سید شہزاد ناصر
محفلین
محمد اقبال قریشی ۔ نومبر ۲۰۰۹ء
میں اپنی شکاری زندگی کے جس باب کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے چلا ہوں‘ وہ یادگار واقعہ ہے۔ مجھے ہندوستانی پولیس میں تعینات ہوئے چھٹا برس تھا‘ جب میرا تبادلہ ریاست میسور کے ضلع سموگا کر دیا گیا۔ میری تعیناتی شہر سموگا سے تین میل کی مسافت پر واقع قصبے تلگارتھی میں ہوئی۔ یاد رہے کہ میسور کا یہ جنگلی علاقہ صدیوں سے چیتوں کا مسکن رہا ہے۔ ان دنوںبھی وہاں کے جنگلوں میں چیتوں کی کثرت تھی۔ علاقے کی بیشتر آبادی ہندو تھی جو اپنے مردے جلاتے ہیں۔ یہ رسم کسی ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی۔ اس زمانے میں تلگارتھی کے کئی دیہات پہاڑیوں پر واقع تھے‘ ندی یا دریا ان سے کئی میل دور نیچے وادی میں بہتے تھے۔ یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیہاتیوںکو مردے جلانے کے لیے کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ عام حالات میں ہندو اپنی یہ مذہبی رسم بڑے اہتمام سے ادا کرتے‘ لیکن جب کسی وبا کے باعث لوگ زیادہ تعداد میں مرنے لگتے‘ تو یہی رسم خاصی حد تک سادہ اور سہل بن جاتی۔ عموماً وہ مردے کے منہ میں سلگتا کوئلہ ڈالتے اور اسے چوبی تختے پر باندھ کر نیچے وادی میں پھینک دیتے۔ ۱۹۱۸ئ میں جب ان علاقوں میں انفلوئنزا پھیلا‘ تو تلگارتھی کے ہندوئوں نے یہی طریقہ آزمایا۔ انھیں خبر نہ تھی کہ یہ مذہبی رسم کچھ عرصے بعد ان کے لیے موت کا پیغام بن جائے گی۔
اُن وادیوں میں چیتوں کی بہتات تھی۔ دورانِ وبا انسانی لاشوں کی وافر دستیابی کے باعث کئی چیتے آدم خوری میں مبتلا ہو گئے۔ درندے عموماً مرا ہوا شکار نہیں کھاتے۔ لگتا ہے ان دنوں جنگل میں عام شکار کم تھا‘ اس لیے وہ انسانی لاشوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی وبا ختم ہوئی‘ اس سے کہیں زیادہ مہلک وبا آدم خور چیتوں کی شکل میں تلگارتھی کے گرد و نواح پر نازل ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ آدم خوروں کی صحیح تعداد کیا تھی اور انھوں نے اپنی وارداتوں کا آغاز کیسے کیا۔ بہرحال میں نے سات ماہ کے دوران چھ آدم خور چیتے ہلاک کیے جو مخصوص علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھوںایک ہی مقام پر ہلاک ہونے والے آدم خوروں کی یہ ریکارڈ تعداد تھی۔ چھ آدم خوروں کی ہلاکت کے بعد علاقے میں ایک ماہ تک سکون رہا۔ دیہاتیوں سمیت میں بھی یہی سمجھا کہ شاید مردم خور بننے والے تمام چیتے جہنم واصل ہو چکے ہیں مگر یہ ہماری بھول تھی۔
ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن کوئی دیہاتی دوڑا دوڑا تھانے آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان مجھے بتایا کہ اس کے بھائی کو چیتا اٹھا لے گیا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی میں اور راجو اُس کے ساتھ چل پڑے۔ راجو کے پاس شاٹ گن تھی جبکہ میرے پاس رائفل اور ٹارچ۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور ہم رات سے قبل ہی جائے وقوعہ کا معائینہ کرنا چاہتے تھے۔ مقررہ جگہ پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ بستی سے ذرا ہٹ کر جنگل کے کنارے دو جھونپڑیاں واقع ہیں۔ ایک جھونپڑی کی دیوار پھٹی ہوئی تھی اور زمین پر کسی کے گھسیٹے جانے کے نشانات کے ساتھ ساتھ خون کے دھبے بھی واضح تھے۔ پھٹی ہوئی دیوار کی ہیئت دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ چیتا خاصاجسیم اور طاقتور ہے ۔
ہم دونوں نے دیہاتی کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور چیتے کے نقوشِ پا اور خون کے نشانات کا معائینہ کرتے ہوئے جھونپڑے سے دور نکل آئے۔ فضا پر موت کا سکوت چھایا ہوا تھا مگر میری چھٹی حس مسلسل خطرے کی نشاندہی کر رہی تھی۔
جیسے ہی میں نے ٹارچ کی روشنی جنگل کی سمت پھینکی تیس گزدور جھاڑیوں میں پل بھر کے لیے دو آبگینے چمکے اور اگلے ہی لمحے خون آشام درندے کی غصیلی غراہٹیں خاموش فضا میں تلاطم برپا کر گئیں۔ ہم وہیں رک گئے۔ راجو نے اپنی شاٹ گن اور میں نے رائفل کندھے سے لگا لی‘ درندے کی طرف سے کسی بھی لمحے حملہ متوقع تھا۔ لیکن چیتاجست لگا کر جھاڑیوں سے نکل گیا۔ اس کا رُخ جنگل کی طرف تھا۔ اس کی محض جھلک ہی نظر آئی پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہمیں اتنا موقع نہیں ملا کہ اس پر گولی چلاتے۔
