عبدالقدیر 786
محفلین
سید ابولاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی کسی ولی اللہ کو دیکھا ہے ؟ سید مودودی رحمہ اللہ نے جواب دیا ہاں ابھی 2 دن پہلے ہی لاہور اسٹیشن پر دیکھا ہے۔ ہماری گاڑی جیسے ہی رکی تو قلیوں نے دھاوا بول دیا اور ہر کسی کا سامان اٹھانے اور اٹھا اٹھا کر بھاگنے لگے لیکن میں نے ایک قلی کو دیکھا کہ وہ اطمینان سے نماز میں مشغول ہے۔ جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے اسے سامان اٹھانے کو کہا۔ اس نے سامان اٹھایا اور میری مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا۔میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کردیا ۔ اس نے 4 آنے اپنے پاس رکھے اور باقی مجھے واپس کردئیے۔ میں نے اس سے عرض کی کہ ایک روپیہ پورا رکھ لو لیکن اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :نہیں صاحب !میری مزدوری 4آنے ہی بنتی ہے۔
آپ یقین کریں ہم سب ولی اللہ بننے اور اللہ کے ولیوں کو ڈھونڈنے میں دربدر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مشکل ترین ریاضتوں ، مشقتوں اور مراقبوں سے گزرنا پڑیگا۔ سار ی ساری رات نوافل میں گزارنی پڑیگی یا شاید گلے میں تسبیح ڈال کر میلے کچیلے کپڑے پہن کر اللہ ہو کی صدائیں لگانا پڑے گی، تب ہم ولی اللہ کے درجے پر پہنچ جائینگے۔ آپ کمال ملاحظہ کریں۔ ہماری آدھی سے زیادہ قوم بھی اُس کو ہی’’ پہنچا ‘‘ہوا سمجھتی ہے جو اَبنارمل حرکتیں کرتا نظر آئیگا۔ جو رومال میں سے کبوتر نکال دے یا عاشق کو آپ کے قدموں میں ڈال دے۔
اللہ کا دوست بننے کے لیے تو اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے۔ قربانی ، ایثار اور انفاق کو اپنی ذات کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے اپنے ابا جی سے پوچھا کہ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے ؟ انھوں نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگے :بیٹا ! کسی ایک کے آگے اپنی انا کو مارنا عشق مجازی ہے اور ساری دنیا کے سامنے اپنی انا کو مارلینا عشق حقیقی ہے۔حضرت جنید بغدادی اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے۔ انکے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور ، نحیف اور لاغر شخص آگیا۔ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا۔مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا دیکھو جنید ! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے، میں بے انتہا غریب اور مجبور ہوں۔ اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازے گالیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندو بست کرنا میرے لیے مشکل ہوجائیگا۔مقابلہ ہوا اور جنید بغدادی ہار گئے۔ بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں بار ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی۔بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا، جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور تمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو جائیگا جنید پر تھوکتا ہوا جائیگا۔ جنید بغدادی کی انا خاک میں مل گئی لیکن ان کی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لیے آسمانوں پر سنا دیا گیا۔
ولی تو وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردے۔جو کسی کو جینے کی امنگ دیدے، چہرے پر خوشیاں بکھیر دے۔ جب کبھی بحث کا موقع آئے تو اپنی دلیل اور حجت روک کر سامنے والے کے دل کو ٹوٹنے سے بچالے ۔اس سے بڑا ابدال بھلا کون ہوگا ؟
رسول اللہنے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا :
’’معاذ!تمھیں وہ عمل نہ بتاؤں جو بغیر حساب کتاب کے تمھیں جنت میں داخل کروادے ؟‘‘سیدنا معاذ ؓ ؓنے عرض کیا: ضرور یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا :’’معاذ ! مشقت کا کام ہے کروگے ؟‘‘
ضرور کروں گا یارسول اللہ ، سیدنامعاذ ؓ نے جواب دیا۔
آپ نے پھر فرمایا :
’’معاذ! مسلسل کرنے کا کام ہے کروگے ؟‘‘
سیدنامعاذ ؓنے جواب دیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ۔
