منیب احمد فاتح
محفلین
مجھے ذاتی طور پر لفظ میرؔ بطورِ تخلص نہایت پسند ہے۔ مگر حضرت میر تقی میرؔ کے احترام میں اس کو اپناتا نہیں۔ خیر اپنی واحد غزل کہ جس میں میں نے اس تخلص کو برتا تھا نذر محفل کرتا ہوں تا کہ یادگار رہے۔ آپ حضرات غزل پر بھی رائے دیجئے گا:
آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے
وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے
پھول کے ہم دست کچھ آتے ہیں خار
آزمائش وسعتِ داماں کی ہے
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک
کشمکش پھر دوزخ و رضواں کی ہے
ہے خدا کی حضرتِ انساں کو فکر
اور اُس کو حضرتِ انساں کی ہے
تیرے ہی پاؤں نے مسلا دہنِ گل
سب عنایت گلشنِ امکاں کی ہے
حکم ہے اگلے جہاں رکنے کا میرؔ
پھر طلب تجھ سوختہ ساماں کی ہے