حسان خان
لائبریرین
۱۹۵۳ء میں بزور دوسری جگہ منتقل کیے جانے والے دئمان (deman) گاؤں کے رہائشی بڑے نقصان کے بعد اسی کی دہائی کے آخر میں اپنے گاؤں میں لوٹ تو گئے تھے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کیا پریشانیاں اُن کی راہ تک رہی ہیں۔ عباس آتیلائے کی مندرجہ ذیل تصویری رپورٹ ان لوگوں کی زندگی کے بارے میں ہے۔
متن اور تصاویر کا منبع
جمہوریۂ آذربائجان اور ایران کی سرحد پر واقع اس گاؤں کی طرف کا راستہ سرحد کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔
۱۹۴۸ء میں سوویت آذربائجان کے اس خطے میں سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایران کی حربی بریگیڈ سرحد پار کر کے پہلے بے طرف علاقے، اور اُس کے بعد اس علاقے کے بیس دیہاتوں تک آ گئی تھی۔ چند دنوں تک جاری رہنے کے بعد جھڑپیں ختم ہو گئیں اور حالات پہلے کی طرح عادی سطح پر آ گئے۔ لیکن مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے حادثے یعنی جبراً کوچ کی بنیاد رکھ دی گئی۔
سوویت حکومت نے 1۹۵۳ء میں سرحدی تحفظ کے نام پر اس ضلعے کے بیس دیہاتوں کے لوگوں کو اران خطے میں منتقل کر دیا۔ دئمان گاؤں کے لوگ عموماً شیروان شہر میں منتقل کیے گئے۔ موسمی تبدیلی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے نصف سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ لیکن واپسی کا راستہ سوویت دور کے خاتمے تک ناممکن تھا۔
سوویت دور کے خاتمے کے دوران دئمانی لوگوں کو اپنے اجداد کی زمین پر لوٹنے کے لیے ہری جھنڈی مل گئی۔ اور بعد میں پرانے ساکنوں کا ایک گروہ گاؤں میں واپس لوٹ گیا۔
لیکن واپسی کی خوشی زیادہ عرصے تک نہیں رہی۔ واپس آنے والے گاؤں کے رہائشیوں نے دیکھا کہ بے طرف سرحدی حصہ مزید وسیع ہو گیا ہے اور خاردار تار ان کے رہائشی علاقے تک پہنچ گئے ہیں۔ مویشی داری کے ذریعے اپنی زندگی بسر کرنے والے دیہاتیوں کے لیے یہ بھاری ضرب تھی، کیونکہ اُن کے جانوروں کی بنیادی چراگاہ بے طرف حصے میں شامل ہو گئی تھی۔
بعد کے سالوں میں رہائشیوں نے اپنے پرانے ڈھا دیے گئے گھروں کو دوبارہ تعمیر کر کے ان ناگزیر مشکلات کو حل کرنا شروع کر دیا۔ لیکن وہ کسی بھی طرح چراگاہ کی مشکل کو جڑ سے ختم نہ کر سکے۔
چراگاہ کے مسئلہ کا اب یہ حل ڈھونڈا گیا ہے: اپنے مویشیوں کو چرانے والے گاؤں کے چوبانوں کو مہر والی سند دی گئی ہے۔ ہر روز چوبان بے طرف حصے میں جاتے وقت سرحدی محافظوں کو اپنے جانور گنوا کر اور سند دکھا کر اجازت حاصل کرتے ہیں، اور شام کے وقت یہی عمل کر کے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔
اس بارے میں ایک چوبان کہتا ہے: وائے ہو اُس دن پر جس دن سرحد پر کوئی غلط فہمی پیدا ہو اور ہم اُس طرف اپنے جانور نہ لے جا سکیں۔ اس دن ہمارے جانور بھی بھوکے رہ جاتے ہیں۔
پچھلے چار روز سے گاؤں کے مویشیوں کو بے طرف حصے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ہر روز صبح چوبان اپنے حیوانوں کو بے طرف حصے کے دروازے تک لاتے تھے اور مایوس لوٹ جاتے تھے۔
چوبان سوکھی گھاس جلا کر اس پر چائے ابال رہا ہے۔
دئمان گاؤں اور اُس کی بے چراگاہ زمین
