عبدالرزاق قادری
معطل
پریس۔رپورٹ : موجودہ جمہوریت ایک دغا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور مثالی تھا۔ ان خیالات کا اظہارعلامہ مفتی محمد ارشدالقادری نے فتوحاتِ فاروقی کے عنوان پر خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ وہ گیارہ نومبر بروز اتوار کو جامعہ اسلامیہ رضویہ مرکز تعلیم و تربیت میں ماہانہ اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ مفتی صاحب نے کہاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو کام کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔
چیدہ چیدہ نوٹس
از قلم: عبدالرزاق قادری
ماہ ذی الحج کی ۲۸ یا محرم الحرام کی یکم کو امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ جنگِ قادسیہ کے حوالے سے چند گزارشات کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے انسان اور سب سے عظیم منتظم ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکر اعلیٰ درجے پر تھے۔ ان کا تیقن، ان کا تقویٰ اور ان کا سکینہ بے مثال تھا۔ حضرت ابوبکر کا طریق تھا کہ ایک بندے کے ذمہ کوئی ذمہ داری لگا کر دوبارہ باز پُرس نہ فرماتے بلکہ وہ آدمی خود ہی اس کام کو سر انجام دیتا۔ جبکہ حضرت عمر باز پُرس فرماتے۔ دوسرے افراد کے ذریعے نگرانی کرواتے، اطلاع منگواتے اور اگر کام ٹھیک نہ ہوتا تو معطل فرما دیتے۔ آپ کے اس طرزِ عمل پر مؤرخین کی مختلف آراء ہیں۔ میں کتب تواریخ مثلاً البدایہ والنھایہ ، طبری، محمد حسین ہیکل ، نواز احمد، شبلی، ابن خلدون اور سلیمان بلند پوری کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حضرت عمر کا ہر فیصلہ ہی حق تھا۔آپ کا انداز سب سے زیدہ مؤثر رہا۔ اگرچہ اس میں سختی چھلکتی تھی۔ لیکن ہر فیصلہ حق تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ حضرت ابوبکر کے وقت تک اسلامی خلافت کا رقبہ دس لاکھ مربع میل تھا۔ اور عہد فاورقی کے بعد چھبیس لاکھ مربع میل، یعنی سولہ لاکھ مربع میل کا اضافہ ہوا۔ انبیاء کے بعد اتنا بڑا حکمران کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپ فرماتے تھے ۔ جماعت کے بغیر اسلام نہیں۔ امیر کے بغیر جماعت نہیں۔ اور اطاعت کے بغیر امیر نہیں۔
کوئی خاندا ن یا قوم کیا کام کرتی ہے اور اس کا نتیجہ کیا آتا ہے یہ ان کی جماعت، امیر اور اس کی اطاعت پر منحصر ہے۔ اسلام کوئی مجسم چیز تو نہیں جو کسی کو دکھایا جاسکے، بلکہ اسلام کے ماننے والے انسان ہی کسی کو دکھائے جا سکتے ہیں۔ اگر جماعت ہو امیر نہ ہو تو کام نہیں ہوتا۔ اور اگر امیر ہو اور اطاعت نہ ہوتو کام آگے نہیں بڑھتا۔
حضرت عمر کا طرز:
دس بندوں پر ایک امیر مقرر فرماتے جو ان میں علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور عقل و فہم میں برتر ہوتا ۔
پھر دس امیروں پر ایک امیر ا لاُمراء مقرر فرما دیتے۔ امیر اپنے بندوں سے اور امیرالامراء اپنے تابع امیروں سے پُرسش فرماتے۔
آج کے دور میں سب لوگ نجی کاموں میں مصروف ہو چکے ہیں اگر سب اپنے اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہو جائیں تو اجتماعی تحفظ کا کام کون کرے گا۔ ارتباطِ باہمی سے ہی کام ہوتا ہے۔
مفتی صاحب نے کہا عزت کا تعلق مال و دولت سے نہیں بلکہ اعلیٰ کردار سے ہوتا ہے۔
Money is not the status, Status is the Charater.
We all are the Muslims,
We all are the purely slaves of the
Beloved Muhammad Mustafa
Darling of Allah.
انہوں نے اپنی تقریر میں خوبصورت اشعار کا استعمال بھی کیا۔ جیسا کہ
غلامِ مصطفی بن کر میں بک جاؤں مدینے میں
محمد نام پر سودا، سرِ بازار ہوجائے
انہوں نے کہا کسی نے مجھ سے پوچھا تھا
موجودہ جمہوریت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
میں نے کہا
This democracy is totaly fraud.
یہ راستہ ایک ایسا راستہ ہے جس میں تھوڑے پیسے خرچ کرکے بعد میں زیادہ کمانے کا لالچ ہوتا ہے۔ یہ قوموں کی خدمت کا راستہ نہیں۔ اس سے قوموں کی خدمت نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ آپ بہترخوراک لیں۔ آپ کی قوم کو زیادہ ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا ایک بیٹی ہونے کے ناطے آپ کی رائے ٹھیک ہے۔ مگر میں وہی کھاؤں گا جو قوم کے عام فرد کھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ کے مطالعہ سے مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ چھبیس لاکھ مربع میل کے آخری کونے پر بیٹھا انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ سائے کی طرح سمجھتا تھا۔ خود احتسابی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باز پرس کی فکر ہوتی تھی۔ ہمارے مخالفین مغربی مصنفین نے لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس ایک عمررضی اللہ عنہ اور ہوتا یا جتنا عرصہ ان کو وقت ملا، اتنا اور مل جاتا تو دنیا میں صرف اسلام اور مسلمان ہی مسلمان ہوتے۔ یہ سب کچھ اس نظم کی بدولت تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر خطاب فرماتے حتیٰ کہ اگر کوئی الفاظ گننا چاہتا تو گن لیتا۔
میں نے اپنی زندگی میں مولانا شاہ احمد نورانی کو دیکھا کہ ان کی الفاظ پر گرفت ہوتی، لب و لہجے میں شستگی اور بر موقع ادھر اُدھر کے دلائل کی بجائے قرآن کی آیت پڑھ دیتے۔
لوگ کہتے ہیں۔ مستشرقین کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ آج میں اس کا جواب دیتا ہوں۔
سن ۱۴ ہجری محرم الحرام کو جب سلطنتِ فارس اور سلطنتِ روما آپس میں لڑے اور بکھر گئے۔ تو ایرانیوں نے اپنی ملکہ سے استعفیٰ لے لیا۔ اور اکیس سالہ شہزادے یزد گرد بن شہریار بن کسریٰ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس کا اتنا شاندار استقبال کیا، اتنا سراہا کہ کہ پوری قوم کو بادشاہ کے گرد گھما دیا۔
رُستم سے کہا کہ تم قوم سے کہو۔ اگر بادشاہ کہے تو مسلمانوں پر حملہ کر دو۔ تو کردو۔ اور مدینۃالنبی کو فتح کر لو۔ اس نے بڑھک مار دی۔ جب یہ پیغام مدینے تک پہنچا تو حضرت عمر نے خود کمانڈ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ بعض نے لکھا کہ ایک منزل تک خودساتھ بھی گئے تھے۔ حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبیدہ بن جراح اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم نے آپ کو مرکز میں رہنے کا مشورہ دیا۔ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کے جانے سے اسلام کو نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ نے تمام صوبوں کے حاکموں کو خط لکھ کر فرمایا تھا کہ جہاں کوئی گھوڑے والا اور عاقل ہے اسے میرے پاس بھیج دو۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نجد سے خط لکھا کہ میں ایک ہزار عقلاء کو لے کر مدینہ طیبہ آ رہا ہوں
دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا
اے عمر رضی اللہ عنہ! وہ آگیا ہے جس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا
آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے۔ ان سے فرمایا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
ان سے فرمایا کہ آپ اپنے خاندانی پس منظر کو مٹا دیں تاکہ آپ کے اور دیگر لوگ (جو آپ کی کمانڈ میں ہیں )ان کے مابین انہیں کوئی تفریق محسوس نہ ہو۔
زیادہ سے زیادہ لشکر چوبیس ہزار سے تیس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔
وقت کے اختصار کے پیش نظر مفتی صاحب نے مختصر بتایا کہ قادسیہ کے مقام پر لشکر نے قیام کیا۔ اُدھر رستم کو اطلاع ملی۔ آپ نے ایک وفد رستم کی طرف بھیجا اس کو پیغام بھیجا کہ ایک دن مر جانا ہے۔ اسلام قبول کر لو۔ یہ امن کا دین ہے۔ تمہارا عہدہ قائم رکھیں گے۔
لوگو دیکھو! اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ جہاد سلطنت کی وسعت کے لیے نہیں ہوا۔ مال و دولت کے لیے نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ کا دین پھیلانے کے لیے ہوا۔
وفد گیا۔ رستم نے بات ہی نظر انداز کر دی۔ نہ جزیہ دینا قبول کیا۔ اور نہ ہی اسلام قبول کیا۔ حضرت نعمان جو وفد کے امیر تھے انہوں نے جنگ کا عندیہ دے دیا۔
ایرانیوں کا ایک لاکھ تیس ہزار کا لشکر تھا۔ کیل کانٹے سے لیس۔ بڑے بڑے ہاتھیوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ قادسیہ سے مدائن کے تخت دو رویہ قطار تھی۔ میدانِ جنگ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ قطار کے ذریعے تخت تک جاتی۔ اتنے انتظامات تھے۔ اور مسلمانوں کی صرف تیس ہزار تعدادتھی۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اپنی قوتِ صداقت، دیانت ، شرافت اور حق ہونے کی وجہ سے پھیلا۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تصدق پھیلا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے پھیلا۔ ایرانی لشکر کے فرنٹ پر ہاتھیوں کا لشکر تھا۔ ان کے درمیاں دو بڑے بڑے موٹے ہاتھی تھے۔ وہ پہاڑ ہی لگتے تھے۔سامانِ جنگ بے پناہ تھا۔ اسی اثناء میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ ان کی ٹانگ کو مسئلہ تھا۔لشکر حضرت خالد کے ذمے لگا دیاگیا۔
اب وہ میدان میں نکلے۔ اللہ اکبر
اوئے امریکیو! اب بھی کہتے ہو کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔
ایک طرف ایک لاکھ تیس ہزار اور دوسری طرف صرف تیس ہزار، ایک اور چار کی نسبت تھی۔ ایک بندے کو اگر چار کے حوالے کیا جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ صداقتِ اسلام کا یہیں پتہ چلتا ہے۔ پھر میدانِ کار زار میں صحابہ نے قرآن پڑھ کر وہ زور پیدا کردیا۔ کہ کیا بات ہے۔
لیکن ایرانی حملہ کرکے ہاتھیوں کے پیچھے چھپ جاتے۔ عربی گھوڑے ہاتھیوں سے نا آشنا تھے۔ وہ گھوڑے ڈرتے تھے۔ ہاتھی سونڈ سے بھی وار کرتا تھا۔ گھوڑے بدک بدک کر جاتے۔پہلے دن صحابہ کو نقصان ہوا۔ صحابہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ کیا کریں۔
جب ایک صحابی شہید ہوتا تو اس کی لاش کو دیکھ کر دوسرے فرماتے بھائی تو چل جنت میں، مَیں بھی آرہا ہوں۔
رستم اینڈ کمپنی جینے کی غرض سے آئے تھے۔
اور صحابہ مرنے کے لیے۔
ایرانیوں کو زندگی عزیز تھی،
صحابہ کو موت عزیز تھی۔
حتیٰ کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینۃ النبی کی طرف منہ کر کے پکارا۔
یا رسول اللہ! میں یہاں آ کر بیمار ہو گیا ہوں۔ اگر ہمیں شکست ہو گئی تو قیامت تک لوگ اسلام اور مسلمانوں کو طعنے دیں گے۔
