فرخ منظور
لائبریرین
آدمی
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا
اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا
نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا
زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے
اپنا سایہ بھی گریزاں، ترا داماں بھی خفا
رات کا روپ بھی بے زار، چراغاں بھی خفا
صبحِ یاراں بھی خفا، شامِ غریباں بھی خفا
دُزدِ ایماں بھی خفا، اور نگہباں بھی خفا
خود کو دیکھا ہے تو اس شکل سے خوف آتا ہے
ایک مبہم سی صدا گنبدِ افلاک میں ہے
تارِ بے مایہ کسی دامنِ صد چاک میں ہے
ایک چھوٹی سی کرن مہر کے ادراک میں ہے
جاگ، اے روح کی عظمت کہ مری خاک میں ہے
(مصطفیٰ زیدی)
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا
اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا
نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا
زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے
اپنا سایہ بھی گریزاں، ترا داماں بھی خفا
رات کا روپ بھی بے زار، چراغاں بھی خفا
صبحِ یاراں بھی خفا، شامِ غریباں بھی خفا
دُزدِ ایماں بھی خفا، اور نگہباں بھی خفا
خود کو دیکھا ہے تو اس شکل سے خوف آتا ہے
ایک مبہم سی صدا گنبدِ افلاک میں ہے
تارِ بے مایہ کسی دامنِ صد چاک میں ہے
ایک چھوٹی سی کرن مہر کے ادراک میں ہے
جاگ، اے روح کی عظمت کہ مری خاک میں ہے
(مصطفیٰ زیدی)