ایم اے راجا
محفلین
کل یہ نظم کہی تھی مگر پوسٹ کرنے کا وقت نہیں ملا، آج آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں اور تنقید و اصلاح کے لیئے ملتمس ہوں۔
آج ہے یومِ شاعری اے دوست
دل کے ارماں نکال کے رکھ دے
حسرتوں کو اجال کے رکھ دے
خونِ جاں کو ابال کے رکھ دے
سچ کو لفظوں میں ڈھال کے رکھ دے
آج کے دن یہ عہد کرنا ہے
شاعری کیا ہے، یہ سمجھنا ہے
خوف کے خول سے نکلنا ہے
ہم نے اس حال کو بدلنا ہے
خامشی کو زبان دینی ہے
بے پروں کو اڑان دینی ہے
اِن بتوں کو بھی جان دینی ہے
شہر کو آن بان دینی ہے
ہم سخن کے امیر ہیں راجا
روشنی کی لکیر ہیں راجا
صبح نو کے سفیر ہیں راجا
دل میں اترے، وہ تیر ہیں راجا