حضرت عمر کو لکھوا بھیجا تھا کہ کمک بھیجیں۔ وہاں سے دوسرے دن تک چھ سے دس ہزار تک کمک آ گئی۔ ان نئے آنے والوں نے کہا آپ تھک گئے ہیں۔ ہم تازہ دم ہیں، ہم لڑتے ہیں۔اس وقت ایک لاکھ تیس ہزار کے مقابلے میں دس ہزار تھے۔ صحابہ کی شجاعت نے مخالف لشکر کو ایک انچ بھی آگے نہ آنے دیا۔ وہ حیران و پریشان تھے کہ ان میں کیا طاقت ہے۔
حضرت سعد بیماری کی بناء پر ایک پہاڑی پر خیمہ میں تھے۔ ایرانی سپاہ کے چھے نوجوانوں نے دور سے حضرت سعد کا چہرہ مبارک دیکھا۔ نبی پاک کے ماموں کے پاس آنے کی خواہش کی۔ ان کوپہنچایاگیا۔ انہوں نے دونوں لشکروں کی تعداد بتا کر متقابلی جائزہ پوچھا اور کہا کہ آپ چند روز کی مزاحمت کے بعد ہار جائیں گے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہمیں چشم فلک یہاں جان دیتا دیکھے گی۔ ہم بھاگیں گے نہیں۔
وہ چھے نوجوان مسلمان ہو گئے۔ آپ نے ان سے ہاتھیوں کے مسئلے کا حل پوچھا۔ انہوں نے ہاتھیوں کی آنکھیں پھوڑنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ عام نیزے یا تلوار کے زخم کا ہاتھی پر اثر نہیں ہوتا تھا۔
تیسرے دن رسول اللہ کے غلام میدانِ کارزار میں اترے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی ہاتھیوں کی صفوں کو چیرا۔ اور لشکر کو چیر کر وسط میں جا پہنچے۔
ایک لاکھ تیس ہزار کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔
ہاتھی بد حواس ہو گئے۔
رستم کو حضرت خالد نے ٹانگ سے کھینچا۔
رات کے اندھیرے میں سارا لشکرِ کفر بھاگ گیا۔
یہ اطاعتِ امیر کا صلہ تھا۔ اللہ نے ایرانیوں کا بیڑا غرق کر دیا۔
یزدگرد نے کہا۔ رستم مارا گیا، میں کیا کروں گا
مفتی صاحب نے کہاکہ حضرت عمر کے دور میں صحابہ نے جو کام کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے مبلغینِ تعلیم وتربیت اسلامی پاکستان اور وابستگان سے کہا۔ خود احتسابی کریں۔ دین کی دعوت دیں۔ جدوجہد سے مت بھاگیں۔دین کاکام کرنے میں کون سی چیز مانع ہے۔
چیدہ چیدہ نوٹس
از قلم: عبدالرزاق قادری
ماہ ذی الحج کی ۲۸ یا محرم الحرام کی یکم کو امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ جنگِ قادسیہ کے حوالے سے چند گزارشات کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے انسان اور سب سے عظیم منتظم ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکر اعلیٰ درجے پر تھے۔ ان کا تیقن، ان کا تقویٰ اور ان کا سکینہ بے مثال تھا۔ حضرت ابوبکر کا طریق تھا کہ ایک بندے کے ذمہ کوئی ذمہ داری لگا کر دوبارہ باز پُرس نہ فرماتے بلکہ وہ آدمی خود ہی اس کام کو سر انجام دیتا۔ جبکہ حضرت عمر باز پُرس فرماتے۔ دوسرے افراد کے ذریعے نگرانی کرواتے، اطلاع منگواتے اور اگر کام ٹھیک نہ ہوتا تو معطل فرما دیتے۔ آپ کے اس طرزِ عمل پر مؤرخین کی مختلف آراء ہیں۔ میں کتب تواریخ مثلاً البدایہ والنھایہ ، طبری، محمد حسین ہیکل ، نواز احمد، شبلی، ابن خلدون اور سلیمان بلند پوری کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حضرت عمر کا ہر فیصلہ ہی حق تھا۔آپ کا انداز سب سے زیدہ مؤثر رہا۔ اگرچہ اس میں سختی چھلکتی تھی۔ لیکن ہر فیصلہ حق تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ حضرت ابوبکر کے وقت تک اسلامی خلافت کا رقبہ دس لاکھ مربع میل تھا۔ اور عہد فاورقی کے بعد چھبیس لاکھ مربع میل، یعنی سولہ لاکھ مربع میل کا اضافہ ہوا۔ انبیاء کے بعد اتنا بڑا حکمران کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپ فرماتے تھے ۔ جماعت کے بغیر اسلام نہیں۔ امیر کے بغیر جماعت نہیں۔ اور اطاعت کے بغیر امیر نہیں۔
کوئی خاندا ن یا قوم کیا کام کرتی ہے اور اس کا نتیجہ کیا آتا ہے یہ ان کی جماعت، امیر اور اس کی اطاعت پر منحصر ہے۔ اسلام کوئی مجسم چیز تو نہیں جو کسی کو دکھایا جاسکے، بلکہ اسلام کے ماننے والے انسان ہی کسی کو دکھائے جا سکتے ہیں۔ اگر جماعت ہو امیر نہ ہو تو کام نہیں ہوتا۔ اور اگر امیر ہو اور اطاعت نہ ہوتو کام آگے نہیں بڑھتا۔
حضرت عمر کا طرز:
دس بندوں پر ایک امیر مقرر فرماتے جو ان میں علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور عقل و فہم میں برتر ہوتا ۔
پھر دس امیروں پر ایک امیر ا لاُمراء مقرر فرما دیتے۔ امیر اپنے بندوں سے اور امیرالامراء اپنے تابع امیروں سے پُرسش فرماتے۔
آج کے دور میں سب لوگ نجی کاموں میں مصروف ہو چکے ہیں اگر سب اپنے اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہو جائیں تو اجتماعی تحفظ کا کام کون کرے گا۔ ارتباطِ باہمی سے ہی کام ہوتا ہے۔
مفتی صاحب نے کہا عزت کا تعلق مال و دولت سے نہیں بلکہ اعلیٰ کردار سے ہوتا ہے۔
Money is not the status, Status is the Charater.
We all are the Muslims,
We all are the purely slaves of the
Beloved Muhammad Mustafa
Darling of Allah.
انہوں نے اپنی تقریر میں خوبصورت اشعار کا استعمال بھی کیا۔ جیسا کہ
غلامِ مصطفی بن کر میں بک جاؤں مدینے میں
محمد نام پر سودا، سرِ بازار ہوجائے
انہوں نے کہا کسی نے مجھ سے پوچھا تھا
موجودہ جمہوریت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
میں نے کہا
This democracy is totaly fraud.
یہ راستہ ایک ایسا راستہ ہے جس میں تھوڑے پیسے خرچ کرکے بعد میں زیادہ کمانے کا لالچ ہوتا ہے۔ یہ قوموں کی خدمت کا راستہ نہیں۔ اس سے قوموں کی خدمت نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ آپ بہترخوراک لیں۔ آپ کی قوم کو زیادہ ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا ایک بیٹی ہونے کے ناطے آپ کی رائے ٹھیک ہے۔ مگر میں وہی کھاؤں گا جو قوم کے عام فرد کھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ کے مطالعہ سے مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ چھبیس لاکھ مربع میل کے آخری کونے پر بیٹھا انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ سائے کی طرح سمجھتا تھا۔ خود احتسابی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باز پرس کی فکر ہوتی تھی۔ ہمارے مخالفین مغربی مصنفین نے لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس ایک عمررضی اللہ عنہ اور ہوتا یا جتنا عرصہ ان کو وقت ملا، اتنا اور مل جاتا تو دنیا میں صرف اسلام اور مسلمان ہی مسلمان ہوتے۔ یہ سب کچھ اس نظم کی بدولت تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر خطاب فرماتے حتیٰ کہ اگر کوئی الفاظ گننا چاہتا تو گن لیتا۔
میں نے اپنی زندگی میں مولانا شاہ احمد نورانی کو دیکھا کہ ان کی الفاظ پر گرفت ہوتی، لب و لہجے میں شستگی اور بر موقع ادھر اُدھر کے دلائل کی بجائے قرآن کی آیت پڑھ دیتے۔
لوگ کہتے ہیں۔ مستشرقین کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ آج میں اس کا جواب دیتا ہوں۔