آپ نے فرمایا:’’ اے معاذ ! اپنے دل کو ہر ایک کے لیے شیشے کی طرح صاف اور شفاف رکھنا ،بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجاوگے۔‘‘حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ نے فرمایا :جس کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہے وہ مکار ہے اور جس کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے وہ ولی ہے۔ ولایت شخصیت نہیں کردار میں نظر آتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور چند دن رہنے کی اجازت مانگی۔ آپ نے اجازت دیدی۔ وہ کچھ دن ساتھ رہا اور انتہائی مایوس انداز میں واپس جانے لگا۔ ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ نے پوچھا :کیا ہوا برخوردار ! کیوں آئے تھے اور واپس کیوں جارہے ہو ؟ اس نے کہا حضرت آپ کا بڑا چرچا سنا تھا۔ اس لیے آیا تھا کہ دیکھوں کہ آپ کے پاس کونسی کشف و کرامات ہیں۔ اتنا بول کر وہ نوجوان خاموش ہوگیا۔ ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ نے پوچھا :پھر کیا دیکھا ؟ کہنے لگا میں تو سخت مایوس ہوگیا۔ میں نے تو کوئی کشف اور کرامت وقوع پذیر ہوتے نہیں دیکھی۔ ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ نے پوچھا :نوجوان ! یہ بتاؤ،اس دوران تم نے میرا کوئی عمل خلاف شریعت دیکھا ؟ یا کوئی کام اللہ اور اسکے رسول کے خلاف دیکھا ہو ؟ اس نے فورا ًجواب دیا نہیں ایسا تو واقعی کچھ نہیں دیکھا۔ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ مسکرائے، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے:’’ بیٹے ! میرے پاس اس سے بڑا کشف اور اس سے بڑی کرامت کوئی اور نہیں ہے۔‘‘ جو شخص فرائض کی پابندی کرتا ہو۔کبائر سے اجتناب کرتا ہو۔لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرتا ہو۔آپ مان لیں کہ اس سے بڑا ولی کوئی نہیں ہوسکتا ۔اللہ کے ولی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ صاحب حال ہوتا ہے۔نہ ماضی پر افسوس کرتا ہے اور نہ مستقبل سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ اپنے حال پر خوش اور شکر گزار رہتا ہے۔جو اپنے سارے غموں کو ایک غم یعنی آخرت کا غم بنا کر دنیا کے غموں سے آزاد ہوجائے وہی وقت کا ولی ہے۔
ایک صحابیؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :
’’صبر کرنا اور معاف کرنا۔‘‘
قارئین کرام !آپ یقین کریں، تہجد پڑھنا ، روزے رکھنا آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا مشکل ہے۔
رسول اللہنے فرمایا:’’ اسلام کا حسن یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلائواور ہمیشہ اچھی بات زبان سے نکالو۔‘‘
جو صبر کرنا سیکھ لے ، بھوکوں کو کھانا کھلائے ، ہمیشہ اچھی بات اپنی زبان سے نکالے اور لوگوں کے لیے اپنے دل کو صاف کرلے اُس سے بڑا ولی بھلا اور کون ہوسکتا ہے ؟
یاد رکھیں، جو لوگوں سے شکوہ نہیں کرتا ،جس کی زندگی میں اطمینان ہے وہی ولی ہے۔ جس کے دل کی دنیا میں آج جنت ہے وہی وہاں جنتی ہے اور جس کا دل ہر وقت شکوے ،شکایتوں ، حسد ، کینہ ، بغض ، لالچ اور ناشکری کی آگ سے سلگتا رہتا ہے، وہاں بھی اس کا ٹھکانہ یہی ہے۔
فرائض کی پابندی کیجیے ،کبائر سے اجتناب کیجیے ،حال پر خوش رہیے ،لوگوں کی زندگیوں میں آسانیا ں پیدا کیجیے ،اور وقت کے ولی بن جائیے۔
یہ لکھائی اِس ویب سائٹ سے لی گئی ہے شکریہ
آپ یقین کریں ہم سب ولی اللہ بننے اور اللہ کے ولیوں کو ڈھونڈنے میں دربدر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مشکل ترین ریاضتوں ، مشقتوں اور مراقبوں سے گزرنا پڑیگا۔ سار ی ساری رات نوافل میں گزارنی پڑیگی یا شاید گلے میں تسبیح ڈال کر میلے کچیلے کپڑے پہن کر اللہ ہو کی صدائیں لگانا پڑے گی، تب ہم ولی اللہ کے درجے پر پہنچ جائینگے۔ آپ کمال ملاحظہ کریں۔ ہماری آدھی سے زیادہ قوم بھی اُس کو ہی’’ پہنچا ‘‘ہوا سمجھتی ہے جو اَبنارمل حرکتیں کرتا نظر آئیگا۔ جو رومال میں سے کبوتر نکال دے یا عاشق کو آپ کے قدموں میں ڈال دے۔
اللہ کا دوست بننے کے لیے تو اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے۔ قربانی ، ایثار اور انفاق کو اپنی ذات کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے اپنے ابا جی سے پوچھا کہ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے ؟ انھوں نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگے :بیٹا ! کسی ایک کے آگے اپنی انا کو مارنا عشق مجازی ہے اور ساری دنیا کے سامنے اپنی انا کو مارلینا عشق حقیقی ہے۔حضرت جنید بغدادی اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے۔ انکے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور ، نحیف اور لاغر شخص آگیا۔ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا۔مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا دیکھو جنید ! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے، میں بے انتہا غریب اور مجبور ہوں۔ اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازے گالیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندو بست کرنا میرے لیے مشکل ہوجائیگا۔مقابلہ ہوا اور جنید بغدادی ہار گئے۔ بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں بار ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی۔بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا، جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور تمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو جائیگا جنید پر تھوکتا ہوا جائیگا۔ جنید بغدادی کی انا خاک میں مل گئی لیکن ان کی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لیے آسمانوں پر سنا دیا گیا۔