آدم خور نے ابھی آدھا شکار ہی کھایا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تاکہ چھپنے کی کوئی جگہ مل جائے جہاں ہم اس کی واپسی کا انتظار کر سکیں۔ ابھی ہم جائزہ لے ہی رہے تھے کہ معاً ایک دھاڑسنائی دی اور تیس چالیس گز دور جھاڑیاں یوں ہلنے لگیں جیسے طوفان آ رہا ہو۔ ہمارے دائیں جانب پانچ فٹ اونچی ایک گھنی جھاڑی تھی جو خاصی پھیلی ہوئی تھی۔ میں پنجوں کے بل اس کی طرف رینگنے لگا اور راجو کو جھونپڑیوں کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔
راجو جیسے ہی جھونپڑیوں کی قریب پہنچا ایک دیوہیکل چیتا سماعت پاش دھاڑ کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس وقت میرے اور راجو کے درمیان بمشکل بیس پچیس گز کا فاصلہ تھا۔ جیسے ہی چیتا نشانے کی زد پر آیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کر دیے۔ اسی لمحے راجو کی شاٹ گن کا دھماکا بھی سنائی دیا۔ میں نے ایک پل کے لیے چیتے کو فضا میں قلابازی کھاتے دیکھا اور پھر وہ نظروں سے یوں اوجھل ہوگیا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔
دورانِ شکار اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لہٰذا مجھے کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہیں رک کر میں بھی جھونپڑے کی طرف بڑھا۔ یہ جھونپڑا چیتے کی دست برد سے محفوظ رہا تھا۔ اس میں دو عورتیں اور وہ مرد بیٹھا نظر آیا جو ہمیں بلا کر لایا تھا۔ تینوں سخت خوفزدہ تھے۔ ایک عورت اس کی بیوی تھی اور دوسری اس کے بھائی کی بیوہ جسے آدم خور نے ہلاک کر دیا تھا۔ ہم نے انھیں تسلی دی‘ تو ان کے اعصاب پرسکون ہوئے۔
بدقسمتی سے اس مقام پر گھاس اور خاردار جھاڑیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ادھ کھائی لاش کے قریب کوئی درخت بھی نہ تھا جس پر مچان بنائی جا سکتی۔ تھوڑی دیر بعد پورا چاند طلوع ہو گیا اور دور دور تک چاندنی نے گھاس کے قطعوں کو منور کر دیا۔ ہمارے پاس وافر مقدار میں گولیاں موجود تھیں اور ہمیں یقین تھا کہ آدم خور باقی ماندہ لاش کھانے ضرور واپس آئے گا۔ جھونپڑے میں موجود تینوں نفوس اب بھی دہشت زدہ تھے۔ہمارے اصرار کے باوجود وہ گائوں جانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن چڑھنے کے بعد ہی وہاں سے جائیں گے۔ اس دوران راجو نے لالٹین روشن کر دی۔ اب مجھے جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ چھکڑے کا ایک پہیہ پڑا نظر آیا۔ قریب جا کردیکھا‘ تو وہ خاصا مضبوط اور وزنی تھا۔
اسے دیکھتے ہی مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ یہ کہ لاش کے قریب ایک گہرا گڑھا کھودکر اسے کمین گاہ بنا لیا جائے۔ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اس پر چھکڑے کا پہیہ رکھا جا سکتا تھا۔ یوں گڑھے کے اندر سے میں نہ صرف لاش پر نظر رکھتا بلکہ درندہ ادھر آتا‘ تو خاصی قریب سے اُسے نشانہ بھی بنا سکتا تھا۔
یہمنصوبہ راجو کوبھی پسند آیا۔ خوفزدہ مرد نے پہیے کے علاوہ ہمیں زمین کھودنے کا نہ صرف سامان مہیا کیا بلکہ کھدائی میں بھی ہماری مدد کی۔ کھدائیکے دوران نکلنے والی مٹی جھونپڑے کے آس پاس پھیلا دی گئی۔ طے یہ پایا کہ میں اس میں بیٹھ کر آدم خور کا انتظار کروں اور راجو شاٹ گن لیے جھونپڑے میں رہے ۔ دراصل اس امر کا قوی امکان تھا کہ آدم خور ادھ کھائی لاش کے بجائے جھونپڑے پر حملہ آور ہو جائے تاکہ تازہ شکار کر لے‘ ایسے میں راجو اسے نشانہ بنا سکتاتھا۔
ہوا کا گزر نہ ہونے کے باعث گڑھے میں اچھی خاصی گرمی تھی۔ میرے سر پرتاروں بھرا آسمان دلفریب منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی قریب ہی کھڑا زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ میں چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور رائفل پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ میں خوامخواہ باہر جھانک کر اپنی کمین گاہ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دبی دبی غراہٹیں سنائی دینے لگیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آدم خود بچی کھچی لاش کھانے آ پہنچا۔ میں رائفل سیدھی کیے‘ آہستہ آہستہ پنجوں کے بل اوپر اٹھا اور ازحد احتیاط سے پہیہ سرکا کر باہر جھانکا‘ تو یہ دیکھ کر چونک گیا کہ ایک کے بجائے دو آدم خور وہاں موجود تھے۔ ایک لاش کو اگلے پنجوں میں دبائے خونخوار دانتوں سے نوچ رہا تھا جبکہ دوسرا کچھ فاصلے پر بیٹھا بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسے رخ پر بیٹھا تھاکہ گڑھا بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا لہٰذا اس نے میرا اوپر اٹھتا ہوا سر دیکھ لیا ۔
