فرخ منظور
لائبریرین
قدیم زمانے میں ہاتھ اٹھا کر یا مصافحہ کر کے ملنے سے یہ جتلانا مقصود ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ خالی ہیں اور میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے جس سے کسی قسم کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ اُس دور سے یادگار ہے جب ہر وقت ہر شخص سے جان کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ قدیم رومہ میں پورا بازو اٹھا کہ ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے۔ یہی طریقہ بعد میں ناتسیوں نے اختیار کیا۔ عرب اور ایرانی دوست آمنے سامنے آتے تو ایک دوسرے سے گلے ملتے اور گالوں پر بوسہ دیتے تھے۔ ہندو دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہتے ہیں یا بزرگوں کے پاؤں چھو کر "پیریں پوناں" کہتے ہیں۔ یہودیوں کا سلام ہے شولوم علیخم جو عربی میں سلام علیکم بن گیا۔ سنی مسلمان السّلامُ علیکم کہتے ہیں جب کہ شیعہ سلام علیکم کہتے ہیں۔ مرید پیر صاحب کے پاس آئے تو اس کے ہاتھ چوم کر سر آنکھوں سے لگاتا ہے اور سر سجدے میں رکھ دیتا ہے اسے سجدۂ تعظیمی کہتے ہیں۔
چین اور مصرِ قدیم میں رواج تھا کہ جب کوئی بزرگ راستے میں ملتا تو نوجوان ادب سے ایک طرف ہٹھ جاتے تھے۔ کوئی بزرگ کسی محفل میں آتا تو نوجوان سرو قد کھڑے ہو کر تعظیم کرتے تھے اور اسے مناسب جگہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔ بادشاہوں نے عجمی طور طریقے اختیار کئے تو سلاطین کے سامنے سجدہ کرنے کا رواج ہوا۔ کوئی شخص شاہانِ ایران کے حضور باریاب ہوتا تو وہ اپنے منہ پر کپڑا لپیٹ لیتا تھا مبادا اس کی سانس سے بادشاہ سلامت آلودہ ہو جائیں۔ بادشاہ کے تخت کے سامنے جالی کا پردہ پڑا رہتا تھا۔ بسا اوقات جالی چوم کر سجدے میں گڑ پڑتے تھے۔ بادشاہ گھوڑے پر سوار ہوتا تو اس کی رکاب چومتے تھے۔ جلال الدین اکبر نے زمین بوسی کو رواج دیا یعنی اس کے سامنے جا کر لوگ زمین چومتے تھے۔ بادشاہ کے حضور باریاب ہونے والا سر جھکا کر زمین کے قریب لے آتا اور نقیب آواز پر تین دفعہ زمین چومتا تھا۔
(جاری ہے)
چین اور مصرِ قدیم میں رواج تھا کہ جب کوئی بزرگ راستے میں ملتا تو نوجوان ادب سے ایک طرف ہٹھ جاتے تھے۔ کوئی بزرگ کسی محفل میں آتا تو نوجوان سرو قد کھڑے ہو کر تعظیم کرتے تھے اور اسے مناسب جگہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔ بادشاہوں نے عجمی طور طریقے اختیار کئے تو سلاطین کے سامنے سجدہ کرنے کا رواج ہوا۔ کوئی شخص شاہانِ ایران کے حضور باریاب ہوتا تو وہ اپنے منہ پر کپڑا لپیٹ لیتا تھا مبادا اس کی سانس سے بادشاہ سلامت آلودہ ہو جائیں۔ بادشاہ کے تخت کے سامنے جالی کا پردہ پڑا رہتا تھا۔ بسا اوقات جالی چوم کر سجدے میں گڑ پڑتے تھے۔ بادشاہ گھوڑے پر سوار ہوتا تو اس کی رکاب چومتے تھے۔ جلال الدین اکبر نے زمین بوسی کو رواج دیا یعنی اس کے سامنے جا کر لوگ زمین چومتے تھے۔ بادشاہ کے حضور باریاب ہونے والا سر جھکا کر زمین کے قریب لے آتا اور نقیب آواز پر تین دفعہ زمین چومتا تھا۔
(جاری ہے)