loneliness4ever
محفلین
آخری سچ
از س ن مخمور
از س ن مخمور
تکلیف کی شدت سے میری آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا، گند اور کچرے کی بو سے دماغ پھٹ رہا تھا مگر بدن میں اب اتنی سکت نہیں تھی کہ سوت بھر بھی میں خود کو حرکت دے پاتا۔ سانس کا سفر دھیمے دھیمے اپنی رفتا ر کم کر رہا تھا، میں پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا تھا مگر یہ بھی یقینا میرے بس سے اب باہر تھا،گزرتے لمحے دم بہ دم مجھے زندگی سے دور کر رہے تھے۔لمحوں کی مختصر ترین ساعتوں میں میری آنکھوں کے سامنے ماضی قریب کے منظر دوڑنے لگے تھے۔
٭٭٭
بہتّر گھنٹوں پہلے ہی کی تو بات تھی، میں روبینہ کو اسپتال میں ایڈمٹ کروا کے امی کو اس کے پاس ہی چھوڑ کر اس کی خاطر پھل لینے کے لئے اسپتال سے کچھ دور سڑک پار گھنے درخت کی چھائوں میں کھڑے پھل فروش تک پہنچا ہی تھا کہ برابر میں ایک وین آکر رکی اور آ ناَ فا ناَ چار بد معاشوں نے مجھے پکڑ ا اور وین میں ڈال دیا۔ سڑک پر چند لمحوں کو ہل چل ہوئی۔اور وین والے اسی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے اٹھا لے گئے۔میرا ذہن بہت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ ایک کرائم رپورٹر ہونے کی حیثیت سے میرے لئے سب سے خطرناک با ت یہ تھی کہ ان لوگوں نے اپنے چہرے نہیں چھپائے ہوئے تھے اور میں باخوبی واقف تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔اس سے پہلے میں کوئی سوال کرتا کوئی بھاری ضرب میرے سر پر ہوئی اور میں آس پاس کے ماحول سے غافل ہوگیا۔ میں جانے کب تک بے ہوش رہا تھا معلوم نہیں،غفلت سے ہوش میں بھی شاید کسی کی دلدوز چیخ سے آیا تھا شاید وہ کسی کی آخری چیخ تھی۔ میں نے چونک کر آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو ایک ایسے کمرے میں پایا جس میں نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ روشندان ، کمرے میں روشنی سے زیادہ اندھیرے کا راج تھا جس کے سبب کمرے کا ماحول وحشت زدہ محسوس ہو رہا تھا۔ برابر کے کمرے سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے کوئی بغدہ چلا رہا ہو۔خوف او ر دہشت کی لہر میرے پورے بدن میں دوڑ گئی تھی۔ میں پروردگار کو یاد کرنے لگامجھے اپنے دوستوں کی تمام باتیں اور نصیحتیں یاد آنے لگی تھیں۔
٭٭٭
کتے کے بھوکنے کی آواز مجھے واپس حال تک لے آئی۔وہ میرے پائوں پر اپنی تھوتنی لگا رہا تھا۔میری حالت مزید بگڑ نے لگی مگر غنودگی کی کیفیت اب قدرے کم تھی میں اپنے ہوش میں مکمل واپس آچکا تھا۔میں نے اندھیرے میں آنکھیں ممکنہ حد تک کھول لیں۔آہستہ آہستہ منظر صاف ہونے لگا اور اب مجھے معلوم پڑا کہ رات کا وقت تھا۔ آسمان پر چاند نہیں تھا اور تاروں کا جال واضح نظر آرہا تھا۔دور بہت دور سے کسی چوکیدارکے سیٹی بجانے کی آواز آرہی تھی۔لمحے بھرمیں امید کی کرن نے سیاہی میں ڈوبتے جیون کے چراغ کی روشنی بڑھا دی۔مگرچند ساعتوں میں لو پھرٹمٹمانے لگی۔