جبراً منتقلی سے پہلے اور واپسی کے بعد وفات پانے والے لوگوں کا قبرستان
دئمان گاؤں کا ایک کمرے والا ابتدائی مکتب
گاؤں کا معلم مکتب کا دروازہ کھولتے ہوئے
ایک کمرے والا ابتدائی مکتب
جاری ہے۔۔۔
متن اور تصاویر کا منبع
جمہوریۂ آذربائجان اور ایران کی سرحد پر واقع اس گاؤں کی طرف کا راستہ سرحد کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔
۱۹۴۸ء میں سوویت آذربائجان کے اس خطے میں سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایران کی حربی بریگیڈ سرحد پار کر کے پہلے بے طرف علاقے، اور اُس کے بعد اس علاقے کے بیس دیہاتوں تک آ گئی تھی۔ چند دنوں تک جاری رہنے کے بعد جھڑپیں ختم ہو گئیں اور حالات پہلے کی طرح عادی سطح پر آ گئے۔ لیکن مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے حادثے یعنی جبراً کوچ کی بنیاد رکھ دی گئی۔
سوویت حکومت نے 1۹۵۳ء میں سرحدی تحفظ کے نام پر اس ضلعے کے بیس دیہاتوں کے لوگوں کو اران خطے میں منتقل کر دیا۔ دئمان گاؤں کے لوگ عموماً شیروان شہر میں منتقل کیے گئے۔ موسمی تبدیلی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے نصف سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ لیکن واپسی کا راستہ سوویت دور کے خاتمے تک ناممکن تھا۔
سوویت دور کے خاتمے کے دوران دئمانی لوگوں کو اپنے اجداد کی زمین پر لوٹنے کے لیے ہری جھنڈی مل گئی۔ اور بعد میں پرانے ساکنوں کا ایک گروہ گاؤں میں واپس لوٹ گیا۔
لیکن واپسی کی خوشی زیادہ عرصے تک نہیں رہی۔ واپس آنے والے گاؤں کے رہائشیوں نے دیکھا کہ بے طرف سرحدی حصہ مزید وسیع ہو گیا ہے اور خاردار تار ان کے رہائشی علاقے تک پہنچ گئے ہیں۔ مویشی داری کے ذریعے اپنی زندگی بسر کرنے والے دیہاتیوں کے لیے یہ بھاری ضرب تھی، کیونکہ اُن کے جانوروں کی بنیادی چراگاہ بے طرف حصے میں شامل ہو گئی تھی۔
بعد کے سالوں میں رہائشیوں نے اپنے پرانے ڈھا دیے گئے گھروں کو دوبارہ تعمیر کر کے ان ناگزیر مشکلات کو حل کرنا شروع کر دیا۔ لیکن وہ کسی بھی طرح چراگاہ کی مشکل کو جڑ سے ختم نہ کر سکے۔
چراگاہ کے مسئلہ کا اب یہ حل ڈھونڈا گیا ہے: اپنے مویشیوں کو چرانے والے گاؤں کے چوبانوں کو مہر والی سند دی گئی ہے۔ ہر روز چوبان بے طرف حصے میں جاتے وقت سرحدی محافظوں کو اپنے جانور گنوا کر اور سند دکھا کر اجازت حاصل کرتے ہیں، اور شام کے وقت یہی عمل کر کے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔
اس بارے میں ایک چوبان کہتا ہے: وائے ہو اُس دن پر جس دن سرحد پر کوئی غلط فہمی پیدا ہو اور ہم اُس طرف اپنے جانور نہ لے جا سکیں۔ اس دن ہمارے جانور بھی بھوکے رہ جاتے ہیں۔
پچھلے چار روز سے گاؤں کے مویشیوں کو بے طرف حصے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ہر روز صبح چوبان اپنے حیوانوں کو بے طرف حصے کے دروازے تک لاتے تھے اور مایوس لوٹ جاتے تھے۔
چوبان سوکھی گھاس جلا کر اس پر چائے ابال رہا ہے۔
دئمان گاؤں اور اُس کی بے چراگاہ زمین
جبراً منتقلی سے پہلے اور واپسی کے بعد وفات پانے والے لوگوں کا قبرستان
دئمان گاؤں کا ایک کمرے والا ابتدائی مکتب
گاؤں کا معلم مکتب کا دروازہ کھولتے ہوئے
ایک کمرے والا ابتدائی مکتب
جاری ہے۔۔۔
آخری تدوین: