آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے - منیب احمد فاتحؔ

مجھے ذاتی طور پر لفظ میرؔ بطورِ تخلص نہایت پسند ہے۔ مگر حضرت میر تقی میرؔ کے احترام میں اس کو اپناتا نہیں۔ خیر اپنی واحد غزل کہ جس میں میں نے اس تخلص کو برتا تھا نذر محفل کرتا ہوں تا کہ یادگار رہے۔ آپ حضرات غزل پر بھی رائے دیجئے گا:​
آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے​
وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے​
پھول کے ہم دست کچھ آتے ہیں خار​
آزمائش وسعتِ داماں کی ہے​
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک​
کشمکش پھر دوزخ و رضواں کی ہے​
ہے خدا کی حضرتِ انساں کو فکر​
اور اُس کو حضرتِ انساں کی ہے​
تیرے ہی پاؤں نے مسلا دہنِ گل​
سب عنایت گلشنِ امکاں کی ہے​
حکم ہے اگلے جہاں رکنے کا میرؔ​
پھر طلب تجھ سوختہ ساماں کی ہے​
 
مجھے ذاتی طور پر لفظ میرؔ بطورِ تخلص نہایت پسند ہے۔ مگر حضرت میر تقی میرؔ کے احترام میں اس کو اپناتا نہیں۔ خیر اپنی واحد غزل کہ جس میں میں نے اس تخلص کو برتا تھا نذر محفل کرتا ہوں تا کہ یادگار رہے۔ آپ حضرات غزل پر بھی رائے دیجئے گا:​
آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے​
وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے​
پھول کے ہم دست کچھ آتے ہیں خار​
آزمائش وسعتِ داماں کی ہے​
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک​
کشمکش پھر دوزخ و رضواں کی ہے​
ہے خدا کی حضرتِ انساں کو فکر​
اور اُس کو حضرتِ انساں کی ہے​
تیرے ہی پاؤں نے مسلا دہنِ گل
سب عنایت گلشنِ امکاں کی ہے​
حکم ہے اگلے جہاں رکنے کا میرؔ​
پھر طلب تجھ سوختہ ساماں کی ہے​


واہ۔ خوب است۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ :)
دہن آپ نے دہن کیوں کیا ہے؟

کیونکہ اس کے صحیح تلفظ میں ہ متحرک ہے، مفتوح۔ یہاں منیب نے ذہن کی طرح ساکن برتا ہے۔
اس کے علاوہ مجھے
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک
میں ’ایک‘ کی نشست بھی پسند نہیں آئی، جو دوسرے مصرع کی کشمکش سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں محض ’تم‘ کیا جا سکتا ہے، ’ایک‘ تو understood ہے
 
اس کے علاوہ مجھے
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک
میں ’ایک‘ کی نشست بھی پسند نہیں آئی، جو دوسرے مصرع کی کشمکش سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں محض ’تم‘ کیا جا سکتا ہے، ’ایک‘ تو understood ہے

صحیح! یوں کیسا ہے:
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے پھر​
کشمکش اک دوزخ و رضواں کی ہے​
 
Top