طارق شاہ
محفلین
غزلِ
آرزو لکھنوی
کِس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جُھوم کے آئی گھٹا ، ٹُوٹ کے برسا پانی
رُولئے پُھوٹ کے ، سینے میں جلن اب کیوں ہے
آگ پگھلا کے نِکالا ہے یہ جلتا پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی اُمنگ
جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی
ٹکٹکی باندھے وہ پھرتے ہیں میں اِس فکر میں ہوں
کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ گہرا پانی
بات کرنے میں وہ اُن آنکھوں سے امرت ٹپکا
آرزو دیکھتے ہی، منہ میں بھر آیا پانی
آرزو لکھنوی