وہ یکدم دھاڑکر پنجوں پر کھڑا ہو گیا اور مجھے لال انگارہ آنکھوں سے یوں گھورنے لگا کہ پل بھر کے لیے میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ میرے لیے یہ سوچنا دوبھر ہو گیا کہ اب کیا کروں۔ مجھے ایک نہیں دو آدم خوروں کا سامنا تھا۔ اگر ایک پر گولی چلاتا‘ تو دوسرا کود کر مجھ پر آ پڑتا۔ میرے اور ان کے درمیان فاصلہ بھی خطرناک حد تک کم تھا۔ میں رائفل تیار حالت میںتھامے سانس روک کر انتظار کرنے لگا کہ پہلے کون سا آدم خور حملہ کرتا ہے‘ لیکن ہوا اس کے برعکس۔
مزے سے لاش کی ہڈیاں چباتے اور گوشت نوچتے چیتے نے جب یہ دیکھا کہ دوسرا چیتا جارحانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور غرا رہا ہے‘ تو سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے لگا ہے۔ یہ مغالطہ میرے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ لاش کھانے والے آدم خور نے دل دہلا دینے والی غراہٹوں کے ساتھ دوسرے چیتے پر حملہ کر دیا۔ دونوں آپس میں بے تحاشا لڑنے لگے۔یہ میرے لیے امداد غیبی ہی تھی۔ میں آہستہ سے پہیہ ایک طرف سرکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اب میں دھڑ تک گڑھے سے باہر تھا۔ میں نے چیتوں کی طرف نظر دوڑائی تو بے تحاشا ہلتی ہوئی گھاس اور گرد کے بادل کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ بس غصیلی غراہٹیں ہی پتا دیتی تھیں کہ اُس طرف دو خون آشام درندے گتھم گتھا ہیں۔ میں گولی چلا سکتا تھا مگر یوں دونوں میں سے کوئی زخمی ہو کر فرار ہو جاتا جو میں نہیں چاہتا تھا۔ مجھے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا‘ کچھ دیر بعد غراہٹوں کی شدت میں کمی آ گئی جس کے ساتھ ہی ایک چیتے کی غراہٹیں دور ہوتی سنائی دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پسپا ہو چکا ہے۔ اب میں رائفل کندھے سے لگا کر منتظر تھا کہ کب گرد کا بادل بیٹھے اور میں فاتح درندے کو نشانہ بنا لوں۔ چند ثانیے بعد درندہ گرد کے مرغولے میںسے نمودار ہوا۔
ہدف کو چند گز کے فاصلے پر دیکھ کر میں جوش اور خوشی سے بھر گیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائراس کی جانب جھونک دیے۔ ساکت فضا میں چارسو پچاس ایکسپریس کا کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ مگر یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پیر پھول گئے کہ گولیوں سے آدم خور کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ شاید میں عجلت میں تاک کر گولی نہ چلا سکا۔
اس سے قبل کہ میں رائفل بھرتا‘ آدم خور نے غضب ناک دھاڑ کے ساتھ میری جانب جست لگا دی۔ اسے خود پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں جلدی سے جھک کر گڑھے میں دبک گیا اور زندگی بھر کی مشاقی و مہارت بروئے کار لاتے ہوئے رائفل دوبارہ بھرنے لگا۔ عین اسی لمحے فضا شاٹ گن کے فائر سے گونج اٹھی۔
راجو کو شاید میرے گڑھے میں دبکنے ہی کا انتظار تھا۔ افسوس اس کی گولی بھی ضائع گئی کیونکہ عین اسی لمحے میں نے آدم خور کو اپنے اوپر سے جست لگاتے دیکھا۔ اسی لمحے پھر شاٹ گن کادھماکا سنائی دیا اور ساتھ ہی ایک ہولناک انسانی چیخ سے میں دہل گیا. وہ چیخ میرے ساتھی راجو کی تھی۔
بس پھر کیا تھا‘ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر اچھل کر گڑھے سے باہر نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دس گز دور لمبی لمبی گھاس بے تحاشا ہل رہی تھی۔ ساتھ ہی غراہٹوں اور انسانی کراہوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں جیسے درندہ اور انسان آپس میں گتھم گتھا ہوں۔ جیسے ہی میں قطعہ گھاس کے قریب پہنچا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
ایک تنومند چیتا راجو سے لڑتے ہوئے اسے پھاڑ کھانے کے چکر میں تھا۔ راجو اس کے خوفناک دانتوں اور تیز نوکیلے پنجوں سے بچنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اسی کوشش میں اس کی پگڑی کھل گئی اور لباس جگہ جگہ سے پھٹ گیا جس پر خون کے سرخ سرخ دھبے واضح نظر آ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔
میں جانتاتھا کہ راجو زیادہ دیر اس غیرمعمولی طاقتور لحیم شحیم چیتے کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ میں اگر گولی چلاتا‘ تو چیتے سے زیادہ راجو کے نشانہ بننے کے امکانات تھے مگر یوں محو تماشا بھی تونہیں رہا جا سکتا تھا۔ میں نے چیتے کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک ہوائی فائر کیا‘ سماعت پاش دھماکا گونجتے ہی چیتے نے فوراً خشمناک نگاہوں سے مجھے گھورا اور خون آلود دانت نکال کر غرایا۔ زخمی راجو کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں برآمد ہو رہی تھیں۔ عین اس لمحے جب چیتا مجھ پرحملہ کرنے یا نہ کرنے کے شش و پنج میں مبتلا تھا‘ میں نے اس کی پیٹھ کا نشانہ لے کر گولی داغ دی۔ وہ میری پیشہ ورانہ مہارت کی کڑی آزمائش کا لمحہ تھا۔ چیتے کی پشت ایسے زاویے پر تھی کہ اگر میرا نشانہ خطا ہو جاتا تو گولی سیدھی راجو کے سینے میںاتر جاتی۔ خوش قسمتی میرے ساتھ تھی‘ گولی کھا کر چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ اچھلا۔ اس دوران راجو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین پر لیٹے لیٹے ہی لوٹ لگائی اور چیتے کی گرفت سے نکل آیا۔
چیتاجیسے ہی تڑپ کر گرا‘ میں نے تاک کر دوبارہ فائر کر دیا۔گولی نے اس کی پیشانی کا مہلک بوسہ لیا اور وہ کوئی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہو گیا۔ میں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور دو مزید گولیاں اُس کے وجود میں اتار دیں۔ درندے کی موت کا اطمینان ہونے کے بعد میں تیزی سے راجو کی طرف بڑھا۔ بلاشبہ وہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ جب میں نے اسے تھاما تو اس کے زخموں سے خون ابل کر میرا لباس بھی تر کرنے لگا تاہم وہ چیتے کی موت پر خوش تھا۔ میں اسے اٹھا کر جھونپڑے میں لے گیا۔ خوش قسمتی سے اس کے زخم زیادہ سنگین نہ تھے‘ البتہ خون کا فی مقدار میں بہ گیا تھا۔
اس آدمی کی مدد سے میں نے راجو کو فوراً گائوں پہنچایا۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔ گائوں والے رائفلوں کے دھماکوں اور چیتوں کی غراہٹیں سن کر پہلے ہی گھروں سے لاٹھیاں اور بلم لے کر نکل آئے تھے۔ ان میں میرے تھانے کے سپاہی بھی تھے۔ ضروری مرہم پٹی کے بعد راجو کو میسور کے فوجی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ آدم خور درندوں کے پنجوں اور دانتوں میں خاص قسم کا زہر پیدا ہوتا ہے جس کے باعث زخم جلد نہیں بھرتے۔اگر بروقت علاج نہ کیا جائے‘ تو زہر سارے جسم میں پھیل کر ویسے اثرات پیدا کرتا ہے جیسے بائولے کتے کے کاٹنے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
اگرچہ تلگارتھی کا ساتواں آدم خور میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا تھا مگر مجھے ایک پل قرار نہ تھا۔ ایک طرف مجھے راجو کی فکر تھی‘ تو دوسری طرف اس آدم خور چیتے کے متعلق تشویش جو میری آنکھوں کے سامنے سے فرار ہوا تھا۔ اگر راجو کے ساتھ حادثہ پیش نہ آتا‘ تو میںاسی رات اُس کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا۔ اب مجھے آدم خور کی طرف سے جوابی حملے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر کسی آبادی پر حملہ آور ہو گا۔
مجھے یہ بھی یقین تھا کہ تلگارتھی کی پہاڑیوں میں پایا جانے والا وہ آٹھواں آدم خور چیتا اسجتھے کا آخری رکن تھا جس کے باقی ساتھی میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے تھے۔ اس یقین کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ساتویں آدم خور کی ہلاکت کے بعد آس پاس کی آبادیوں سے کسی واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ لوگ تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ آدم خوروں کا صفایا ہو چکا۔ راجو کو ہسپتال میں دو ہفتے ہوئے تھے جب ایک روز علی الصباح مجھے آدم خور کی تازہ ترین واردات کی اطلاع ملی۔ میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک آدمی بھاگا بھاگا میرے پاس خبر لایا کہ آدم خور نے بالم کوٹ میں ایک آدمی کو ہلاک کر دیا ہے۔ بالم کوٹ وہاں سے تین میل دورتھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اس بدنصیب کے بھائی نے مجھے حادثے کی تفصیل سنائی۔ مقتول کے گھرکی ایک کھڑکی پہاڑوں کی طرف کھلتی تھی۔ اس کا معمول تھا کہ وہ رات کو کھڑکی کے پاس بیٹھ کر حقہ پیا کرتا۔
