نوید ناظم
محفلین
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟
اس کو دفنا کر کہیں مٹی بھی ڈال آتا ہوں میں!
تا کہ مجھ سے بھی اندھیروں کا گلہ کر دے نہ وہ
اُس کے آنگن میں کوئی سورج اچھال آتا ہوں میں
کھولتی یادوں میں دل کو پھینک دیتا ہوں کبھی
کیسا داروغہ ہوں اپنا دل ابال آتا ہوں میں
شوق جو تھا تجھ سے ملنے کا وہ گھر میں رہ گیا
اب اجازت دو اگر، جا کر سنبھال آتا ہوں میں
میرا دروازہ ترا غم کھولتا ہے شام کو
جبکہ دن کو کام سے تھک کر نڈھال آتا ہوں میں
یہ مجھے معلوم ہے اس نے نہیں آنا کبھی
سال بھر کا پھر بھی کیلنڈر کھنگال آتا ہوں میں
دشت میں کیسے وہ چل پائے گا میرے ساتھ ساتھ
بس بہانہ کر کے کوئی اس کو ٹال آتا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟
اس کو دفنا کر کہیں مٹی بھی ڈال آتا ہوں میں!
تا کہ مجھ سے بھی اندھیروں کا گلہ کر دے نہ وہ
اُس کے آنگن میں کوئی سورج اچھال آتا ہوں میں
کھولتی یادوں میں دل کو پھینک دیتا ہوں کبھی
کیسا داروغہ ہوں اپنا دل ابال آتا ہوں میں
شوق جو تھا تجھ سے ملنے کا وہ گھر میں رہ گیا
اب اجازت دو اگر، جا کر سنبھال آتا ہوں میں
میرا دروازہ ترا غم کھولتا ہے شام کو
جبکہ دن کو کام سے تھک کر نڈھال آتا ہوں میں
یہ مجھے معلوم ہے اس نے نہیں آنا کبھی
سال بھر کا پھر بھی کیلنڈر کھنگال آتا ہوں میں
دشت میں کیسے وہ چل پائے گا میرے ساتھ ساتھ
بس بہانہ کر کے کوئی اس کو ٹال آتا ہوں میں