حقیقت کی نگاہ سے دیکھا تو یہ کڑوا سچ سہنا پڑا کہ اب جیون کی ڈوبتی نائوکو کسی چوکیدار کی سیٹی ، اس کی آمد کنارے تک واپس نہیں لا سکتی۔دم توڑتی امید کے ساتھ کچھ آنسو میری آنکھوں سے نکل پڑے۔ اور میری آنکھوں میں اپنے چہیتے ننھے حمید کا پیارا اور اجلا چہرہ سامنے آگیا۔جانے کتنے خواب میں نے اور روبینہ نے اس کے لیے بن رکھے تھے۔زندگی کا ہر خواب لمحوں میں میرے آنسوئوں میں بہنے لگا۔گھر میں ایک نئی آمد کے لئے کتنی خوشیاں تھیں۔امی اور میری ساس ایسے خوش تھیں جیسے بچیاں گڈے گڑیا کی شادی کرواتے ہوئے خوشیا ں مناتی ہیں۔میں اور روبینہ بھی بہت خوش تھے۔ابو نے تو نام بھی نکالنے شروع کر دیے تھے۔مگر جانے کیوں متوقع نئی آمد پر خوشی سے زیادہ روبینہ کو کسی انجانے خوف نے بھرپور خوش ہونے ہی نہ دیا تھا۔اور بس بہتّر گھنٹوں کے بعد ساحل پر تڑپتی بے آب مچھلی کی مانند اپنی زندگی کو دیکھ کر میں جان چکا تھا کہ وہ اتنا خوف زدہ کیوں تھی۔مجھے اس کے وہ خواب یاد آگئے جن کو بیان کرتے ہوئے وہ رو جاتی تھی۔جانے کتنی ہی بار اس نے خوابوں میں مجھے دورہوتے دیکھا تھا۔اکثر اپنے آپ کو تنہا دیکھا تھا۔میں جان گیا کہ اس نیک سیرت کو قدرت نے بہت پہلے یہ وقت دکھا دیا تھا۔ اس کی جھیل سی شفاف اور حیا سے ہر پل جھکی آنکھوں سے گرتے آنسو اس وقت جیسے میری آنکھوں سے رواں ہوگئے۔میں بے چین ہو گیا اب ہمیشہ کی دوری و ہ جانے کیسے جھیل پائے گی؟میں جانے کتنے لمحے یوں ہی ضائع کر دیتاکہ تکلیف سے تھڑا اٹھا۔یوں لگا جیسے جاںکنی کاوقت آن پہنچا ہو۔میرے کٹے ہوئے پائوں پر کتے نے پھر اپنی تھوتنی لگائی تھی۔درد کی لہر پورے بدن میں دور گئی۔مجھے وہ کربناک لمحات یاد آگئے۔
٭٭٭
برابر کمرے سے بغدے کے چلنے کی مسلسل آواز میرے رونگٹھے کھڑے کئے دے رہی تھی۔پھر کچھ دیر بعد کسی کو زمین پر گھسیٹنے کی آواز آنے لگی۔فرش پر پڑے پڑے گردن گھما کر دیکھا تو جیسے جان نکل گئی ۔دو آدمی ایک بیہوش شخص کوزمین پر گھسیٹتے ہوئے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔ جس کا ایک بازو اور ایک ٹانگ کٹے ہوئے تھے۔ فرش پر تازہ خون کی لمبی لمبی لکیریں کھینچ گئی تھیں۔انہوں نے اس شخص کو میرے سامنے دیوار کی جانب ڈال دیا۔پھر میری جانب دیکھا اور مسکرا دیئے۔ ایک نے بہت ہی اشتیاق سے کہا کہ اب تیری باری ہے۔میں لرز گیاتھا۔بندھا ہوا تھا اس لئے کوئی مذحمت نہیں کر سکتا تھا۔ایک نے مجھے ٹانگوں سے پکڑا اور بڑی بے دردی سے گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں لے آیا۔وہ لمحات میرے اوپر قیامت صغری تھے، میں خوف اور پیش آنے والی تکلیف کے احساس سے مکمل طور پر دہشت زدہ ہو چکا تھا،نہ ذہن ساتھ دے رہا تھا نہ زبان، وہ دونوں قصائی کی مانند میرے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ کمرے میں نیم روشنی اور چھری،بغدے کی دھار کو تیزکرنے کی آوازوں نے میری روح کو رخصت کر دیا تھا۔ میرا ذہن مائوف ہو گیا تھا میں جیسے کسی بدحواس اور پاگل انسان کی مانند زمین پر پڑا گردن گھما گھما کر کمرے میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔یکایک بدحواسی کی یہ کیفیت ختم ہو گئی اور میں جیسے اپنے ہوش میں واپس آگیا، میں نے اپنے آپ کو مضبوط کر نے اور حالات و تکلیف کا مقابلہ کرنے کے لئے آیات کا ورد شروع کردیا۔وہ دونوں بدستور اپنے ہتھیار وںکی دھا رسنوار رہے تھے۔ وہ لوگ کون ہیں؟کیا کرنا چاہتے ہیں ؟اور مجھے کیوں پکڑا ہے؟ ایسے تمام سوال کرنا بیکار اور فضول تھے، میں باخوبی جانتا تھا کہ وہ انسانیت کے لبادے میں حیوان ہیں اور یقینا کسی ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں میں یا تو بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور دکھا چکا ہوں یا پھر ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ، اور ظاہر سی بات تھی انہوں نے نقاب استعمال کئے بنا مجھے پکڑا تھا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ میری زندگی کا چراغ گل کرنا چاہتے ہیں، اذیت اور خوف کے ان لمحات میں بھی اب میرا دماغ بہت تیزی سے کام کر رہا تھا ، مگر وہ کس گروہ سے تعلق رکھتے تھے اس کامکمل جواب میرے پاس بھی نہیں تھا، آخر اس جواب کو جاننے کے لئے میں نے لبوں کے بندھن توڑ دیے۔
’’ تم لوگوں کو یہ سب کر کے کیا ملے گا؟ ‘‘
میرے لہجے کی پختگی اور اعتماد خود میرے لئے حیران کن تھا۔ کمرے کی فضا جیسے خاموش ہوگئی اور ان دونوں کے ہاتھ تھم گئے وہ مجھے دیکھنے لگے اور پھر دیوانوں کی طر ح قہقے لگانے لگے، آخر جب ان کا یہ دیوانہ پن طویل ہونے لگا تو میں پھر بول پڑا
’’ یہ قہقے تم لگاتے رہنا مگر پہلے مجھے میرے سوال کا جواب دے دو‘‘
میرے اندر اب نہ جانے اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی مجھے اپنے انجام کی پرواہ بھی نہ رہی تھی۔ میں اس پل سب کچھ فراموش کر چکاتھا نہ مجھے روبینہ یاد تھی نہ حمید، اور نہ ماں ، باپ۔۔۔ میں اپنے انجام کو سمجھ چکا تھا مگر اس کے سبب سے انجان نہیں رہنا چاہتا تھا ، اس ہی لئے اب مجھے اپنے سوال کا جواب ان حیوانوں سے ہر حال میں مطلوب تھا۔ میرے بار بار دریافت کرنے پر آخر مجھے پتہ چل ہی گیا کہ اس تمام کاروائی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ شہر کا معروف صنعت کار اپنے بیٹے کو منشیات ،اسمگلنگ اور ایک پولیس ا ٓفیسر کے قتل کے مقدمے کی ہونے والی عدالتی کاروائی پر اثر انداز ہونے کے لئے یہ تمام حربے استعمال کرکے جج کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور کرنا چاہ رہا تھا ، میر ے بعد جج کی جوان بیٹی ان حیوانوں کی فہرست میں تھی۔ جس کے ساتھ وہ موت سے بھی اذیت ناک سلوک کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔میری خطا ، وہ سچ اور ثبوت تھے جن کو متعدد دھمکیوں کے باوجود عدالت کی کاروائی کی زینت بنایا گیا تھا۔میں نے ہر دھمکی کو ہمیشہ کی طرح نظر انداز کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ اس وقت میرے سامنے تھا۔میں جانتا تھا میری موت پر ایک نہیں کتنے ہی افراد شک کی زد میں آجائیں گے یوں اصل قاتل تک کوئی نہیں پہنچ پائے گا۔ میرے سچ کی بد ولت کتنے ہی مقدمے عدالت میں اس وقت زیر ِسماعت تھے اور اس ہی بات کا انہوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ پولیس اور عوام نہ جانے کس کس کو قصور وار تصور کر کے تھک ہار کے بیٹھ جائیں گے اور صحافت کے ایوانوں میں میری یاد میں ایک تقریب اور محض کاغذی حد تک لاکھ دو لاکھ کا چیک میرے ورثا کو دے کر ذمے دار اپنی اپنی ذمے داری باخوبی ادا کر دیں گے۔ میں یہ سب جانتا تھا مگر کبھی پرواہ نہیں کی تھی اور آج میں اس کا نتیجہ اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے میں مزید کچھ جان پاتا ،کمرے میں ایک اورشخص داخل ہوا جو غالبا ان سے مرتبے میں بڑا تھا۔اس نے جو ان دونوں کو مجھ سے باتیں کرتے دیکھا اور چھریوں کی دھار تیز کرتے پایا تو آپے سے باہر ہوگیا اور دونوں کو بْرا بھلا کہنے لگا
’’ بد ذاتوں ! کیا کررہے ہو تم لوگ؟ اس خبیث کو کیا باتیں کرنے کے لئے لائے تھے؟ بدبختوں!چھریوں کو کیوں تیز کر رہے ہو؟‘‘
اس کی اچانک آمد پر وہ دونوں گبھرا گئے۔ ان میں سے ایک نے اس کی باتوں پر جلدی سے جواب دیا
’’ استاد ! اس نے ہم کو باتوں میں لگا لیا تھا۔ مگر یہ اب کچھ بھی جان لے اس سے ہمیں تو اب کوئی نقصان نہیں ہو گا‘‘
یہ آخری جملہ اس نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا اور اس کی سفاک مسکراہٹ کو دیکھ کر میں یہ سوچنے لگا تھا کہ ان لوگوں میں کسی بھی درجے کی انسانیت زندہ نہیں بچی ہے۔
’’نہیں پاجی !!نقصان ہمیں ہوگا اگر ہم نے دیر کر دی۔اس کی انگلیوں کی بولی لگ چکی ہے اور اصغر بھائی نے تو اس کی زبان کی بھی قیمت لگا دی ہے۔اگر دیر کی تو سودا خراب ہو سکتا ہے‘‘
استاد نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔اور پھر کچھ سوچ کر بولا
’’اور ہاں ہڈی کو توڑنے کے لئے بغدہ استعمال کرنا مگر گوشت اتارنے کے لئے کند چھری استعمال کرنا تاکہ اس کو تکلیف زیادہ ہو اور اس منظر کی ویڈیو کی مانگ میں بھی یوں اضافہ ہوگااور دام اچھے مل جائیں گے‘‘
میرا دماغ سناٹے میں آچکا تھا اتنی درندگی میں نے کبھی نہ سنی تھی اور نہ سوچی تھی۔مگر سچ ہے انسان گرنے پر آئے تو حیوان و شیطان سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔اور بلندی تک جائے تو عرش وا لے بھی اس کی محافل میں آتے ہیں۔میں نے آنے والے وقت کے لئے اپنا ذہن بنا لیا۔ خوف مجھ سے کوسوں دور تھا۔ میں اس پل نہ جانے کس مٹی کے اثر میں تھا ،ان دونوں نے میری ٹانگیں اور ہاتھ کمرے کے فرش میں گڑے کھونٹوں سے باندھ دیے تھے۔ کھونٹے چونکہ کافی فاصلے پر تھے جس کی وجہ سے میرے ہاتھ پائوں ممکن حد تک پھیل چکے تھے۔انھوں نے میرے سر کو بھی رسیوں سےیوں جکڑ دیا کہ میں گردن بھی نہ ہلا پائوں۔میرے پاس فرش پر بیٹھے دونوں درندوں نے اپنے چہرے سیاہ نقابوں سے چھپا لئے اوران کے استاد نے کیمرہ سنبھال لیا ۔کمرے میں روشنی کردی گئی تھی تاکہ منظر صاف فلمبند ہو سکے۔میں نے اپنے ہر بد فعل پر رب سے معافی مانگی اورکلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیاتھا۔