جاری ہے
بشکریہ اردوڈائجسٹ
میں اپنی شکاری زندگی کے جس باب کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے چلا ہوں‘ وہ یادگار واقعہ ہے۔ مجھے ہندوستانی پولیس میں تعینات ہوئے چھٹا برس تھا‘ جب میرا تبادلہ ریاست میسور کے ضلع سموگا کر دیا گیا۔ میری تعیناتی شہر سموگا سے تین میل کی مسافت پر واقع قصبے تلگارتھی میں ہوئی۔ یاد رہے کہ میسور کا یہ جنگلی علاقہ صدیوں سے چیتوں کا مسکن رہا ہے۔ ان دنوںبھی وہاں کے جنگلوں میں چیتوں کی کثرت تھی۔ علاقے کی بیشتر آبادی ہندو تھی جو اپنے مردے جلاتے ہیں۔ یہ رسم کسی ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی۔ اس زمانے میں تلگارتھی کے کئی دیہات پہاڑیوں پر واقع تھے‘ ندی یا دریا ان سے کئی میل دور نیچے وادی میں بہتے تھے۔ یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیہاتیوںکو مردے جلانے کے لیے کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ عام حالات میں ہندو اپنی یہ مذہبی رسم بڑے اہتمام سے ادا کرتے‘ لیکن جب کسی وبا کے باعث لوگ زیادہ تعداد میں مرنے لگتے‘ تو یہی رسم خاصی حد تک سادہ اور سہل بن جاتی۔ عموماً وہ مردے کے منہ میں سلگتا کوئلہ ڈالتے اور اسے چوبی تختے پر باندھ کر نیچے وادی میں پھینک دیتے۔ ۱۹۱۸ئ میں جب ان علاقوں میں انفلوئنزا پھیلا‘ تو تلگارتھی کے ہندوئوں نے یہی طریقہ آزمایا۔ انھیں خبر نہ تھی کہ یہ مذہبی رسم کچھ عرصے بعد ان کے لیے موت کا پیغام بن جائے گی۔
اُن وادیوں میں چیتوں کی بہتات تھی۔ دورانِ وبا انسانی لاشوں کی وافر دستیابی کے باعث کئی چیتے آدم خوری میں مبتلا ہو گئے۔ درندے عموماً مرا ہوا شکار نہیں کھاتے۔ لگتا ہے ان دنوں جنگل میں عام شکار کم تھا‘ اس لیے وہ انسانی لاشوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی وبا ختم ہوئی‘ اس سے کہیں زیادہ مہلک وبا آدم خور چیتوں کی شکل میں تلگارتھی کے گرد و نواح پر نازل ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ آدم خوروں کی صحیح تعداد کیا تھی اور انھوں نے اپنی وارداتوں کا آغاز کیسے کیا۔ بہرحال میں نے سات ماہ کے دوران چھ آدم خور چیتے ہلاک کیے جو مخصوص علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھوںایک ہی مقام پر ہلاک ہونے والے آدم خوروں کی یہ ریکارڈ تعداد تھی۔ چھ آدم خوروں کی ہلاکت کے بعد علاقے میں ایک ماہ تک سکون رہا۔ دیہاتیوں سمیت میں بھی یہی سمجھا کہ شاید مردم خور بننے والے تمام چیتے جہنم واصل ہو چکے ہیں مگر یہ ہماری بھول تھی۔
ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن کوئی دیہاتی دوڑا دوڑا تھانے آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان مجھے بتایا کہ اس کے بھائی کو چیتا اٹھا لے گیا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی میں اور راجو اُس کے ساتھ چل پڑے۔ راجو کے پاس شاٹ گن تھی جبکہ میرے پاس رائفل اور ٹارچ۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور ہم رات سے قبل ہی جائے وقوعہ کا معائینہ کرنا چاہتے تھے۔ مقررہ جگہ پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ بستی سے ذرا ہٹ کر جنگل کے کنارے دو جھونپڑیاں واقع ہیں۔ ایک جھونپڑی کی دیوار پھٹی ہوئی تھی اور زمین پر کسی کے گھسیٹے جانے کے نشانات کے ساتھ ساتھ خون کے دھبے بھی واضح تھے۔ پھٹی ہوئی دیوار کی ہیئت دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ چیتا خاصاجسیم اور طاقتور ہے ۔
ہم دونوں نے دیہاتی کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور چیتے کے نقوشِ پا اور خون کے نشانات کا معائینہ کرتے ہوئے جھونپڑے سے دور نکل آئے۔ فضا پر موت کا سکوت چھایا ہوا تھا مگر میری چھٹی حس مسلسل خطرے کی نشاندہی کر رہی تھی۔
جیسے ہی میں نے ٹارچ کی روشنی جنگل کی سمت پھینکی تیس گزدور جھاڑیوں میں پل بھر کے لیے دو آبگینے چمکے اور اگلے ہی لمحے خون آشام درندے کی غصیلی غراہٹیں خاموش فضا میں تلاطم برپا کر گئیں۔ ہم وہیں رک گئے۔ راجو نے اپنی شاٹ گن اور میں نے رائفل کندھے سے لگا لی‘ درندے کی طرف سے کسی بھی لمحے حملہ متوقع تھا۔ لیکن چیتاجست لگا کر جھاڑیوں سے نکل گیا۔ اس کا رُخ جنگل کی طرف تھا۔ اس کی محض جھلک ہی نظر آئی پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہمیں اتنا موقع نہیں ملا کہ اس پر گولی چلاتے۔
