد پر عیاشیاں کر رہی تھی اب درآمداد کم ہونے اور اپنے کاروبار بند ہونے پر عمران خان کو گالیاں نکال رہی ہے۔ ان کو کچھ معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ پچھلی حکومت نے کیا کھیل کھیلا تھا۔ لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سب معلوم ہے اور اسی لئے عمران خا ن کو ملک کی معاشی سمت درست کرنے کیلئے سلیکٹ کیا گیا ہے۔
جس کرپشن کے نعرے کے ساتھ آیا تھا، وہ اصل مدعا تھا وہی مؤقف جسے پھر اس نے خود اپنے ہاتھوں دفنایا کیونکہ اب اس کی خود کی باری آ رہی تھی۔
 

زیرک

محفلین
اوپر صحیح تمہید باندھ کر نیچے کیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے؟ ایک طرف خود مان رہے ہیں کہ نواز شریف جان بوجھ کر ملک کو دیوالیہ کرنے کی غرض سے آنے والی حکومت کیلئے معاشی لینڈ مائنز بچھا کر گیا ہے۔ تو دوسری وہ حکومت جو ملک کو نواز شریف کے چھوڑے ہوئے معاشی بحران سے نکال رہی ہے پر نکتہ چینی شروع کر دی ہے:

Moody’s upgrades Pakistan’s outlook to stable
میٹھا میٹھا ہڑپ کر گئے اور کڑوا تھو کر دیا، یہی ہوتا ہے دو نمبر لوگوں کا مسئلہ، میں یہی بتانا چاہتا تھا کہ یک ہوتا ہے وژن جو اس شخص میں نہیں ہے۔ دوسری ہوتی ہے قابلیت جو بالکل بھی نہیں ہے۔ نوازشریف نے گڑھا کھودا کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو اس ملک کا شہنشاہ بننے نہیں دینا چاہتا تھا۔ عمران خان اپنے بلائنڈ وژن کی وجہ سے یہ دلدل نہیں دیکھ پایا اور وہاں اس کی نااہلی سامنے آتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں چھپی دلدل نہیں دیکھ پایا۔ نتیجہ آج ملک کی معیشت، عوام سبھی دلدل میں ہیں۔ تمہارا دماغ کام نہیں کرتا کیونکہ تمہارے لیڈر نے اپنی سیاست کو ڈوبتا دیکھ کر پہلے سے زیادہ سخت شرائط پر قرضے لیے ہیں، پہلے قرضوں میں کچھ نہ کچھ شرائط منوائی گئیں تھیں، عمران خان کے دور کے قرضوں میں تو قوم کو سیدھا سیدھا دلدل میں دھکیلا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے کہ کام ہی نہیں کریں گے بیٹھ کے کھائیں گے، نتیجہ روزگار ختم مڈل کلاس کا روزگار کیا مڈل کلاس ختم۔ رہ گئے تھے غریب لوئر کلاس اب قصائی کا ٹوکا اس کی گردن پر چل رہا ہے۔ کہاں ہے اس کی قابلیت، کہاں ہیں 100 بندے جنہوں نے ملک کو اٹھانا تھا؟ اس نے تو غریب کو ہی اٹھا دیا، مار دیا، یہ وژن ہوتا ہے؟ یہ قابلیت ہوتی ہے؟ اس سے بہتر حکمران کو مودا قصائی بھی ثابت ہو سکتا ہے جسے معلوم ہوتا ہے کہ کب کون سا گوشت بیچنا ہے۔
 

