مہدی نقوی حجاز
محفلین
نایاب نظم: "آج کی رات!
دیدنی ہے مری محفل کا سماں آج کی رات
موج صہبا میں ہے رقصِ دو جہاں آج کی رات
تل گیا ہے کوئی اس طرح گل افشانی پر
ذرے ذرے پہ ہے جنت کا گماں آج کی رات
قابلِ دید ہے بکھرے ہوئے پھولوں کی بہار
ہر شکن فرش کی ہے کاہکشاں آج کی رات
ایک موہوم سا نقطہ ہے جہاں ارض و سما
ایسا اک دائرہ ہے رطلِ گراں آج کی رات
اثر مئے سے ہے پگھلا ہوا سونا گویا
عرق آلودہ رخِ سیمبراں آج کی رات
پرتوئے بادہِ روشن سے ہے بے گرد و غبار
افقِ عربدہِ زہرہ و شاں آج کی رات
قابلِ نظم نہیں فطرت خوباں اس وقت
قادرِ جور نہیں طبع بتاں آج کی رات
شمع ہے قابل پروانہِ آشفتہ مزاج
حسن ہے مائلِ صاحب نظراں آج کی رات
آبِ حیواں کا نہ کر ذکر کہ حاصل ہے مجھے
دولتِ قربِ مسیحا نفساں آج کی رات
جوئے کہسار کے مانند گزر عالم سے
یہ ہے فرمانِ جہانِ گزراں آج کی رات
اف رہی ساحل پہ غزلہائے رواں کے ہلچل
اک تلاطم ہے سرِ آب رواں آج کی رات
غلغلہ ساز کا ہے، دیر مغاں سے لے کر
تا بہ خلوت گہہِ حورانِ جناں آج کی رات
جیسے بھیگی ہوئی زلفوں کی مہک عود آمیز
نفس شام ہے یوں مشک فشاں آج کی رات
خادمانِ درِ ساقی کے سروں پر کج ہے
کلہِ خواجگیِ کون و مکاں آج کی رات
حلقہ باندھے ہوئے مے خوار ہیں سر گرمِ طواف
جوشؔ ہے قبلہِ رندانِ جہاں آج کی رات
حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی
۱۹۳۴ع
دیدنی ہے مری محفل کا سماں آج کی رات
موج صہبا میں ہے رقصِ دو جہاں آج کی رات
تل گیا ہے کوئی اس طرح گل افشانی پر
ذرے ذرے پہ ہے جنت کا گماں آج کی رات
قابلِ دید ہے بکھرے ہوئے پھولوں کی بہار
ہر شکن فرش کی ہے کاہکشاں آج کی رات
ایک موہوم سا نقطہ ہے جہاں ارض و سما
ایسا اک دائرہ ہے رطلِ گراں آج کی رات
اثر مئے سے ہے پگھلا ہوا سونا گویا
عرق آلودہ رخِ سیمبراں آج کی رات
پرتوئے بادہِ روشن سے ہے بے گرد و غبار
افقِ عربدہِ زہرہ و شاں آج کی رات
قابلِ نظم نہیں فطرت خوباں اس وقت
قادرِ جور نہیں طبع بتاں آج کی رات
شمع ہے قابل پروانہِ آشفتہ مزاج
حسن ہے مائلِ صاحب نظراں آج کی رات
آبِ حیواں کا نہ کر ذکر کہ حاصل ہے مجھے
دولتِ قربِ مسیحا نفساں آج کی رات
جوئے کہسار کے مانند گزر عالم سے
یہ ہے فرمانِ جہانِ گزراں آج کی رات
اف رہی ساحل پہ غزلہائے رواں کے ہلچل
اک تلاطم ہے سرِ آب رواں آج کی رات
غلغلہ ساز کا ہے، دیر مغاں سے لے کر
تا بہ خلوت گہہِ حورانِ جناں آج کی رات
جیسے بھیگی ہوئی زلفوں کی مہک عود آمیز
نفس شام ہے یوں مشک فشاں آج کی رات
خادمانِ درِ ساقی کے سروں پر کج ہے
کلہِ خواجگیِ کون و مکاں آج کی رات
حلقہ باندھے ہوئے مے خوار ہیں سر گرمِ طواف
جوشؔ ہے قبلہِ رندانِ جہاں آج کی رات
حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی
۱۹۳۴ع