آدم خور نے ابھی آدھا شکار ہی کھایا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تاکہ چھپنے کی کوئی جگہ مل جائے جہاں ہم اس کی واپسی کا انتظار کر سکیں۔ ابھی ہم جائزہ لے ہی رہے تھے کہ معاً ایک دھاڑسنائی دی اور تیس چالیس گز دور جھاڑیاں یوں ہلنے لگیں جیسے طوفان آ رہا ہو۔ ہمارے دائیں جانب پانچ فٹ اونچی ایک گھنی جھاڑی تھی جو خاصی پھیلی ہوئی تھی۔ میں پنجوں کے بل اس کی طرف رینگنے لگا اور راجو کو جھونپڑیوں کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔
راجو جیسے ہی جھونپڑیوں کی قریب پہنچا ایک دیوہیکل چیتا سماعت پاش دھاڑ کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس وقت میرے اور راجو کے درمیان بمشکل بیس پچیس گز کا فاصلہ تھا۔ جیسے ہی چیتا نشانے کی زد پر آیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کر دیے۔ اسی لمحے راجو کی شاٹ گن کا دھماکا بھی سنائی دیا۔ میں نے ایک پل کے لیے چیتے کو فضا میں قلابازی کھاتے دیکھا اور پھر وہ نظروں سے یوں اوجھل ہوگیا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔
دورانِ شکار اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لہٰذا مجھے کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہیں رک کر میں بھی جھونپڑے کی طرف بڑھا۔ یہ جھونپڑا چیتے کی دست برد سے محفوظ رہا تھا۔ اس میں دو عورتیں اور وہ مرد بیٹھا نظر آیا جو ہمیں بلا کر لایا تھا۔ تینوں سخت خوفزدہ تھے۔ ایک عورت اس کی بیوی تھی اور دوسری اس کے بھائی کی بیوہ جسے آدم خور نے ہلاک کر دیا تھا۔ ہم نے انھیں تسلی دی‘ تو ان کے اعصاب پرسکون ہوئے۔
بدقسمتی سے اس مقام پر گھاس اور خاردار جھاڑیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ادھ کھائی لاش کے قریب کوئی درخت بھی نہ تھا جس پر مچان بنائی جا سکتی۔ تھوڑی دیر بعد پورا چاند طلوع ہو گیا اور دور دور تک چاندنی نے گھاس کے قطعوں کو منور کر دیا۔ ہمارے پاس وافر مقدار میں گولیاں موجود تھیں اور ہمیں یقین تھا کہ آدم خور باقی ماندہ لاش کھانے ضرور واپس آئے گا۔ جھونپڑے میں موجود تینوں نفوس اب بھی دہشت زدہ تھے۔ہمارے اصرار کے باوجود وہ گائوں جانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن چڑھنے کے بعد ہی وہاں سے جائیں گے۔ اس دوران راجو نے لالٹین روشن کر دی۔ اب مجھے جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ چھکڑے کا ایک پہیہ پڑا نظر آیا۔ قریب جا کردیکھا‘ تو وہ خاصا مضبوط اور وزنی تھا۔
اسے دیکھتے ہی مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ یہ کہ لاش کے قریب ایک گہرا گڑھا کھودکر اسے کمین گاہ بنا لیا جائے۔ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اس پر چھکڑے کا پہیہ رکھا جا سکتا تھا۔ یوں گڑھے کے اندر سے میں نہ صرف لاش پر نظر رکھتا بلکہ درندہ ادھر آتا‘ تو خاصی قریب سے اُسے نشانہ بھی بنا سکتا تھا۔
یہمنصوبہ راجو کوبھی پسند آیا۔ خوفزدہ مرد نے پہیے کے علاوہ ہمیں زمین کھودنے کا نہ صرف سامان مہیا کیا بلکہ کھدائی میں بھی ہماری مدد کی۔ کھدائیکے دوران نکلنے والی مٹی جھونپڑے کے آس پاس پھیلا دی گئی۔ طے یہ پایا کہ میں اس میں بیٹھ کر آدم خور کا انتظار کروں اور راجو شاٹ گن لیے جھونپڑے میں رہے ۔ دراصل اس امر کا قوی امکان تھا کہ آدم خور ادھ کھائی لاش کے بجائے جھونپڑے پر حملہ آور ہو جائے تاکہ تازہ شکار کر لے‘ ایسے میں راجو اسے نشانہ بنا سکتاتھا۔
ہوا کا گزر نہ ہونے کے باعث گڑھے میں اچھی خاصی گرمی تھی۔ میرے سر پرتاروں بھرا آسمان دلفریب منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی قریب ہی کھڑا زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ میں چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور رائفل پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ میں خوامخواہ باہر جھانک کر اپنی کمین گاہ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دبی دبی غراہٹیں سنائی دینے لگیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آدم خود بچی کھچی لاش کھانے آ پہنچا۔ میں رائفل سیدھی کیے‘ آہستہ آہستہ پنجوں کے بل اوپر اٹھا اور ازحد احتیاط سے پہیہ سرکا کر باہر جھانکا‘ تو یہ دیکھ کر چونک گیا کہ ایک کے بجائے دو آدم خور وہاں موجود تھے۔ ایک لاش کو اگلے پنجوں میں دبائے خونخوار دانتوں سے نوچ رہا تھا جبکہ دوسرا کچھ فاصلے پر بیٹھا بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسے رخ پر بیٹھا تھاکہ گڑھا بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا لہٰذا اس نے میرا اوپر اٹھتا ہوا سر دیکھ لیا ۔
