آرٹسٹ، کینوس، شاہکار، تشریح، مفہوم اور ہم

کینوس پہ شاہکار ایسا بھی پیچیدہ نہیں کہ ہم سمجھ نہ پائیں، لیکن کیا کریں، آرٹسٹ کوئی اور ہے جو تشریح اس نے دینی ہے وہی ہم نے سمجھنی ہے، اور ہے بھی ایسا ہی کہ جو تشریح وہ دیتا ہے وہی ہم سمجھتے ہیں۔ آزاد تشریح تو شاید جب یہ وقت ، یہ آرٹسٹ اور یہ شاہکار تاریخ کا حصہ بنیں تو ہی شاید ممکن ہو۔
کینوس بھی عجب رنگ لیے ہے، آرٹسٹ جو تشریح سمجھانا چاہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں۔ ذہنی طور پر تو ہم مفلوج ہو چکے ہیں۔ اپنی عقل اپنی پسند سے کچھ سمجھنا نہیں چاہتے کچھ ماننا نہیں چاہتے۔ آرٹسٹ کی تشریحات بھی عجب ہیں،
صدیوں چلا آیا تھا کہ سبز رنگ قدرت کی کی صناعی اور قدرت کا پیغام لیے ہوئے ہے، سرخ رنگ جذبات کی شدت کا اظہار کرتا ہے، سفید رنگ امن اور آشتی کا درس دیتا ہے، آسمانی رنگ روح کی گہرائیوں کو کھنگالتا ہے، پیلے یا زرد رنگ سے بیزاری جھلکتی ہے سیاہ رنگ انتہائی گہرے راز اور طاقتیں لیے ہوئے ہے لیکن اب آرٹسٹ بہت طاقت میں ہے اس کا تخیل اور اس کی طاقت اس قدر ہے کہ ہمارے ذہن بھی اس کے تخیل کی زنجیروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
لیکن آرٹسٹ اب ہمیں بتا رہا ہے کہ سبز رنگ قہرو غضب، تعصب اور ظلم و جبر لیے ہوئے ہے، سرخ رنگ امن اور محبت کا پرچار کرنے کے لیے، سیاہ روحانیت اور وجدان کی گہرائیاں سموئے بیٹھا ہے، نیلا رنگ برائیوں اور فساد کا علم بردار ہے، غرض جو تشریح آرٹسٹ کر رہا ہے وہی آج کی حقیقت ہے اور ہم پہ ماننا فرض۔ اور مانیں بھی کیسے نا، کیوں کہ ہم نے خود دیکھےہیں آرٹسٹ کے ڈبوں میں پڑے رنگ اور رنگوں کی حالت جیسا آرٹسٹ نے کہا ویسا ہی نظر آیا۔آرٹسٹ سچا ہے اور رنگوں کی آفاقی سچائی جھوٹی۔
جب اسلام کا علَم ان لوگوں نے تھام لیا جن کی تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی زندگی کو ابھی کچھ ہی سال بِیتے تھے، پہاڑوں سے اترے وہ وحشی جن کے قدموں نے آدھی دنیا فتح کی اور تلواروں نے بہت سے منہ زوروں کو خاک چٹائی، تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی ان عظیم فتوحات کے پیچھے بھی ان کے مسلمان وزیر ہی تھے، جو بھانپ چکے تھے کہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھا یہ منہ زور طوفان جو کہ کسی بھی تہذیبی اور نظریاتی محور سے جڑا ہوا نہیں تھا ایک دن کسی مذہب کے افکار پہ گھٹنے ٹیکے گا، اپنا خالی پن محسوس کرے گا اور یہ کمی پوری کرنے کو ایک دن تو آخر کسی نا کسی نظریہ کو قبول کرے گا ہی۔ اور انہوں نے تن من دھن کی بازی لگائی اپنوں کے گلے کٹتے ہو دیکھتے رہے صرف اور صرف آنے والی صدیوں کی فتح اور حکمرانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ دہائیوں کی قربانی دیتے رہے صدیوں کی حکمرانی کی خاطر۔
لیکن صرف مسلمان ہی نہیں ہندو، عیسائی، بدھ مت اور مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جواس وقت صرف سازشوں میں پنپ رہا تھا سبھی پوری طرح اس صورتِ حال کا ادراک کیے ہوئے تھے، سب اسی کوشش میں تھے کہ یہ دودھ دیتی گائے ان کے کھیت میں آ جائے۔
لیکن ان کچھ دہائیوں کا نقصان اسلام کا شدید ترین نقصان ثابت ہوا، اسلام کو شدید ترین نقصان پہنچا۔ تاریخ کے صفحوں نے ہی مجھ ادنیٰ طالب علم کے کانوں میں سرگوشی کی کہ منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد کے اصل محرکات میں کس کی سازشیں شامل تھیں۔ علم کے خزانوں سے سینے منور کرتی کتابوں نے دریا سیاہ کر کے گواہی دی کہ غیروں سے زیادہ اس میں اپنے سازشی شامل تھے جن کو بغداد میں اسلام کے اس فرقے کا عروج قبول نہیں تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے، اور پھر جب فتح کے بعد منگولوں نے اپنے ہی دو مسلمان وزیر بھائیوں میں سے ایک کو بغداد میں اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑا تو وہ سازشی گروہ آخر اس ہونہار وزیر کو قتل کروا کر ٹھہرا منگولوں کے ہاتھوں اور وہ بھی ایسا کہ بغداد کی گلیوں میں اس سیاہ رو کو رگیدا گیا۔
پھر وقت نے ثابت کر دکھایا کہ منگول کچھ ہی نسلوں بعد فاتح ہو کر بھی مفتوح ہو گئے حق کی سچائی سے۔ منگول ، منگول نہ رہ سکے اور مغول ہوتے ہوئے مغل ہو گئے، ان کے ساتھ اسلام کی ترقی اور فلاح کے بجائے وہ لوگ زیادہ جڑے رہے جنہیں اسلام کے نام کا اقتدار چاہیے تھا اور جو اسلام کا اقتدار دیکھنا چاہتے تھے، فنی و علمی ترقی نہیں۔ بغداد کی درسگاہوں کی تباہی اسلام کی ترقی کا فُل اسٹاپ ثابت ہوا۔