زیرک

محفلین
کٹا پھسیا تے سپریم کورٹ نسیا
جب پی ٹی آئی کو حکومت ملی تو مہاتما تقریر جھاڑ خان نے کہا سب سے پہلے ہمارا احتساب ہو گا، میرا اور وزراء کا کڑا احتساب کیا جائے گا، ہم خوش ہوئے کہ چلو کوئی تو سنتِ عمر فاروق کو اپنائے گا، لیکن وائے حسرتِ خاک شدہ، وہ جو کرپشن کے خلاف تقریریں تھیں، جن کو سن سن کر ہمارے کان پک گئے تھے، وہ سب کھوکھلے دعوے نکلے۔ ڈیڑھ سالہ حکومت میں اور اس سے پہلے ان کی کوشش یہی رہی کہ سیاسی مخالفین کا خوب احتساب ہو۔ جن جن کو اپنے منہ سے چور ڈاکو کہا کرتے تھے، پھر حکومت بنانے کے لیے انہیں گلے لگایا حالانکہ ان کے خلاف نیب مقدمات تھے۔ گزشتہ کے پی کے حکومت میں کے پی کے احتساب کے خلاف کون گیا؟ تقریر جھاڑ خان اور نتیجہ نکلا کے پی کے احتساب کی بندش پر۔ پارٹی میں احتساب کا عمل شروع کیا گیا جس کے انچارج پارٹی آئین ساز سابق جسٹس وجیہہ الحسن تھے، انہوں نے جب کرپٹ مافیا کی نشاندہی کی تو بجائے کرپٹ مافیا کو نکالنے کے وجیہہ الحسن کو ہی پارٹی سے نکالنے کے آرڈر آ گئے۔ پشاور بی آر ٹی تحقیقات کے خلاف اسٹے آرڈر لے لیا، اور مالم جبہ کیس کو لٹکائے رکھا گیا۔ نیب چیئرمین نے ہوا بدلنے کا بات کی تو انہیں وڈیو سکینڈل میں الجھا کر خاموش کروایا گیا اور بعد میں نیب قوانین ہی بدل ڈالے۔ پارٹی فنڈنگ کے خلاف بانی ممبر اکبر ایس بابر نے آواز اٹھائی تو انہیں بھی پارٹی سے نکال دیا گیا، اسی فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن میں کیس کو لٹکانے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے، الیکشن کمیشن کی تشکیل میں بھی روڑے اٹکائے گئے، یہاں تک کہ الیکشن کمشنر کے اپوزیشن لیڈر کی جانب سے تقرری کے استحقاق کو بھی نہیں مانا گیا۔ عمران خان نے خدا خدا کر کے اپنی مرضی کا الیکشن کمشنر لگوایا تو اب اس کیس کو نہ چلنے دینے کا ایک اور حربہ بھی آزمایا جا رہا ہے۔یہ کیس 2014 سے چل رہا ہے اسے رکوانے کیلئے 7 دفعہ اسلام ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر چکے ہیں۔ اچھا ایک اور بات یاد دلاتا چلوں کیونکہ آج کل عمران خان کا دماغ ٹھیک کام نہیں کر رہا، ان کی پارٹی کی جانب سے فارن فنڈنگ کے سلسلے میں ہی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جا چکی ہے۔ سمجھے یا نہیں سمجھے؟ اور آج مہاتما وزیراعظم عمران خان نے بطور چیئرمین پی ٹی آئینے اپنی پارٹی کے فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، مار اوئے ڈپٹی تے گنڑ ہک وی نا۔ غرض اپنے خلاف مقدمات اور الزامات کیتحقیقات روکنے کے لیے صرف قانونی رستے اختیار کیے جا رہے ہیں بلکہ تمام غیر قانونی ہتھکنڈے بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ بقول اکبر ایس احمد کے "ان کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس سے پیچھے ہٹنے کے لیے دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ دھمکیوں کا سلسلہ پی ٹی آئی اور پارٹی دفتر سے ملتا ہے، یہ دھمکیاں مجھے جن پہ کیس کیا ہے انہی کے کرتا دھرتا دے رہے ہیں، میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں پارٹی کو ادارہ بنانا چاہتا تھا"۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن فارن فنڈنگ کیس میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے عمران خان نے اپنی پوشیدہ کرپشن کو باقاعدہ ظاہر کر دیا ہے اور اس بحث کا دروازہ بھی کھول دیا ہے کہ ممکنہ طور پر انہوں نے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں سے سرمایہ لیا ہے۔ کٹا پھسیا تے سپریم کورٹ نسیا لیکن قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں جلد یا بدیر مجرم کی گردن تک ضرور پہنچتے ہیں۔ ڈھٹائی کی تمام حدیں کراس کر لی گئیں ہیں ایف آئی اے کی تحقیقات ہوں تو یہ وہاں سے بھاگتے ہیں، نیب کی تحقیقات ہوں تو نیب کے پر کترتے ہیں، الیکشن کمیشن پارٹی فنڈنگ کی تحقیقات کرے تو اس کے دارۂ کار کو چیلنج کرتے ہیں، ہائی کورٹ خلاف فیصلہ دے تو سپریم کورٹ کے پاس بھاگتے ہیں، اب اگر وہاں سے بھی منہ کالا ہوا تو کیا نوازشریف کی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان پر حملہ کر دو گے؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
۔ نوازشریف نے گڑھا کھودا کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو اس ملک کا شہنشاہ بننے نہیں دینا چاہتا تھا۔
جب ملک ہی باقی نہ رہے گا تو حکومت کس پر کرے گا؟ نواز شریف تیزی کے ساتھ ملک کو دیوالیہ پن کی طرف لے جا رہا تھا۔ اگر عمران کی جگہ کسی اور کو اقتدار ملتا تو بھی ملک انہی مالی مشکلات کا شکار ہوتا جیسا کہ آج ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ عمران خان اپنے بلائنڈ وژن کی وجہ سے یہ دلدل نہیں دیکھ پایا اور وہاں اس کی نااہلی سامنے آتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں چھپی دلدل نہیں دیکھ پایا۔
آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی خارجہ معیشت مستحکم کرنے کیلئے بالکل صحیح ہیں۔ جو ریکارڈ خسارے اور قرضوں کی اقساط پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی تھی وہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ملک کی معاشی سمت درست ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نتیجہ آج ملک کی معیشت، عوام سبھی دلدل میں ہیں۔ تمہارا دماغ کام نہیں کرتا کیونکہ تمہارے لیڈر نے اپنی سیاست کو ڈوبتا دیکھ کر پہلے سے زیادہ سخت شرائط پر قرضے لیے ہیں، پہلے قرضوں میں کچھ نہ کچھ شرائط منوائی گئیں تھیں، عمران خان کے دور کے قرضوں میں تو قوم کو سیدھا سیدھا دلدل میں دھکیلا گیا ہے۔
یہ عجیب ڈھیٹ قوم ہے جو آئی ایم ایف سے 21 سے زائد بار قرضے لینے پر رتی برابر شرم محسوس نہیں کرتی لیکن اگر اپنی مرضی کی شرائط پر قرضہ نہ ملے تو اسے قومی غیرت اور خودمختاری کے مروڑاٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
2730j3nmmky21.jpg

او بھائی آئی ایم ایف کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان ہی جب ہر 5 سال بعد ایڑیاں رگڑتا ، پیالہ پکڑ کر آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو وہاں سے بھیک ملتی ہے۔ شرم اس بات پر نہیں آتی کہ وہاں بار بار کیوں جانا پڑتا ہے۔ لیکن اس بات پر آ رہی ہے کہ بھیک دینے والے نے بھکاری کی شرائط کیوں نہیں مانی۔ Beggars can't be choosers
 

جاسم محمد

محفلین
جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے کہ کام ہی نہیں کریں گے بیٹھ کے کھائیں گے، نتیجہ روزگار ختم مڈل کلاس کا روزگار کیا مڈل کلاس ختم۔ رہ گئے تھے غریب لوئر کلاس اب قصائی کا ٹوکا اس کی گردن پر چل رہا ہے۔ کہاں ہے اس کی قابلیت، کہاں ہیں 100 بندے جنہوں نے ملک کو اٹھانا تھا؟ اس نے تو غریب کو ہی اٹھا دیا، مار دیا، یہ وژن ہوتا ہے؟ یہ قابلیت ہوتی ہے؟ اس سے بہتر حکمران کو مودا قصائی بھی ثابت ہو سکتا ہے جسے معلوم ہوتا ہے کہ کب کون سا گوشت بیچنا ہے۔
کاروباری طبقہ معیشت کو دستاویزی کرنے کی ڈیمانڈ پر خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جیسے معیشت پچھلے 72 سال سے ٹیکس نیٹ سے باہر چل رہی ہے ویسے ہی اب بھی چلے۔ یوں وہ اپنی اصل آمدن چھپا کر ٹیکس نیٹ سے بچنا چاہتا ہے۔ اس لئے ہر وقت حکومت پر گولہ باری کرنے کی بجائے ملک کے امیر طبقہ کو لیکچر دیں جو مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔
FBR unit unearths novel way of evading tax - Pakistan - DAWN.COM
 

زیرک

محفلین
کاروباری طبقہ معیشت کو دستاویزی کرنے کی ڈیمانڈ پر خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جیسے معیشت پچھلے 72 سال سے ٹیکس نیٹ سے باہر چل رہی ہے ویسے ہی اب بھی چلے۔ یوں وہ اپنی اصل آمدن چھپا کر ٹیکس نیٹ سے بچنا چاہتا ہے۔ اس لئے ہر وقت حکومت پر گولہ باری کرنے کی بجائے ملک کے امیر طبقہ کو لیکچر دیں جو مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔
FBR unit unearths novel way of evading tax - Pakistan - DAWN.COM
کاروباری طبقہ اپنی منوا رہا ہے، میں کئی ایسے کاروباری افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے ٹیکس نیٹ میں بڑے ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے بزنسز کو کم ترین سطح پر رکھا ہوا ہے، چار ملازم تھے تو اب ایک سے کام چلا رہے ہیں، بچے باہر بھجوا دئیے ہیں، اور دھیرے دھیرے کاروبار دبئی، ملائیشیا منتقل کر رہے ہیں۔ حکومت نے بھی مشکل حالات کو بھانپ لیا ہے اور وہ اندر خانے ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کی طرف جا رہی ہے بلکہ یوں سمجھو کہ جا چکی ہے۔
 

زیرک

محفلین
جب ملک ہی باقی نہ رہے گا تو حکومت کس پر کرے گا؟ نواز شریف تیزی کے ساتھ ملک کو دیوالیہ پن کی طرف لے جا رہا تھا۔ اگر عمران کی جگہ کسی اور کو اقتدار ملتا تو بھی ملک انہی مالی مشکلات کا شکار ہوتا جیسا کہ آج ہے۔
حکومت اپنے قول پر پوری نہیں اتری، احتساب سب سے بڑا نعرہ تھا، سب سے پہلے اسی کی قربانی دی کیونکہ خود پھنس رہے تھے۔ ٹیکسیشن اور مہنگائی کا بوجھ سب پر منتقل نہیں کر سکی، غریب پر ڈال دیا گیا ہے جو غلط ہے، سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا ہے کہ غریب کے حلق میں ایڈجسٹمنٹ کا خنجر اتار دیا گیا ہے۔ واپڈا میں کام کرنے والوں کی بجلی فری، سوئی گیس والوں کی گیس فری، حکومت اور مقدس گائے کی گیس بجلی فری، علاج فری، دیگر خرچے و مراعات فری اور یہ سب ادا کر رہا ہے غریب۔ جس جس کا خرچ بنتا ہے وہ لو میں خاموش ہو جاؤں گا، مجھے کتے نے نہیں کاٹا کہ ہر وقت حکومت کے خلاف لکھوں، جو کام ہو سکتا ہے وہ تو کریں ناں۔
 

زیرک

محفلین
پی ٹی آئی کے پی کے پریشر گروپ کے کرتا دھرتا 3 وزراء صوبائی کابینہ سے نکال دیئے گئے
کے پی کے حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پی ٹی آئی کے پی کے پریشر گروپ کے کرتا دھرتا 3 وزراء صوبائی کابینہ سے نکال دیا گیا ہے۔نکالے گئے وزراء میں سینئر وزیر عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل احمد خان شامل ہیں۔ عاطف خان کے پی کے کی وزارت علیہ کے لیے کوششیں کر رہے تھے، شہرام ترکئی ان کے دستِ راست سمجھے جاتے ہیں جبکہ انہیں نکالنے کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ جمعہ کو پریشر گروپ نے حیات آباد میں ایک خفیہ میٹنگ کی جس کی صدارت شہرام ترکئی نے کی تھی۔ حیات آباد میٹنگ کا ایجنڈا حکومتی اور وزیرِ اعلیٰ محمود خان کی کرپشن تھا، جمعے کو ہونے والے اس اجلاس کی 5 وزراء سمیت 40 ارکانِ اسمبلی کو دعوت دی گئی تھی اطلاعات کے مطابق اس میٹنگ میں 3 وزراء سمیت 8 اراکینِ صوبائی اسمبلی نے شرکت کی تھی۔ تین وزراء کی برطرفی کے بعد پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے وزیرِ بلدیات عنایت اللہ بول پڑے، انہوں نے کہا کہ "عاطف خان، شہرام ترکئ اور شکیل احمد خان کو وزارت سے ہٹانے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف اپنے صفوں کے اندر ہوش مند آوازوں کو برداشت نہیں کر سکتی"۔ عنایت اللہ نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ " پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) صوبائی دارالحکومت کی ترقی کا نہیں تباہی کا منصوبہ ہے"۔
 

