اسلام آ باد: افواج پاکستان کے نظم وضبط کو درپیش خطرے کے باعث میاں نوازشریف کی انتخابات میں کامیابی کے نوٹیفکیشن کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی طلب کرلیا گیا۔
عدالت کی توجہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کے اس بیان پر مبذول کرائی گئی کہ نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری سینیارٹی کی بنیادپر کی جائے گی۔ شاہداورکزئی نے آئینی پٹیشن میں موقف اختیارکیا ہے کہ12اکتوبر1999ء میں آرمی چیف کی برطرفی کی بچگانہ کوشش نے جمہوریہ کو فوجی حکمرانی کی طرف دھکیل دیا، اس سے ایک برس قبل سابق وزیراعظم نے چیف آف آرمی اسٹاف سے استعفیٰ طلب کیا حالانکہ آئین میں دوسرے منصب داروں کے برعکس چیف آف آرمی اسٹاف کے استعفے کی سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں۔
درخواست گزار نے کہاکہ آئین اور پاکستان آرمی ایکٹ میں سینیارٹی ترقی کا پیمانہ نہیں اور اس بنیاد پر آرمی چیف کی تقرری فوج میں پیشہ ورانہ تربیت اور کمیشنڈافسران کے مابین مسابقت کا پورا نظام مفلوج کردے گی، اس لیے نوازشریف کی انتخابی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کے احکامات دیے جائیں۔سابق وزیراعظم بدستور آئین اور عسکری قوانین سے نابلد ہیں اور ایک مرتبہ آرمی انجینئرنگ کور کے ایک جنرل کو چیف آف آرمی اسٹاف نامزد کرچکے ہیں جسے جی ایچ کیو میں متعین جنرل اسٹاف نے یکسر مسترد کردیا حالانکہ آرمی چیف بیرون ملک دورے پر تھے۔
وہ آج بھی آئین وعسکری قوانین سے نابلد ہیں، سپریم کورٹ میں پٹیشنر کا موقف
عدالت کو بتایا گیاکہ پاکستان سے برسرپیکار ایک پرائیویٹ فوج نے حال ہی میں سابق وزیراعظم کو سیاسی مذاکرات میں وفاق پاکستان اور افواج پاکستان کا ضامن تجویز کیاتھا اور اس پرائیویٹ فوج نے لوگوں کو انتخابی عمل سے دور رہنے کا حکم دیتے ہوئے بعض امیدواروں کو نشانہ بنایا جبکہ مسلم لیگ(ن) اس کے عتاب سے محفوظ رہی لہٰذا نوازشریف کو آئین اور قانون کے تحت فوجی افسران کی تقرریوں اور ترقیوں سے باز رکھاجائے اور الیکشن کمیشن کو پرائیویٹ فوج کے ساتھ ان کے تعلقات کی انکوائری کی ہدایت کی جائے تاکہ اس کی انتخابی اہلیت کا فیصلہ ہوسکے۔ پٹیشن میں سوال اٹھایا گیاکہ کیا وزیراعظم تنہا چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کے لیے آئینی پیمانے کا تعین کرسکتاہے؟