وہ یکدم دھاڑکر پنجوں پر کھڑا ہو گیا اور مجھے لال انگارہ آنکھوں سے یوں گھورنے لگا کہ پل بھر کے لیے میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ میرے لیے یہ سوچنا دوبھر ہو گیا کہ اب کیا کروں۔ مجھے ایک نہیں دو آدم خوروں کا سامنا تھا۔ اگر ایک پر گولی چلاتا‘ تو دوسرا کود کر مجھ پر آ پڑتا۔ میرے اور ان کے درمیان فاصلہ بھی خطرناک حد تک کم تھا۔ میں رائفل تیار حالت میںتھامے سانس روک کر انتظار کرنے لگا کہ پہلے کون سا آدم خور حملہ کرتا ہے‘ لیکن ہوا اس کے برعکس۔
مزے سے لاش کی ہڈیاں چباتے اور گوشت نوچتے چیتے نے جب یہ دیکھا کہ دوسرا چیتا جارحانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور غرا رہا ہے‘ تو سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے لگا ہے۔ یہ مغالطہ میرے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ لاش کھانے والے آدم خور نے دل دہلا دینے والی غراہٹوں کے ساتھ دوسرے چیتے پر حملہ کر دیا۔ دونوں آپس میں بے تحاشا لڑنے لگے۔یہ میرے لیے امداد غیبی ہی تھی۔ میں آہستہ سے پہیہ ایک طرف سرکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اب میں دھڑ تک گڑھے سے باہر تھا۔ میں نے چیتوں کی طرف نظر دوڑائی تو بے تحاشا ہلتی ہوئی گھاس اور گرد کے بادل کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ بس غصیلی غراہٹیں ہی پتا دیتی تھیں کہ اُس طرف دو خون آشام درندے گتھم گتھا ہیں۔ میں گولی چلا سکتا تھا مگر یوں دونوں میں سے کوئی زخمی ہو کر فرار ہو جاتا جو میں نہیں چاہتا تھا۔ مجھے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا‘ کچھ دیر بعد غراہٹوں کی شدت میں کمی آ گئی جس کے ساتھ ہی ایک چیتے کی غراہٹیں دور ہوتی سنائی دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پسپا ہو چکا ہے۔ اب میں رائفل کندھے سے لگا کر منتظر تھا کہ کب گرد کا بادل بیٹھے اور میں فاتح درندے کو نشانہ بنا لوں۔ چند ثانیے بعد درندہ گرد کے مرغولے میںسے نمودار ہوا۔
ہدف کو چند گز کے فاصلے پر دیکھ کر میں جوش اور خوشی سے بھر گیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائراس کی جانب جھونک دیے۔ ساکت فضا میں چارسو پچاس ایکسپریس کا کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ مگر یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پیر پھول گئے کہ گولیوں سے آدم خور کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ شاید میں عجلت میں تاک کر گولی نہ چلا سکا۔
اس سے قبل کہ میں رائفل بھرتا‘ آدم خور نے غضب ناک دھاڑ کے ساتھ میری جانب جست لگا دی۔ اسے خود پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں جلدی سے جھک کر گڑھے میں دبک گیا اور زندگی بھر کی مشاقی و مہارت بروئے کار لاتے ہوئے رائفل دوبارہ بھرنے لگا۔ عین اسی لمحے فضا شاٹ گن کے فائر سے گونج اٹھی۔
راجو کو شاید میرے گڑھے میں دبکنے ہی کا انتظار تھا۔ افسوس اس کی گولی بھی ضائع گئی کیونکہ عین اسی لمحے میں نے آدم خور کو اپنے اوپر سے جست لگاتے دیکھا۔ اسی لمحے پھر شاٹ گن کادھماکا سنائی دیا اور ساتھ ہی ایک ہولناک انسانی چیخ سے میں دہل گیا. وہ چیخ میرے ساتھی راجو کی تھی۔
بس پھر کیا تھا‘ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر اچھل کر گڑھے سے باہر نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دس گز دور لمبی لمبی گھاس بے تحاشا ہل رہی تھی۔ ساتھ ہی غراہٹوں اور انسانی کراہوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں جیسے درندہ اور انسان آپس میں گتھم گتھا ہوں۔ جیسے ہی میں قطعہ گھاس کے قریب پہنچا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
ایک تنومند چیتا راجو سے لڑتے ہوئے اسے پھاڑ کھانے کے چکر میں تھا۔ راجو اس کے خوفناک دانتوں اور تیز نوکیلے پنجوں سے بچنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اسی کوشش میں اس کی پگڑی کھل گئی اور لباس جگہ جگہ سے پھٹ گیا جس پر خون کے سرخ سرخ دھبے واضح نظر آ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔
میں جانتاتھا کہ راجو زیادہ دیر اس غیرمعمولی طاقتور لحیم شحیم چیتے کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ میں اگر گولی چلاتا‘ تو چیتے سے زیادہ راجو کے نشانہ بننے کے امکانات تھے مگر یوں محو تماشا بھی تونہیں رہا جا سکتا تھا۔ میں نے چیتے کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک ہوائی فائر کیا‘ سماعت پاش دھماکا گونجتے ہی چیتے نے فوراً خشمناک نگاہوں سے مجھے گھورا اور خون آلود دانت نکال کر غرایا۔ زخمی راجو کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں برآمد ہو رہی تھیں۔ عین اس لمحے جب چیتا مجھ پرحملہ کرنے یا نہ کرنے کے شش و پنج میں مبتلا تھا‘ میں نے اس کی پیٹھ کا نشانہ لے کر گولی داغ دی۔ وہ میری پیشہ ورانہ مہارت کی کڑی آزمائش کا لمحہ تھا۔ چیتے کی پشت ایسے زاویے پر تھی کہ اگر میرا نشانہ خطا ہو جاتا تو گولی سیدھی راجو کے سینے میںاتر جاتی۔ خوش قسمتی میرے ساتھ تھی‘ گولی کھا کر چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ اچھلا۔ اس دوران راجو نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین پر لیٹے لیٹے ہی لوٹ لگائی اور چیتے کی گرفت سے نکل آیا۔
چیتاجیسے ہی تڑپ کر گرا‘ میں نے تاک کر دوبارہ فائر کر دیا۔گولی نے اس کی پیشانی کا مہلک بوسہ لیا اور وہ کوئی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہو گیا۔ میں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور دو مزید گولیاں اُس کے وجود میں اتار دیں۔ درندے کی موت کا اطمینان ہونے کے بعد میں تیزی سے راجو کی طرف بڑھا۔ بلاشبہ وہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ جب میں نے اسے تھاما تو اس کے زخموں سے خون ابل کر میرا لباس بھی تر کرنے لگا تاہم وہ چیتے کی موت پر خوش تھا۔ میں اسے اٹھا کر جھونپڑے میں لے گیا۔ خوش قسمتی سے اس کے زخم زیادہ سنگین نہ تھے‘ البتہ خون کا فی مقدار میں بہ گیا تھا۔
اس آدمی کی مدد سے میں نے راجو کو فوراً گائوں پہنچایا۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔ گائوں والے رائفلوں کے دھماکوں اور چیتوں کی غراہٹیں سن کر پہلے ہی گھروں سے لاٹھیاں اور بلم لے کر نکل آئے تھے۔ ان میں میرے تھانے کے سپاہی بھی تھے۔ ضروری مرہم پٹی کے بعد راجو کو میسور کے فوجی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ آدم خور درندوں کے پنجوں اور دانتوں میں خاص قسم کا زہر پیدا ہوتا ہے جس کے باعث زخم جلد نہیں بھرتے۔اگر بروقت علاج نہ کیا جائے‘ تو زہر سارے جسم میں پھیل کر ویسے اثرات پیدا کرتا ہے جیسے بائولے کتے کے کاٹنے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
اگرچہ تلگارتھی کا ساتواں آدم خور میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا تھا مگر مجھے ایک پل قرار نہ تھا۔ ایک طرف مجھے راجو کی فکر تھی‘ تو دوسری طرف اس آدم خور چیتے کے متعلق تشویش جو میری آنکھوں کے سامنے سے فرار ہوا تھا۔ اگر راجو کے ساتھ حادثہ پیش نہ آتا‘ تو میںاسی رات اُس کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا۔ اب مجھے آدم خور کی طرف سے جوابی حملے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر کسی آبادی پر حملہ آور ہو گا۔
مجھے یہ بھی یقین تھا کہ تلگارتھی کی پہاڑیوں میں پایا جانے والا وہ آٹھواں آدم خور چیتا اسجتھے کا آخری رکن تھا جس کے باقی ساتھی میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے تھے۔ اس یقین کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ساتویں آدم خور کی ہلاکت کے بعد آس پاس کی آبادیوں سے کسی واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ لوگ تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ آدم خوروں کا صفایا ہو چکا۔ راجو کو ہسپتال میں دو ہفتے ہوئے تھے جب ایک روز علی الصباح مجھے آدم خور کی تازہ ترین واردات کی اطلاع ملی۔ میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک آدمی بھاگا بھاگا میرے پاس خبر لایا کہ آدم خور نے بالم کوٹ میں ایک آدمی کو ہلاک کر دیا ہے۔ بالم کوٹ وہاں سے تین میل دورتھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اس بدنصیب کے بھائی نے مجھے حادثے کی تفصیل سنائی۔ مقتول کے گھرکی ایک کھڑکی پہاڑوں کی طرف کھلتی تھی۔ اس کا معمول تھا کہ وہ رات کو کھڑکی کے پاس بیٹھ کر حقہ پیا کرتا۔
جاری ہے
بشکریہ اردوڈائجسٹ