زیرک

محفلین
وہ جس کام کو رشوت کہتا تھا اب خود بھی یہی رشوت دے رہا ہے
وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی پنجاب کے ناراض اراکین صوبائی کے ساتھ ملاقات کی، انہوں نے صوبائی انتظامیہ کو تنبیہ کی کہ "کسی بھی علاقے کے ترقیاتی کاموں کو نہ روکا جائے"۔ مار اوئے ڈپٹی تے گنڑ ہک وی نہ۔ یاد ہے یہی بندہ کہا کرتا تھا کہ "ارکان اسمبلی کے صوابدیدی فنڈز( گلیاں، نالیاں، سڑکیں اور کھمبے) سیاسی رشوت ہیں، اب خود رشوت بانٹنے کے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں، وقت بھی کیسے کیسے تھوکا چٹواتا ہے کیوں نہ ہو حکومت بچانے کے لیے یو ٹرن لینا، جھوٹ بولنا سب جائز ہو چکا ہے۔
 

زیرک

محفلین
3 یونٹ واپڈا کی بجلی کا 1300 روپے بل
نومبر 2019 کو گھر کومکمل طور پر سولر انرجی پر منتقل کر دیا تھا، لیکن پھر بھی سرکاری ٹوکا چل کے ہی رہا۔ پچھلے ماہ کل ملا کر 3 یونٹ سرکاری بجلی خرچ ہوئی، اور تبدیلی سرکار نے اپنے گھر سمیت تمام مقدس گائیوں کا بل ایڈجسٹمنٹ سمیت بل 1300 روپے میرا منہ پر دے مارا ہے کہ چاہے کچھ بھی کر لو حکومتی قصائی اپنی بوٹی ضرور کاٹے گا، بل سامنے پڑا منہ چڑا رہا ہے۔
 

زیرک

محفلین
یہ عجیب ڈھیٹ قوم ہے جو آئی ایم ایف سے 21 سے زائد بار قرضے لینے پر رتی برابر شرم محسوس نہیں کرتی لیکن اگر اپنی مرضی کی شرائط پر قرضہ نہ ملے تو اسے قومی غیرت اور خودمختاری کے مروڑاٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ Beggars can't be choosers
موٹے دماغ، قرضہ ہر ملک لیتا ہے، امریکا جیسا ملک بھی قرض پر چلتا ہے، قرض لینا مسئلہ نہیں ہے؟ کن شرطوں پر لیا ہے یہ مسئلہ ہوتا ہے، جن بد بختوں کو ڈیلنگ کے وقت شرائط میں دلدل نظر نہ آئے انہیں حکومت کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، چند افراد کی عقلبندی کی وجہ سے قوم کی مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
موٹے دماغ، قرضہ ہر ملک لیتا ہے، امریکا جیسا ملک بھی قرض پر چلتا ہے، قرض لینا مسئلہ نہیں ہے؟ کن شرطوں پر لیا ہے یہ مسئلہ ہوتا ہے، جن بد بختوں کو ڈیلنگ کے وقت شرائط میں دلدل نظر نہ آئے انہیں حکومت کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، چند افراد کی عقلبندی کی وجہ سے قوم کی مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔
امریکہ قرضہ نہیں لیتا ٹریژری بانڈز یا ٹی بلز جاری کرتا ہے۔ یہی کام پاکستان بھی کرتا ہے۔ اس کیلئے خاص شرائط نہیں ہوتی۔ شرائط صرف اس قرض پر ہوتی ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ سے لیا جائے۔ ان شرائط کا مقصد ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوتا ہے اسے لوٹنا نہیں۔
 

زیرک

محفلین
امریکہ قرضہ نہیں لیتا ٹریژری بانڈز یا ٹی بلز جاری کرتا ہے۔ یہی کام پاکستان بھی کرتا ہے۔ اس کیلئے خاص شرائط نہیں ہوتی۔ شرائط صرف اس قرض پر ہوتی ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ سے لیا جائے۔ ان شرائط کا مقصد ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوتا ہے اسے لوٹنا نہیں۔
میں نے قرض کو کبھی برا نہیں کہا، ہاں قرض کے لیے شرائط کو نظرانداز کرنے اور کڑی شرائط کے برے اثرات پر ضرور بات کی ہے۔ بڑے عرصے سے اس بات کو حکام کے بند کانوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اعتماد میں لا کر ماضی سے بہتر طریقہ اپنا کر آئی ایم ایف کے شکنجے سے بچا جا سکتا ہے، مگر ہمارے حکام کی عادت بن چکی ہے کہ اپنوں کو ذبح کرتے ہیں اور دوسروں کے ہاتھوں خود کو ذبح کرواتے ہیں اور پھر سارا بوجھ عوام پر منتقل کر دیتے ہیں۔
 
Top