کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو نیچو نیچ ہی سمجھو (اقتباس)
حسن نثار اپنے کالم میں رقم طراز ہیں کہ ’’حکومت حکمت سے چلتی ہے لیکن یہ تو حماقت اور حقارت کے فیول پر حکومتی گاڑی چلانے پر بضد ہیں، جو مٹھی بھر اتحادیوں کو متحد اور راضی نہ رکھ سکے، اسے اللّٰہ ہی رکھے تو رکھے، ان کا اپنا موڈ اور میٹر کچھ اور ہی بتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے قائد کی تو پھر بھی کچھ سمجھ آتی ہے کہ اس کے کریڈٹ پہ بہت کچھ ہے لیکن جب ذاتی حیثیت میں صفر اور ٪100 ’’ری فلیکٹڈ گلوری‘‘ میں خوامخواہ اچھلتے کودتے بونے اور سیاسی بالشتیئے’’جنات‘‘ دکھائی دینے کی اداکاری کرتے ہیں تو غصہ بھی آتا ہے۔ کوفت بھی بہت ہوتی ہے لیکن حیرت ہے کہ جسے قیمت چکانی پڑے گی اسے خبر ہی نہیں‘‘۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
’’اب جو وِرد شروع ہے کہ ’’اتحادیوں کے تحفظات دور کریں گے‘‘ تو سوچنا انہیں یہ چاہئے کہ اس کی نوبت کیوں اور کیسے آئی؟ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے چودھری برادران جیسے لوگوں کو بھی زچ کر دیا جو بار بار عہد شکنی کے باوجود عرصۂ دراز تک شریفوں کو بھی برداشت کرتے رہے کہ وضعدار لوگ ہیں۔ ایم کیو ایم و دیگر کی بیزاری بھی حکومت نے بڑی محنت سے کمائی ہے۔ جسے دیکھو ہوا کے گھوڑے پر سوار چابک پہ چابک چلائے جا رہا ہے اور ان باتوں، حرکتوں سے بھی باز نہیں آرہے جن کے بغیر بہ آسانی گزارہ ہو سکتا ہے۔ یا تو آتے ہی بھاری پتھر چوم اور چھوڑ کر چلے جاتے لیکن اب تو بری طرح پھنس گئے۔ ٹرم پوری کرو تاکہ کچھ دال دلیا کر سکو ورنہ رستے میں ہی رہ گئے تو سمجھو گئے کام سے۔ وہی حال ہو گا جو کچی یاریاں ٹوٹنے والیوں کا ہوتا ہے‘‘۔
کچی ٹُٹ گئی جنہاں دی یاری پتناں تے رون کھڑیاں
’’اس نازک مقام اور مرحلہ پر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو نیچو نیچ ہی سمجھو، مختصراً یہ کہ مہم جوئی ہرگز نہیں، ہر قیمت پر ٹرم پوری کرو ورنہ قیمت چکانی ناممکن ہو جائے گی۔ کم ازکم منہ دکھانے جوگا وقت تو حاصل کر لو ورنہ سمجھو22سال کی محنت ڈیڑھ دوسالہ حکومت میں برباد ہو گئی‘‘۔