آج ہے یومِ شاعری اے دوست

ایم اے راجا

محفلین
کل یہ نظم کہی تھی مگر پوسٹ کرنے کا وقت نہیں ملا، آج آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں اور تنقید و اصلاح کے لیئے ملتمس ہوں۔

آج ہے یومِ شاعری اے دوست
دل کے ارماں نکال کے رکھ دے
حسرتوں کو اجال کے رکھ دے
خونِ جاں کو ابال کے رکھ دے
سچ کو لفظوں میں ڈھال کے رکھ دے
آج کے دن یہ عہد کرنا ہے
شاعری کیا ہے، یہ سمجھنا ہے
خوف کے خول سے نکلنا ہے
ہم نے اس حال کو بدلنا ہے
خامشی کو زبان دینی ہے
بے پروں کو اڑان دینی ہے
اِن بتوں کو بھی جان دینی ہے
شہر کو آن بان دینی ہے
ہم سخن کے امیر ہیں راجا
روشنی کی لکیر ہیں راجا
صبح نو کے سفیر ہیں راجا
دل میں اترے، وہ تیر ہیں راجا
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی یا عروضی غلطی تو کوئی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی جب اصلاح کے لئے آتی ہے کوئی تخلیق تو اسی غور سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس نظم کے پہلے بند میں تو تخاطب شاعر سے ہے۔ لیکن دوسرے اور تیسرے بند میں اپنے آپ سے!! آخری بند میں تخلص محض بھرتی کا لفظ ہے، اس کو بآسانی ’جیسے‘ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ
ہم نے اس حال کو بدلنا ہے
پنجابی لہجہ ہو گیا ہے، درست اردو نہیں، لیکن درست ’ہم کو اس حال کو بدلنا ہے‘ بھی دو بار ’کو‘ کے باعث اچھا نہیں لگتا۔ لیکن کیونکہ اکثر پنجابی شعرا یہ غلطی کرتے ہیں تو شاید ہم جیسے غیر پنجابی کا اعتراض بھی غلط ہی ہے۔
 
خوبصورت نظم ہے راجا بھائی۔

اس عاجز کی رائے میں ( جو ہوسکتا ہے غلط ہی ہو) کثرتِ استعمال کسی غلط کو صحیح نہیں کرسکتا۔ استادِ محترم اور اُن کے قبیلے کے گنے چنے افراد ، جو اردو کے صحیح استعمال پر آج بھی اِصرار کررہے ہیں، وہی اِس زبان کی آبرو ہیں۔

اگر اس مصرع کو لفظ آج دوبارہ استعمال کرتے ہوئے یوں کردیا جائے تو؟
آج اِس حال کو بدلنا ہے
یوں لفظ ’حال‘ دومعنوں میں آجائے گا، درست؟
 

ایم اے راجا

محفلین
تکنیکی یا عروضی غلطی تو کوئی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی جب اصلاح کے لئے آتی ہے کوئی تخلیق تو اسی غور سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس نظم کے پہلے بند میں تو تخاطب شاعر سے ہے۔ لیکن دوسرے اور تیسرے بند میں اپنے آپ سے!! آخری بند میں تخلص محض بھرتی کا لفظ ہے، اس کو بآسانی ’جیسے‘ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ

ہم نے اس حال کو بدلنا ہے
پنجابی لہجہ ہو گیا ہے، درست اردو نہیں، لیکن درست ’ہم کو اس حال کو بدلنا ہے‘ بھی دو بار ’کو‘ کے باعث اچھا نہیں لگتا۔ لیکن کیونکہ اکثر پنجابی شعرا یہ غلطی کرتے ہیں تو شاید ہم جیسے غیر پنجابی کا اعتراض بھی غلط ہی ہے۔
بہت شکریہ استاد محترم۔
جہاں تک بات ہے تخاتب کی تو میں نے اپنے حساب سے تو شاعر کو ہی مخاطب کیا ہے، کیوں کہ میں خود بھی ایک شاعر ہوں سے یہ بند مجھ سمیت تمام شعرا کو مخاطب کرتے ہیں شاید، اور تخلص میں نے یہ سوچ کر لایا کہ اس نظم میں اپنا تخلص لا کر اس پر نظم میری ہونے کی مہر ثبت کروں لیکن چنکہ مصرعہ جات نظم کے ہیں اسلیئے پورے بند میں ہی تخلص کو دہرانا مجبوری بن گئی۔
اور اگر اس مصرع ہم نے اس حال کو بدلنا ہے کو یوں کر دیا جائے تو شاید پنجابی لہجے کا اعتراض ختم ہو جائے۔ اور اس حال کو بدلنا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے سر ؟
 

الف عین

لائبریرین
میرا مشورہ یہ ہے کہ دوسرے بند سے ہی نظم شروع کی جائے تو بہتر ہے۔ لیکن پہلے بند کا صیغہ بھی اور مفاہیم بھی واضح نہیں ہیں۔
بطور خاص
حسرتوں کو اجال کے رکھ دے
خونِ جاں کو ابال کے رکھ دے
یا تو اس کو نکال ہی دو، یا کچھ دوسرا بند کہو، اور اسی لہجے کا ہو تو اس کو آخر بند کے طور پر رکھو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
سر اس دن میں نے جلدی میں یہ نظم پوسٹ کی، جانے کیسے ایک بند ( چوتھا) رہ گیا مگر پھر پوسٹ نہ کر سکا آج عرض ہے۔
دھوپ میں سائباں بنانے ہیں​
پھول صحرا میں بھی کھلانے ہیں​
درد دنیا سے سب مٹانے ہیں​
فاصلے صدیوں کے گھٹانے ہیں​

سو اب اس نظم کی مکمل شکل کچھ یوں ہو گئی ہے۔

آج ہے یومِ شاعری اے دوست
دل کے ارماں نکال کے رکھ دے
حسرتوں کو اجال کے رکھ دے
خونِ جاں کو ابال کے رکھ دے
سچ کو لفظوں میں ڈھال کے رکھ دے
آج کے دن یہ عہد کرنا ہے
شاعری کیا ہے، یہ سمجھنا ہے
خوف کے خول سے نکلنا ہے
اور اس حال کو بدلنا ہے
خامشی کو زبان دینی ہے
بے پروں کو اڑان دینی ہے
اِن بتوں کو بھی جان دینی ہے
شہر کو آن بان دینی ہے
دھوپ میں سائباں بنانے ہیں
پھول صحرا میں بھی کھلانے ہیں
درد دنیا سے سب مٹانے ہیں
فاصلے صدیوں کے گھٹانے ہیں

ہم سخن کے امیر ہیں راجا
روشنی کی لکیر ہیں راجا
صبح نو کے سفیر ہیں راجا
دل میں اترے، وہ تیر ہیں راجا
 

الف عین

لائبریرین
اب بہتر ہے، ل۔یکن پہلے بند پر میرا اعتراض اب بھی قائم ہے۔ اس کو چوتھا بند بنا دو۔ اور اس میں خود ہی کچھ تبدیلیاں کر دو، بطور خاص یہ دونوں مصرعے
حسرتوں کو اجال کے رکھ دے
خونِ جاں کو ابال کے رکھ دے
اجالنے اور ابالنے سے کیا مراد ہے۔ حسرتیں کیا اندھیری ہوتی ہیں؟ اور خونِ جاں میں جب ابال آتا ہے تب ہی تو شاعری ہوتی ہے، ابال لایا تھوڑی جا سکتا ہے؟​
 
Top