آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نقاب میں ۔ اسماعیل میرٹھی

آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤگے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں

پائمال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالوں فلک پہ زلزلہ میں اضطراب میں

روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں

دل کی گرہ نہ وا ہوئی دردِ شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں

رنج ِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں

جاں میں نے نامہ برکے قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں

ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں

واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں

ساقی ادِھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستی ِ نگہ بھی ملادے شراب میں

داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدِ فضول ہوں میں تمھارے حساب میں

کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخ ِ پیر ِ زمان ِ شباب میں

پیغامبر اشارہِ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلادو جواب میں​
 
اب تک ہم یہ جانتے تھے کہ اسماعیل میرٹھی علیہ الرحمہ صرف ہم بچوں کے لئے لکھ گئے :)۔
لیکن آج سے دیکھ کر لگا کہ بڑوں کے لئے بھی لکھا ہے
خوب چاچو خوب
 

طارق شاہ

محفلین
آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نقاب میں

آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نِقاب میں
شرماؤگے تمھیں، نہ کرو ضِد حِجاب میں

پامال شوخیوں میں کرو تم زمین کو !
ڈالوں فلک پہ زِلزلہ میں اِضطراب میں

روشن ہے آفتاب کی نِسبت چراغ سے
نِسبت وہی ، ہے آپ میں اور آفتاب میں

دل کی گِرہ نہ وا ہُوئی دردِ شبِ وصال !
گُزری تمام بست و کشادِ نقاب میں

رنجِ عتاب زاہدِ مِسکیں کو مفت ہے
یاں اِتّقا میں سعی ، وہاں اِجتناب میں

جاں میں نے نامہ برکے قدم پر نِثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں

ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجے بے قرار
رو رو کے ، ابر کو میں ڈبوتا ہُوں آب میں

واعظ سے ڈر گئے ، کہ نہ شامِل ہُوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں

ساقی ادِھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستیِ نِگہ بھی مِلادے شراب میں

داخل نہ دشمنوں میں ، نہ احباب میں شُمار !
مدِ فضُول ہُوں میں تمھارے حساب میں

کِس کِس کے جَور اُٹھائیں گے، آگے کو دیکھئے
دُشمن ہے چرخِ پِیر زمانِ شباب میں

پیغامبر اشارۂ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا ، لب بھی ہلادو جواب میں

اسماعیل میرٹھی


کیا کہنے!
تشکر! اسماعیل میرٹھی صاحب کی بہت خوب غزل شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں :):)
 
آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نِقاب میں
شرماؤگے تمھیں، نہ کرو ضِد حِجاب میں

پامال شوخیوں میں کرو تم زمین کو !
ڈالوں فلک پہ زِلزلہ میں اِضطراب میں

روشن ہے آفتاب کی نِسبت چراغ سے
نِسبت وہی ، ہے آپ میں اور آفتاب میں

دل کی گِرہ نہ وا ہُوئی دردِ شبِ وصال !
گُزری تمام بست و کشادِ نقاب میں

رنجِ عتاب زاہدِ مِسکیں کو مفت ہے
یاں اِتّقا میں سعی ، وہاں اِجتناب میں

جاں میں نے نامہ برکے قدم پر نِثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں

ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجے بے قرار
رو رو کے ، ابر کو میں ڈبوتا ہُوں آب میں

واعظ سے ڈر گئے ، کہ نہ شامِل ہُوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں

ساقی ادِھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستیِ نِگہ بھی مِلادے شراب میں

داخل نہ دشمنوں میں ، نہ احباب میں شُمار !
مدِ فضُول ہُوں میں تمھارے حساب میں

کِس کِس کے جَور اُٹھائیں گے، آگے کو دیکھئے
دُشمن ہے چرخِ پِیر زمانِ شباب میں

پیغامبر اشارۂ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا ، لب بھی ہلادو جواب میں

اسماعیل میرٹھی


کیا کہنے!
تشکر! اسماعیل میرٹھی صاحب کی بہت خوب غزل شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں :):)
آپ کی محبتوں کے زیر بار ہوں
شاد و آباد رہیں :)
 
Top