میرا حوصلہ و استقامت اپنی جگہ قائم تھے مگر آنکھوں سے نہ تھمنے والا سمندر رواں ہو چلا تھا۔ان میں سے ایک نے میرے دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر پہلے تیز دھار چھری سے چیرا لگایا ، رگوں میں بہتا خون جسم سے آزاد ہو گیا۔میر ے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور میرے حلق سے تکلیف اور دہشت سے نہ جانے کیسی آوازیں نکل رہی تھیں مگر ظالموں کے قہقہے میری چیخوں سے کہیں زیادہ بلند تھے۔انھوں نے ایک ایک کر کے میری انگلیوں سے گوشت اتار لیا۔کند چھری کے استعمال نے اذیت کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔میں اس تکلیف کو برداشت نہ کر سکا اور بیہوشی کے عالم میں چلا گیا۔ میںجانے کتنی دیر بے ہوش رہا مگر بے ہوشی بھی مجھے اس اذیت سے نہ بچا سکی ۔میری آنکھیں اپنے جسم پران وحشیوںکی برستی لاتوں کے سبب کھل گئیں۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ پھر سے اس درندگی کے لئے تیار ہوگئے۔میری زبان ہر بندھن توڑ چکی تھی میں انھیں اللہ اور رسولﷺ کے واسطے دینے لگا کہ مجھے مار دو مگر یہ اذیت ناک کھیل مت کھیلو۔میری چیخ پکار جب انتہا کو پہنچ گئی تو ان میں سے ایک نے ایک چھوٹا مگر دو دھاری چاقوجو اوپری طرف سے نوکدار ہونے کے بجائے گولائی میں تھا ، تکلیف سے کھولے ہوئے میرے منہ میں اس طرح ڈال دیا کہ چاقو کے دستے پرچوڑی لچکدار رسی (لاسٹک ) کا ایک سرا باندھ کردوسرے سرے کو میر ے سر سے گھوما کر دوسری جانب سے لا کر چاقو کے دستے سے باندھ دیا گیا۔اب حالت یہ تھی کی اگر میں چیخ کے لئےمنہ کھولتا تو وہ چاقو لچکدار رسی (لاسٹک) کے زور پر میرے حلق میں اتر تا۔ میری زبان چاقو کی تیزدھار کو محسوس کر رہی تھی۔میں نے مضبوطی سے اپنا منہ بند کر لیا اور دانتوں سے چاقو کا پھل پکڑ لیاتھا۔میری دہائی اور واسطوں نے ان کا موڈ خراب کر دیا تھا۔حیوانیت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔آناَفاناَ انھوں نے میرے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے کندھے تک کے حصے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا۔میں دونوں بازئووں سے محروم کردیا گیا تھا۔وہ چاہتے تو بس دو ہی وار میں میرے بازو دھڑ سے الگ کر دیتے مگر انھوں نے درندگی کی ہر حد پار کر دی تھی۔ انھوں نے ہتھیلیوں سے اوپر کندھے تک کانٹنا شروع کیا تھا یوں بغدے کی ہر ضرب پر میرا جسم جھٹکے لیتا اور منہ میں ڈالا گیا چاقواندر اچھی طرح کاٹ چھانٹ کر دیتا۔میراچہرہ اور اردگرد کی زمین میرے خون سے رنگین ہو چکی تھی۔انھوں نے اس پر بھی بس نہ کیا اور گھٹنے سے نیچے میری ایک ٹانگ بھی کاٹ ڈالی اور دوسری ٹانگ کا نصف پنجہ جسم سے الگ کردیا۔میرے منہ میں ڈالے گئے چاقو نے اپنا کام باخوبی انجام دیاتھا۔ پھر ان میں سے ایک میرے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور میرے منہ سے چاقو نکال لیا اور خون میں تر میری زبان کو پل میں چاقو کے ایک ہی وار سے جسم سے جدا کر دیا۔