آدمی کو بس ذرا ہشیار ہونا چاہیے


غزل
محمد خلیل الرحمٰن
(جناب ظفر اقبال سے معذرت کے ساتھ)

سر پھٹوّل گھر کے اندر روز ہوتی ہے مگر
’’یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے‘‘

روز برتن دھوتے دھوتے ایسی عادت پڑگئی
اب تو ہم کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے

اب وہی کرنے لگے ہیں اک نئی شادی کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس اک بار ہونا چاہیے

’’جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ‘‘
آدمی کو بس ذرا ہشیار ہونا چاہیے

پھر سے بنیادیں نئی ہم کھود ڈالیں گے خلیلؔ
شیخ چلّی کا محل مسمار ہونا چاہیے

ٌٌٌ ٌٌٌ ٌٌٌ ٌٌٌ​
 

Arshad khan

محفلین
ﺍﺏ ﻭﮨﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮎ ﻧﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ
ﺟﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ
 

فرحان عباس

محفلین
ﺍﺏ ﻭﮨﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮎ ﻧﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ
ﺟﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ

پہلے مصرع میں شادی کی جگہ نکاح فٹ ہوجائے تو شعر گرائمر کے لحاظ سے ٹھیک ہوجائے گا.
کیونکہ شادی کے ساتھ آپ "اک بار ہونا چاہئے " غلط ہے. جبکہ نکاح کے ساتھ "اک بار ہونا چاہئے" درست ہے.

مزکر مؤنث کا مسئلہ ہے.
آپ "شادی" کی جگہ "عقدے" بھی لکھ سکتے ہیں.
 

الف عین

لائبریرین
ﺍﺏ ﻭﮨﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮎ ﻧﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ
ﺟﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ

پہلے مصرع میں شادی کی جگہ نکاح فٹ ہوجائے تو شعر گرائمر کے لحاظ سے ٹھیک ہوجائے گا.
کیونکہ شادی کے ساتھ آپ "اک بار ہونا چاہئے " غلط ہے. جبکہ نکاح کے ساتھ "اک بار ہونا چاہئے" درست ہے.

مزکر مؤنث کا مسئلہ ہے.
آپ "شادی" کی جگہ "عقدے" بھی لکھ سکتے ہیں.
عقدہ اور عقد ہم معنی نہیں ہیں فرحان!!
’ہونا چاہئے‘ ردیف کی مجبوری ہے جس کی توجیہہ یوں کی جا سکتی ہے کہ شادی کو اک بار ہونا چاہئے، یعنی یہ وقوعہ۔
 
Top