سید شہزاد ناصر
محفلین
آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤگے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں
پائمال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالوں فلک پہ زلزلہ میں اضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گرہ نہ وا ہوئی دردِ شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں
رنج ِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں
جاں میں نے نامہ برکے قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں
ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں
واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں
ساقی ادِھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستی ِ نگہ بھی ملادے شراب میں
داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدِ فضول ہوں میں تمھارے حساب میں
کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخ ِ پیر ِ زمان ِ شباب میں
پیغامبر اشارہِ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلادو جواب میں
شرماؤگے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں
پائمال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالوں فلک پہ زلزلہ میں اضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گرہ نہ وا ہوئی دردِ شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں
رنج ِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں
جاں میں نے نامہ برکے قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں
ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں
واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں
ساقی ادِھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستی ِ نگہ بھی ملادے شراب میں
داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدِ فضول ہوں میں تمھارے حساب میں
کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخ ِ پیر ِ زمان ِ شباب میں
پیغامبر اشارہِ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلادو جواب میں