ہما حمید ناز
محفلین
شاہِ شاہاں! تری رضا تسلیم
تو ہے خلّاقِ حوّا و آدم
تو نے لکھی ہیں قسمتیں سب کی
تو ہے بیشک نگارِ شادئ و غم
تجھ سے شکوہ نہیں گزارش ہے
اک نظر دیکھ میری دنیا کو
تیرے آدم کے تین لفظوں نے
دربدر کر دیا ہے حوّا کو
آگ ایسی لگی ہے جنت میں
یہ زمیں آسماں سلگتے ہیں
ایسے ٹوٹے ہیں وعدہء و پیماں
رات دن جسم و جاں سلگتے ہیں
نطقِ دنیا کو مل گیا ترکش
نظریں لوگوں کی بن گئیں نیزے
سرد مہر ی ہے ہر طرف لیکن
آگ میں جل رہی ہوں میں جیسے
جن سے امیدِ دستگیری تھی
ہاتھ رکھے ہوئے ہیں کانوں پر
میں یہ کوہِ گرانِ درد و غم
لے کے کب تک چلوں گی شانوں پر
تیری دنیا میں اب نہیں بنتی
تیری خلقت سے اب نہیں نبھتی
میرے مالک! تو عادل و منصف!
تیری رحمت سے کون منکر ہے
بخش دینا تو میری نو میدی
یہ مری التجائے آخر ہے
جیسے مجھ کو ملا تھا ویسے ہی
نامہء صد فراق دیدوں گی
فیصلہ کرلیا ہے میں نے بھی
زندگی کو طلاق دیدوں گی
تو ہے خلّاقِ حوّا و آدم
تو نے لکھی ہیں قسمتیں سب کی
تو ہے بیشک نگارِ شادئ و غم
تجھ سے شکوہ نہیں گزارش ہے
اک نظر دیکھ میری دنیا کو
تیرے آدم کے تین لفظوں نے
دربدر کر دیا ہے حوّا کو
آگ ایسی لگی ہے جنت میں
یہ زمیں آسماں سلگتے ہیں
ایسے ٹوٹے ہیں وعدہء و پیماں
رات دن جسم و جاں سلگتے ہیں
نطقِ دنیا کو مل گیا ترکش
نظریں لوگوں کی بن گئیں نیزے
سرد مہر ی ہے ہر طرف لیکن
آگ میں جل رہی ہوں میں جیسے
جن سے امیدِ دستگیری تھی
ہاتھ رکھے ہوئے ہیں کانوں پر
میں یہ کوہِ گرانِ درد و غم
لے کے کب تک چلوں گی شانوں پر
تیری دنیا میں اب نہیں بنتی
تیری خلقت سے اب نہیں نبھتی
میرے مالک! تو عادل و منصف!
تیری رحمت سے کون منکر ہے
بخش دینا تو میری نو میدی
یہ مری التجائے آخر ہے
جیسے مجھ کو ملا تھا ویسے ہی
نامہء صد فراق دیدوں گی
فیصلہ کرلیا ہے میں نے بھی
زندگی کو طلاق دیدوں گی