میرے جسم کے کانٹے گئے حصوں کو الگ الگ ڈبوں میں رکھا گیا تھا اور ان ڈبوں پر خریدار کے نام لکھے ہوئے تھے۔درد ، دکھ، ناامیدی ،غرض ان جیسے تمام احساسات کی حدودسے میں گزر چکا تھامگر موت تھی کے مجھ تک پہنچ نہیں پارہی تھی اورنہ میں اس تک پہنچ پا رہا تھا۔وقت جیسے تھم گیا تھا، مگر میرا جسم اب تک تڑپ رہا تھا۔خون تھا کہ نکلے جارہا تھا مگر زندگی میرے جسم کو چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔میرے تڑپنے کا منظر فلمبند کرکے انھوں نے مجھے جلدی سے گاڑی میں ڈالا اور یہاںکچرے کے ڈھیر میں پھینک گئے۔ایک پیغام، ایک عبرت بنا کر تاکہ جاری مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں ہو۔
٭٭٭
گزرے لمحوں کا بھیانک سفر تمام ہو چکاتھا۔میں حال میں واپس آگیا تھا۔زندگی تھی کہ مجھ سے رخصت ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سانس کا سفر دھیما تو ہو رہا تھا مگر اپنے انجام کو نہیں پہنچ پارہا تھا۔میں مر چکاتھا، مگر مر نہیں پا رہا تھا۔میرا ہر سچ، ہر امید ، معاشرے میں سنوار کا ہرخواب میری آنکھوں سے آنسو بن کربہہ رہا تھا۔مجھے معاشرے کے ناسوروں کے خلاف اپنی جنگ رائیگاں نظر آنے لگی تھی۔مجھے اپنے احباب اور اہلیہ کی ناراضگی اور باتیں یاد آنے لگی تھیں کہ نہ جانے کس کس انداز سے انھوں نے مجھے میری صداقت سے روکنے کی ناکام کوششیں کیں تھیںمگر میں جو اس وقت اپنے حوصلوں میں ایک چٹان کی مانند تھا اِس پل ہوامیں اڑتی دربدر خاک کی مانند ہو چلاتھا۔مجھے دنیا کی ہر بات سچ اور اپنی ہر بات جھوٹ لگ رہی تھی۔میں تمام عمر جس امید کی رسی کو تھامے رکھے تھا اس حادثے کے بعد اس کوچھوڑ چکا تھا۔اور اب سوچ رہا تھا کہ میرے سچ سے بگڑا معاشرہ سنورنے کے بجائے اور الجھ گیا ہے،ایک اور گھر میں ماتم ، ایک اور عورت بیوہ اور بچہ یتیم ہونے چلاہے۔ ماں باپ کی آنکھوں میں آنسوئوں اور یاد کا نہ رکنے والا طوفان امڈ نے کو ہے۔مجھے خود اپنے سچ سے نفرت ہو نے لگی اور میں ہر اس گزرے پل پر افسوس کرنے لگا جب میری زبان بلا خوف سچ بولتی رہی تھی۔میرا قلم سچ لکھتا رہا تھا۔میری آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات شروع ہو چکی تھی۔رات تمام ہونے کو تھی ، فلک کا چاند ڈھل رہا تھا ، ستارے مدہم ہو چلے تھے۔اندھیرا سمٹ رہا تھا مگر میری سوچ پر ناامیدی اور رائیگاں زندگی کی ملامت پھیل رہی تھی، اور اس سے پہلے کہ یہ سیاہی میری سوچ کو مکمل برباد کر دیتی یکایک مجھے روتے روتے یوں لگا جیسے تاریکی چھٹ چکی ہو میری آنکھوں پر طاری رات مر چکی تھی۔تجلیات پر پڑے مہیب پردے میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیے گئے تھے ،مجھے یوں لگا کہ میری دنیا الگ ہو چکی ہے، فضا باادب اور معطر ہو گئی تھی ، تمام منظر عقیدت مند نظر آنے لگا تھا،ہر شے باادب نظر آرہی تھی ایسے میں کسی نے میرے کان میں کہا
’’اے جاں سوختہ! اٹھ کہ تجھے لینے حبیب ﷺکی بارگاہ سے حبیب ﷺ کے یار آرہے ہیں۔‘‘
اس غیبی آواز کہ آتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا، اور اب معلوم ہوا مجھے کہ میرے ہاتھ پائوں ایسی حالت میں ہیں جیسے کبھی کسی معمولی زخم کا بھی شکار نہ ہوئے ہوں۔میں نے گبھرا ہٹ کے عالم میں پلٹ کر جو دیکھا تودور مجھے اپنا لاشہ خون میں تر نظر آیا مگر اب وہ خون مجھے تازہ گلاب کی پتیاں نظر آرہی تھیں۔ میں ہر حقیقت کو پارہا تھا۔حد ِنگاہ تک نور ہی نور پھیل چکاتھا۔میری آنکھوں سے خوشی اور عقیدت کے آنسو رواں ہو گئے مجھے سچ کے راستے پر گزرا ہر پل نایاب اور انمول نظر آیا، میں کم یاب ہو گیا تھا،کم ترین تھا انمول ہو گیا تھا،اپنے ہر سچ کی حقیقت میرے اوپر آشکار ہو چکی تھی۔میں اپنے آپ سے کہنے لگا۔
’’ جو گزر گیا ہے وہ خواب تھا اور جو ملا ہے وہ ثبات ہے، ایک ہی پروردگار ہے جس نے کل کائنات کو پیدا کیا اور اس کو پالنے والی بھی اس ہی کی ذات واحد ہے، انسان کی کیا حقیقت۔اس کا عمل ہی اس کی حقیقت ہے میراہر سچ نایاب تھاجو نہ کبھی رائیگاں ہوا تھا نہ کبھی ہوا اور نہ کبھی ہوسکے گا۔حق اور باطل کی جنگ یوں ہی چلتی رہے گی، حق کے پْرخار راستوں پر چلنے والوں کو ظاہری حیات، اس خباب میں بھلے منزل نہ ملے مگر ثبات کے امر نصاب میںوہ ہی لوگ منزل وہ ہی لوگ مالامال ہیں۔اْس صنعت کار کی ظاہری فتح اور میری شکست،یہ موت محض ایک دھوکہ ہے جس کی کہر بے ثبات زندگی تک محیط ہو سکتی ہے مگر حقیقت میں سکندر وہ ہی ہوتا ہے جو اپنی زبان کو رائیگاں نہیں کرتا اس کا حق ادا کرتا ہے۔ حسینیت پر قائم رہتا ہے، سچ کی راہ میں شہید ہوتا ہے اور ابدی حیات کا حقدار ہوتا ہے‘‘
میں آپ ہی آپ بولے جا رہا تھا۔ میری آنکھوں سے ہر دوری اٹھا لی گئی تھی میں نے جو نظر گھمائی تومجھے اپنی بیوی گھر میں تسبیح پڑتی دکھائی دی ، برابر میں ننھا حمید سو رہا تھا دوسر ی جانب ننھی پری لیٹی نظر آئی حسین ، پیاری سی گڑیا میں اس کو دیکھ کر مسکرا دیا ، ادھر سوتے میں وہ بھی مسکرا دی میں سمجھ گیاکہ قدرت نے بیٹی کو باپ کا چہرہ دکھایا ہے۔میں اس پل ایک شہید کی ابدی حیات کی انتہا اور اس کی قدرت محسوس کر رہا تھا جو عین رب تعالی کی عطا اور اس کے کئے وعدے کے مطابق تھی۔
’’وقت تو گزرنا ہے گزر جائے گا یہ سب خواب ہے ایک روز مٹ جائے گا ،تم بھی اس دنیا سے پلٹ پڑوگے جب وقت آئے گا۔مگر اْس طرح پلٹنا کہ تمہارا سر میری طرح رب کی عطا سے اٹھا ہوا ہو اور دل اطمینان سے لبریز ہو، میری بیٹی ، میرے بیٹے اللہ نگہبان، ماں ، ابو ، روبینہ تم سب اللہ کے سپرد، وہ ہی تھا وہ ہی ہے اور وہ ہی رہے گا تم کو پالنے والا۔‘‘
میں نے یہ کہتے ہو ئے الوداعی نگاہ تما م گھر والوں پر ڈالی اور آنکھیں اس سمت سے ہٹا لیں ، ایک نظر اپنے لاشے پر ڈالی اور مسکرا دیا، میں نے آہستہ سے کہا
’’ میرا ہر سچ میرا آخری سچ تھا ،ایک امر حقیقت ۔۔۔۔اور یہ ہی سچ تھا ، ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ زبان سے ادا ہر سچ ابدی سچ ہے جس میں ہر پل نفع ہی نفع ہے‘‘
رسول ِکائنات ﷺکے محبوب یار کی سواری قریب آچکی تھی میں یہ کہتے ہوئے صدیق اکبر ؓ کی قدم بوسی کے لئے آگے بڑھ گیا۔
٭٭٭