سن ۱۴ ہجری محرم الحرام کو جب سلطنتِ فارس اور سلطنتِ روما آپس میں لڑے اور بکھر گئے۔ تو ایرانیوں نے اپنی ملکہ سے استعفیٰ لے لیا۔ اور اکیس سالہ شہزادے یزد گرد بن شہریار بن کسریٰ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس کا اتنا شاندار استقبال کیا، اتنا سراہا کہ کہ پوری قوم کو بادشاہ کے گرد گھما دیا۔
رُستم سے کہا کہ تم قوم سے کہو۔ اگر بادشاہ کہے تو مسلمانوں پر حملہ کر دو۔ تو کردو۔ اور مدینۃالنبی کو فتح کر لو۔ اس نے بڑھک مار دی۔ جب یہ پیغام مدینے تک پہنچا تو حضرت عمر نے خود کمانڈ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ بعض نے لکھا کہ ایک منزل تک خودساتھ بھی گئے تھے۔ حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبیدہ بن جراح اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم نے آپ کو مرکز میں رہنے کا مشورہ دیا۔ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کے جانے سے اسلام کو نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ نے تمام صوبوں کے حاکموں کو خط لکھ کر فرمایا تھا کہ جہاں کوئی گھوڑے والا اور عاقل ہے اسے میرے پاس بھیج دو۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نجد سے خط لکھا کہ میں ایک ہزار عقلاء کو لے کر مدینہ طیبہ آ رہا ہوں
دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا
اے عمر رضی اللہ عنہ! وہ آگیا ہے جس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا
آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے۔ ان سے فرمایا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
ان سے فرمایا کہ آپ اپنے خاندانی پس منظر کو مٹا دیں تاکہ آپ کے اور دیگر لوگ (جو آپ کی کمانڈ میں ہیں )ان کے مابین انہیں کوئی تفریق محسوس نہ ہو۔
زیادہ سے زیادہ لشکر چوبیس ہزار سے تیس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔
وقت کے اختصار کے پیش نظر مفتی صاحب نے مختصر بتایا کہ قادسیہ کے مقام پر لشکر نے قیام کیا۔ اُدھر رستم کو اطلاع ملی۔ آپ نے ایک وفد رستم کی طرف بھیجا اس کو پیغام بھیجا کہ ایک دن مر جانا ہے۔ اسلام قبول کر لو۔ یہ امن کا دین ہے۔ تمہارا عہدہ قائم رکھیں گے۔
لوگو دیکھو! اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ جہاد سلطنت کی وسعت کے لیے نہیں ہوا۔ مال و دولت کے لیے نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ کا دین پھیلانے کے لیے ہوا۔
وفد گیا۔ رستم نے بات ہی نظر انداز کر دی۔ نہ جزیہ دینا قبول کیا۔ اور نہ ہی اسلام قبول کیا۔ حضرت نعمان جو وفد کے امیر تھے انہوں نے جنگ کا عندیہ دے دیا۔
ایرانیوں کا ایک لاکھ تیس ہزار کا لشکر تھا۔ کیل کانٹے سے لیس۔ بڑے بڑے ہاتھیوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ قادسیہ سے مدائن کے تخت دو رویہ قطار تھی۔ میدانِ جنگ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ قطار کے ذریعے تخت تک جاتی۔ اتنے انتظامات تھے۔ اور مسلمانوں کی صرف تیس ہزار تعدادتھی۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اپنی قوتِ صداقت، دیانت ، شرافت اور حق ہونے کی وجہ سے پھیلا۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تصدق پھیلا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے پھیلا۔ ایرانی لشکر کے فرنٹ پر ہاتھیوں کا لشکر تھا۔ ان کے درمیاں دو بڑے بڑے موٹے ہاتھی تھے۔ وہ پہاڑ ہی لگتے تھے۔سامانِ جنگ بے پناہ تھا۔ اسی اثناء میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ ان کی ٹانگ کو مسئلہ تھا۔لشکر حضرت خالد کے ذمے لگا دیاگیا۔
اب وہ میدان میں نکلے۔ اللہ اکبر
اوئے امریکیو! اب بھی کہتے ہو کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔
ایک طرف ایک لاکھ تیس ہزار اور دوسری طرف صرف تیس ہزار، ایک اور چار کی نسبت تھی۔ ایک بندے کو اگر چار کے حوالے کیا جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ صداقتِ اسلام کا یہیں پتہ چلتا ہے۔ پھر میدانِ کار زار میں صحابہ نے قرآن پڑھ کر وہ زور پیدا کردیا۔ کہ کیا بات ہے۔
لیکن ایرانی حملہ کرکے ہاتھیوں کے پیچھے چھپ جاتے۔ عربی گھوڑے ہاتھیوں سے نا آشنا تھے۔ وہ گھوڑے ڈرتے تھے۔ ہاتھی سونڈ سے بھی وار کرتا تھا۔ گھوڑے بدک بدک کر جاتے۔پہلے دن صحابہ کو نقصان ہوا۔ صحابہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ کیا کریں۔
جب ایک صحابی شہید ہوتا تو اس کی لاش کو دیکھ کر دوسرے فرماتے بھائی تو چل جنت میں، مَیں بھی آرہا ہوں۔
رستم اینڈ کمپنی جینے کی غرض سے آئے تھے۔
اور صحابہ مرنے کے لیے۔
ایرانیوں کو زندگی عزیز تھی،
صحابہ کو موت عزیز تھی۔
حتیٰ کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینۃ النبی کی طرف منہ کر کے پکارا۔
یا رسول اللہ! میں یہاں آ کر بیمار ہو گیا ہوں۔ اگر ہمیں شکست ہو گئی تو قیامت تک لوگ اسلام اور مسلمانوں کو طعنے دیں گے۔
حضرت عمر کو لکھوا بھیجا تھا کہ کمک بھیجیں۔ وہاں سے دوسرے دن تک چھ سے دس ہزار تک کمک آ گئی۔ ان نئے آنے والوں نے کہا آپ تھک گئے ہیں۔ ہم تازہ دم ہیں، ہم لڑتے ہیں۔اس وقت ایک لاکھ تیس ہزار کے مقابلے میں دس ہزار تھے۔ صحابہ کی شجاعت نے مخالف لشکر کو ایک انچ بھی آگے نہ آنے دیا۔ وہ حیران و پریشان تھے کہ ان میں کیا طاقت ہے۔
حضرت سعد بیماری کی بناء پر ایک پہاڑی پر خیمہ میں تھے۔ ایرانی سپاہ کے چھے نوجوانوں نے دور سے حضرت سعد کا چہرہ مبارک دیکھا۔ نبی پاک کے ماموں کے پاس آنے کی خواہش کی۔ ان کوپہنچایاگیا۔ انہوں نے دونوں لشکروں کی تعداد بتا کر متقابلی جائزہ پوچھا اور کہا کہ آپ چند روز کی مزاحمت کے بعد ہار جائیں گے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہمیں چشم فلک یہاں جان دیتا دیکھے گی۔ ہم بھاگیں گے نہیں۔
وہ چھے نوجوان مسلمان ہو گئے۔ آپ نے ان سے ہاتھیوں کے مسئلے کا حل پوچھا۔ انہوں نے ہاتھیوں کی آنکھیں پھوڑنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ عام نیزے یا تلوار کے زخم کا ہاتھی پر اثر نہیں ہوتا تھا۔
تیسرے دن رسول اللہ کے غلام میدانِ کارزار میں اترے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی ہاتھیوں کی صفوں کو چیرا۔ اور لشکر کو چیر کر وسط میں جا پہنچے۔
ایک لاکھ تیس ہزار کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔
ہاتھی بد حواس ہو گئے۔
رستم کو حضرت خالد نے ٹانگ سے کھینچا۔
رات کے اندھیرے میں سارا لشکرِ کفر بھاگ گیا۔
یہ اطاعتِ امیر کا صلہ تھا۔ اللہ نے ایرانیوں کا بیڑا غرق کر دیا۔
یزدگرد نے کہا۔ رستم مارا گیا، میں کیا کروں گا
مفتی صاحب نے کہاکہ حضرت عمر کے دور میں صحابہ نے جو کام کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے مبلغینِ تعلیم وتربیت اسلامی پاکستان اور وابستگان سے کہا۔ خود احتسابی کریں۔ دین کی دعوت دیں۔ جدوجہد سے مت بھاگیں۔دین کاکام کرنے میں کون سی چیز مانع ہے۔