آخرت کا سفر

نیلم

محفلین
بہلول مجذوب ہارون الرشید کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے۔ ہارون الرشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی جذب کے عالم میں وہ پتے کی باتیں بھی کہہ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بہلول مجذوب ہارون الرشید کے پاس پہنچے ۔ ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھاکردی۔ مزاحا کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا۔ بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا ۔ بہلول مجذوب عیادت کے لئے پہنچے اورسلام کے بعد پوچھا۔ امیر المومنین کیا حال ہے؟ امیر المومنین نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ کہاں کا سفر؟ جواب دیا۔ آخرت کا۔ بہلول نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔ بہلول نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیںآئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اورساتھ ساتھ کون جائے گا؟ جواب دیا۔ آخرت کے سفر میںکوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جارہا ہوں۔ بہلول مجذوب بولا۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے۔ آپ نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو روپڑے اور کہا۔ بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگرآج پتہ چلا کہ تمہارے جیسا کوئی فرزانہ نہیں۔
 

نیلم

محفلین
ایک مرتبہ ايک نہايت ہي حسين و جميل اور پاکباز عورت حضرت بايزيد رحمہ اللہ کي خدمت ميں حاضر ہوئي اور اُن سے شکايت کي کہ ميرا خاوند دوسري شادي کرنا چاھتا ھے - اسليے آپ مجھے ايسا تعويذ ديں يا اس طرح دُ عا مانگيں کہ وہ اپنے اس ارادے سے باز آجائے

حضرت نے فرمايا-"بہن! جب اللہ تعالي نے مرد کو استطاعت ہونے پرچار تک
بيوياں کرنے کي اجازت دي ھے تو پھر ميں کون ہوتا ھوں جو قانون خُداوندي ميں در آؤں اور حکم خُداوندي کي خلاف ورزي کا ذريعہ بنوں "

اس پر وہ خاتون بہت دل برداشتہ ہوئي اور حضرت کي بارگاہ ميں عرض کيا "حضرت! ميں پردہ ميں ھوں اور شريعت اجازت نہيں ديتي کہ ميں آپ پر اپنا چہرہ ظاہر کروں ، اگر شريعت اجازت ديتي اور ميں آپ پر اپنا حسن و جمال ظاہر کرسکتي پھر آپ فيصلہ فرماتے کہ آيا ميرے خاوند کو سوکن لانے کا حق حاصل ھے يا نہيں ؟

يہ جواب سُننا تھا کہ حضرت تڑپ اُٹھے اور بے ہوش ھو گئے - ہوش آنے پر فرمايا -ديکھو! يہ ايک خاتون جس کا حسن و جمال قطعي فاني اور محض عطيہ خداوندي ہے ، اپنے حسن وجمال پر اس قدرنازاں ہے کہ اس پر سوکن
لانا پسند نہيں کرتي اور اپني توہين سمجھتي ھے

تو وہ رب ذوالجلال اور خالق کائنات جو حسن وجمال کا خالق اور ساري کائنات کا خالق ھے کيونکر گوارہ کرسکتا ھے کہ مخلوق کسي کو اسکا شريک ٹہرائے.
 

یوسف-2

محفلین
ماشاء اللہ بہت اچھی حکایات ہیں۔ اللہ ہم سب کو ان حکایات کی روح کو سمجھنے اور پھر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ واقعات ہم تک پہنچائے آپ نے۔ اللہ آپکو سلامت و شاد رکھے۔ اور ہم کو دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 

نیلم

محفلین
ہارون الرشید کے دور میں بغداد میں ایک درویش رہتا تھا۔ اس درویش کا نام بہلول دانا تھا۔
●✿▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬✿●
بہلول دانا بیک وقت ایک فلاسفر اور ایک تارک الدنیا درویش تھا۔ اس کا کوئی گھر، کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ عموما شہر میں ننگے پاؤں پھرتا رہتا تھا اور جس جگہ تھک جاتا تھا وہیں ڈیرہ ڈال لیتا تھا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے پھرتے رہتے تھے ۔ وہ جب کسی جگہ بیٹھ جاتا تھا تو لوگ اس کےگرد گھیرا ڈال لیتے تھے جس کے بعد بہلول دانا بولتا رہتا تھا اور لوگ اس کے اقوال لکھتے رہتے تھے۔ اگر کسی دن اس کا موڈ ذرا سا خوشگوار ہوتا تو وہ لوگوں کو سوال کرنے کی اجازت بھی دے دیتا تھا اور اس کے بعد لوگ اس سے مختلف قسم کے سوال پوچھتے رہتے تھے۔
✿------------✿
ہارون الرشید بھی اس کا بہت بڑا فین تھا۔ جب کبھی بہلول دانا کا موڈ ذرا سا بہتر ہوتا تھا تو وہ بھی اس کی محفل میں شریک ہوجاتا تھا۔ ایک دن بہلول دانا محل کے پاس آگیا۔ ہارون الرشید کو اطلاع ملی تو وہ اس کے پاس حاضر ہوگیا۔
✿------------✿
بہول نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور غصے سے پوچھا :ہاں ! بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟
✿------------✿
ہارون الرشید نے عرض کیا : حضور !جب اﷲ تعالی کسی حکمران سے خوش ہوتا ہے تو وہ اس کو کیا تحفہ دیتا ہے؟
✿------------✿
بہلول دانا نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور بولا : ﷲ اسے درست اور بروقت فیصلے کی قوت دیتا ہے۔
✿------------✿
ہارون الرشید نے پوچھا : حضور ! اگر اﷲ کسی حکمران سے ناراض ہوجائے تو وہ اس سے کون سی چیز چھین لیتا ہے؟
✿------------✿
بہلول دانا نے چند لمحے سوچا اور ہنس کربولا : فیصلہ کرنے کی قوت ۔
✿------------✿
ہارون الرشید نے پھر پوچھا :حضور ! بادشاہ کوکیسے پتہ چلے گا کہ ﷲ اس سے خوش ہے یا ناراض ؟
✿------------✿
اس سوال پربہلول دانا چند لمحے خاموش رہا ۔اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اورہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا :ہارون الرشید ! جب ﷲ تعالی کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو وہ اس کو عزت اورمرتبے سے نوازتا ہے لیکن جب ﷲ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو وہ اس شخص کو نفرت کی علامت بنا دیتا ہے ۔ خلق خدا اس سے پناہ مانگنے لگتی ہے اور اس کی زندگی عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔
✿------------✿
ہارون الرشید کے ماتھے کے شکنین گہری ہوگئیں ۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری ۔ اس کے بعد بہلول سے عرض کیا : اورحضور! جب ﷲ کسی بادشاہ سے ناراض ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے ؟
✿------------✿
بہلول دانا نے غور سے بادشاہ کی طرف دیکھا، پھر مسکرایا اور بولا : ہارون ! جب کوئی شخص قدرت کے انجام کا شکار ہوتا ہے تو در در کی ٹھوکریں اس کا مقدر بن جاتی ہیں ۔ وہ سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو ریت اس کی مٹھی میں آتی ہے ۔ وہ اپنے تئیں اچھا فیصلہ کرنا چاہتا ہے لیکن قدرت اسے بے عزت کردیتی ہے ۔ اس کے اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے تنگ آ کر اپنا گلہ خود ہی گھونٹ دیتا ہے
 
Top