آج ہم سے وہ ملے ہیں جیسے ٹھہرے اجنبی

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
----------
آج ہم سے وہ ملے ہیں جیسے ٹھہرے اجنبی
ہم سے شائد وہ خفا ہیں یا ہے ان کی دل لگی
---------
کیوں ہوے ناراض ہم سے کچھ بتایا بھی نہیں
بے رخی سے دیکھتے ہیں بس ہماری بے بسی
-----------
خوف جس کو ہے خدا کا اور سے ڈرتا نہیں
نوجوانوں کو ہمارے جس نے دی ہے رہبری
---------
ہو ہماری زندگی میں گر خدا کی بندگی
تب ہمیں محسوس ہو گی ہر قدم پر روشنی
----------
میں دعائیں مانگتا ہوں تجھ سے دل میں اے خدا
مجھ کو اپنے دین کی دے ، کچھ خدایا آگہی
------
ہو گئے ہیں پھر مسلّط کیوں یہ دشمن قوم کے
پھیل جائے گی ہمارے دیس میں اک ابتری
---------
وہ جو مخلص قوم کا ہے کیوں پڑا ہے قید میں
قوم کو درکار اب ہے بس اسی کی رہبری
-----------
مختصر سی زندگی جو تجھ کو ارشد ہے ملی
اس میں جتنی ہو سکے اب کر خدا کی بندگی
-------
 

عظیم

محفلین
آج ہم سے وہ ملے ہیں جیسے ٹھہرے اجنبی
ہم سے شائد وہ خفا ہیں یا ہے ان کی دل لگی
---------
ٹھہرے واضح نہیں کر رہا بات کو۔
/// آج ہم سے یوں ملے وہ جس طرح ہوں اجنبی
اسی طرح دل لگی بھی وہ مطلب ادا نہیں کر رہا جو آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جیسے ہنسی مذاق کر رہے ہو، میرا خیال ہے کہ 'کر رہے ہوں/ہیں دل لگی' سے واضح ہو گا
کیوں ہوے ناراض ہم سے کچھ بتایا بھی نہیں
بے رخی سے دیکھتے ہیں بس ہماری بے بسی
-----------
دو لخت لگ رہا ہے مجھے
دوسرا اگر یوں ہو تو
//اور اس پر دیکھتے ہیں کیوں/وہ ہماری....
مگر بے بسی کیوں لایا گیا ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا
خوف جس کو ہے خدا کا اور سے ڈرتا نہیں
نوجوانوں کو ہمارے جس نے دی ہے رہبری
---------
پہلے کی روانی تو یوں بہتر کی جا سکتی ہے
//خوف ہو جس کو خدا کا غیر سے۔۔۔
مگر دوسرا بے ربط ہے
ہو ہماری زندگی میں گر خدا کی بندگی
تب ہمیں محسوس ہو گی ہر قدم پر روشنی
----------
مطلع ہی بن گیا ہے دوسرا، اس کی ضرورت نہیں میرے خیال میں
الفاظ کی نشست بدل کر 'بندگی' کہیں اور لائیں، بندگی ہونا بھی کچھ عجیب لگتا ہے، ہم بندگی کریں کسی طرح لائیں
میں دعائیں مانگتا ہوں تجھ سے دل میں اے خدا
مجھ کو اپنے دین کی دے ، کچھ خدایا آگہی
------
یہ دعائیں یا یہی دعائیں باندھیں کسی طرح
کچھ خدایا میں خدایا کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔ یا الٰہی بھی لایا جا سکتا ہے الفاظ بدل کر
میں یہی مانگوں دعائیں اپنے دل میں اے خدا
مجھ کو اپنے دین کی دے یا الٰہی آگہی
آمین
ہو گئے ہیں پھر مسلّط کیوں یہ دشمن قوم کے
پھیل جائے گی ہمارے دیس میں اک ابتری
---------
ہو گئے پھر/ہیں کیوں مسلط ہم پہ دشمن قوم کے، سے کچھ بہتر تو ہوتا ہے مگر ابتری پھیلنا کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہو رہا۔ کچھ اور لفظ لائیں، یا کسی اور طرح کہیں
وہ جو مخلص قوم کا ہے کیوں پڑا ہے قید میں
قوم کو درکار اب ہے بس اسی کی رہبری
-----------
//قوم کو درکار ہے بس اس کی ہی اب رہبری
شعر ٹھیک لگتا ہے مجھے
مختصر سی زندگی جو تجھ کو ارشد ہے ملی
اس میں جتنی ہو سکے اب کر خدا کی بندگی
-------
یہاں بھی 'لی' اور 'گی' قوافی ہیں تو مجھے درست معلوم نہیں ہوتا، میرا خیال ہے کہ شعر کے حسن میں کمی آئے گی اس طرح، پہلے میں الفاظ کی بیٹھک بدل دیں
 
الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
اصلاح
-----------
آج ہم سے یوں ملے وہ جس طرح ہوں اجنبی
وہ نہیں ناراض مجھ سے کر رہے ہیں دل لگی
---------
کیوں خفا مجھ سے ہوئے ہیں کچھ بتایا بھی نہیں
ان کی نظروں میں ہے کیوں میرے لیے اک بے رخی
-----------
خوف ہو جس کو خدا کا غیر سے ڈرتا نہیں
آدمی کے واسطے قرآن میں ہے رہبری
----------
ہو اطاعت زندگی میں گر نبی کی ذات کی
تب ہمیں محسوس ہو گی ہر قدم پر روشنی
----------
میں یہی مانگوں دعائیں اپنے دل میں اے خدا
مجھ کو اپنے دین کی دے یا الٰہی آگہی
----------
ہو گئے ہیں کیوں مسلّط ہم یہ دشمن قوم کے
ہو نہ پائے گی ہماری ان سے کچھ بھی بہتری
----------------
وہ جو مخلص قوم کا ہے کیوں پڑا ہے قید میں
قوم کو درکار ہے بس اس کی ہی اب رہبری
------یا
مانگتی ہے قوم ساری بس اسی کی رہبری
-------
تیری ارشد زندگی کا وقت کم ہی رہ گیا
----یا
تیرا ارشد اس جہاں میں وقت کم ہی رہ گیا
اس میں جتنی ہو سکے اب کر خدا کی بندگی
-------
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آج ہم سے یوں ملے وہ جس طرح ہوں اجنبی
وہ نہیں ناراض مجھ سے کر رہے ہیں دل لگی
---------
شترگربہ در آیا ہے بھائی ارشد
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے دوسرے مصرع کی
//رب ہی جانے ہیں خفا یا کر رہے ہیں دل لگی
کیوں خفا مجھ سے ہوئے ہیں کچھ بتایا بھی نہیں
ان کی نظروں میں ہے کیوں میرے لیے اک بے رخی
-----------
مطلع اگر میرے مجوزہ مصرع کے ساتھ رکھیں تو اس شعر میں بھی خفا کا آ جانا میرا خیال ہے کہ اچھا نہیں رہے گا، یا تو اس شعر میں اور مطلع میں کچھ وقفہ آ جائے ورنہ اسی کے پہلے مصرع میں رد و بدل کر لیا جائے، مثلاً
/روٹھ کر بیٹھے ہیں مجھ سے کیوں بتایا بھی نہیں
نظروں میں بے رخی بہر حال عجیب ہے بلکہ غلط ہی کہا جا سکتا ہے، اچانک بے رخی کیوں ہے وغیرہ کا مفہوم کسی طرح لائیں
خوف ہو جس کو خدا کا غیر سے ڈرتا نہیں
آدمی کے واسطے قرآن میں ہے رہبری
----------
دو لخت لگتا ہے اب بھی
ہو اطاعت زندگی میں گر نبی کی ذات کی
تب ہمیں محسوس ہو گی ہر قدم پر روشنی
---------
درست لگتا ہے مجھے
میں یہی مانگوں دعائیں اپنے دل میں اے خدا
مجھ کو اپنے دین کی دے یا الٰہی آگہی
----------
ٹھیک ہو گیا ہے
ہو گئے ہیں کیوں مسلّط ہم یہ دشمن قوم کے
ہو نہ پائے گی ہماری ان سے کچھ بھی بہتری
----------------
بہتری ہونا کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا، کر نہیں پائیں گے یا لا نہیں پائیں گے ہونا چاہیے، میرا خیال ہے کہ یوں بہتر رہے گا
//لا نہیں پائیں گے کچھ بھی ملک میں یہ بہتری
وہ جو مخلص قوم کا ہے کیوں پڑا ہے قید میں
قوم کو درکار ہے بس اس کی ہی اب رہبری
------یا
مانگتی ہے قوم ساری بس اسی کی رہبری
-------
درکار کے ساتھ بہتر لگتا ہے مجھے
تیری ارشد زندگی کا وقت کم ہی رہ گیا
----یا
تیرا ارشد اس جہاں میں وقت کم ہی رہ گیا
اس میں جتنی ہو سکے اب کر خدا کی بندگی
دونوں متبادل پسند نہیں آئے، یہی بات کئی طرح کہی جا سکتی ہے، جیسے
//ارشد اپنی عمر کی نقدی جو ہونے کو ہے ختم
//زندگی ارشد بہت کم رہ گئی ہے اپنی جب
//جس قدر بھی ہو سکے کیجے خدا کی بندگی
وغیرہ وغیرہ
 
شکیل بھائی ،آپ نے میرے دونوں مطلع یعنی اوریجنل اور اصلاح مگر مجھے ذاتی طور پر آپ کا شعر زیادہ پسند آیا ، خصوصاٰٰ مصرع ثانی
 
آج وہ ہم سے ملے یوں جیسے ہم ہوں اجنبی
یہ بھی اُن کی اِک ادا ہے ،پیار ہے یا دل لگی
شکیل بھائی ،آپ نے میرے دونوں مطلع یعنی اوریجنل اور اصلاح مگر مجھے ذاتی طور پر آپ کا شعر زیادہ پسند آیا ، خصوصاٰٰ مصرع ثانی
 
Top