ولی تو وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردے۔جو کسی کو جینے کی امنگ دیدے، چہرے پر خوشیاں بکھیر دے۔ جب کبھی بحث کا موقع آئے تو اپنی دلیل اور حجت روک کر سامنے والے کے دل کو ٹوٹنے سے بچالے ۔اس سے بڑا ابدال بھلا کون ہوگا ؟
رسول اللہنے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا :
’’معاذ!تمھیں وہ عمل نہ بتاؤں جو بغیر حساب کتاب کے تمھیں جنت میں داخل کروادے ؟‘‘سیدنا معاذ ؓ ؓنے عرض کیا: ضرور یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا :’’معاذ ! مشقت کا کام ہے کروگے ؟‘‘
ضرور کروں گا یارسول اللہ ، سیدنامعاذ ؓ نے جواب دیا۔
آپ نے پھر فرمایا :
’’معاذ! مسلسل کرنے کا کام ہے کروگے ؟‘‘
سیدنامعاذ ؓنے جواب دیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ۔
آپ نے فرمایا:’’ اے معاذ ! اپنے دل کو ہر ایک کے لیے شیشے کی طرح صاف اور شفاف رکھنا ،بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجاوگے۔‘‘حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ نے فرمایا :جس کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہے وہ مکار ہے اور جس کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے وہ ولی ہے۔ ولایت شخصیت نہیں کردار میں نظر آتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور چند دن رہنے کی اجازت مانگی۔ آپ نے اجازت دیدی۔ وہ کچھ دن ساتھ رہا اور انتہائی مایوس انداز میں واپس جانے لگا۔ ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ نے پوچھا :کیا ہوا برخوردار ! کیوں آئے تھے اور واپس کیوں جارہے ہو ؟ اس نے کہا حضرت آپ کا بڑا چرچا سنا تھا۔ اس لیے آیا تھا کہ دیکھوں کہ آپ کے پاس کونسی کشف و کرامات ہیں۔ اتنا بول کر وہ نوجوان خاموش ہوگیا۔ ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ نے پوچھا :پھر کیا دیکھا ؟ کہنے لگا میں تو سخت مایوس ہوگیا۔ میں نے تو کوئی کشف اور کرامت وقوع پذیر ہوتے نہیں دیکھی۔ ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ نے پوچھا :نوجوان ! یہ بتاؤ،اس دوران تم نے میرا کوئی عمل خلاف شریعت دیکھا ؟ یا کوئی کام اللہ اور اسکے رسول کے خلاف دیکھا ہو ؟ اس نے فورا ًجواب دیا نہیں ایسا تو واقعی کچھ نہیں دیکھا۔ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ مسکرائے، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے:’’ بیٹے ! میرے پاس اس سے بڑا کشف اور اس سے بڑی کرامت کوئی اور نہیں ہے۔‘‘ جو شخص فرائض کی پابندی کرتا ہو۔کبائر سے اجتناب کرتا ہو۔لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرتا ہو۔آپ مان لیں کہ اس سے بڑا ولی کوئی نہیں ہوسکتا ۔اللہ کے ولی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ صاحب حال ہوتا ہے۔نہ ماضی پر افسوس کرتا ہے اور نہ مستقبل سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ اپنے حال پر خوش اور شکر گزار رہتا ہے۔جو اپنے سارے غموں کو ایک غم یعنی آخرت کا غم بنا کر دنیا کے غموں سے آزاد ہوجائے وہی وقت کا ولی ہے۔
ایک صحابیؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :
’’صبر کرنا اور معاف کرنا۔‘‘
قارئین کرام !آپ یقین کریں، تہجد پڑھنا ، روزے رکھنا آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا مشکل ہے۔
رسول اللہنے فرمایا:’’ اسلام کا حسن یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلائواور ہمیشہ اچھی بات زبان سے نکالو۔‘‘
جو صبر کرنا سیکھ لے ، بھوکوں کو کھانا کھلائے ، ہمیشہ اچھی بات اپنی زبان سے نکالے اور لوگوں کے لیے اپنے دل کو صاف کرلے اُس سے بڑا ولی بھلا اور کون ہوسکتا ہے ؟
یاد رکھیں، جو لوگوں سے شکوہ نہیں کرتا ،جس کی زندگی میں اطمینان ہے وہی ولی ہے۔ جس کے دل کی دنیا میں آج جنت ہے وہی وہاں جنتی ہے اور جس کا دل ہر وقت شکوے ،شکایتوں ، حسد ، کینہ ، بغض ، لالچ اور ناشکری کی آگ سے سلگتا رہتا ہے، وہاں بھی اس کا ٹھکانہ یہی ہے۔
فرائض کی پابندی کیجیے ،کبائر سے اجتناب کیجیے ،حال پر خوش رہیے ،لوگوں کی زندگیوں میں آسانیا ں پیدا کیجیے ،اور وقت کے ولی بن جائیے۔
یہ لکھائی اِس ویب سائٹ سے لی گئی ہے شکریہ