عصرِ حاضرکے کینوس پہ رنگ توپچھلی کچھ صدیوں میں ہی سجنا شروع ہو گئے تھے، لیکن منظر گزشتہ صدی میں واضع ہوئے اور اب شاہکار کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
سب واضع ہے کہ عالمی منظر نامے سے کس طرح خلافتِ عثمانیہ کا اختتام کیا گیا اور اسرائیل کا ناجائز وجود مسلمانوں پر تھوپ دیا گیا۔ اس کے بعد بھی ان کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ اسلام سے ایک ہی خطرہ ہے اور وہ ہے ان کے اتحاد کا۔ دوبارہ سے ایک خلیفہ کے ماتحت ہونے کا مطلب یہی تھا کہ اس ترقی کے دور میں اسلام کا عروج باقیوں کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔ لہٰذا سب کو ان کی انفرادی طاقت کا مزہ چکھایا گیا، اقتدار کے نشے کی ڈوز دی گئی اور انفرادی حثیت میں رہنے کے مزے سمجھائے گئے۔ نتیجتاً وہ سب تنظیمیں تو بنتی ٹوٹتی رہیں جن سے سامراج کے مقاصد بنتے رہے اور پورے ہوتے رہے لیکن خلافتِ عثمانیہ کی آواز دوبارہ نہ اٹھنے دی گئی۔ اسرائیل کے آس پڑوس میں ایک فرقے کے عوام کی جس طرح سے بیخ کنی کی گئی اور کی جا رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کیوں کہ اسرائیل امریکہ کو خطرہ صرف اور صرف خلافتِ عثمانیہ کی آواز بلند ہونے سے ہے۔

آرٹسٹ نے اب کینوس پہ خاکہ مکمل کر لیا تھا اور اب اس کے خال و خد واضع ہونے شروع ہو گئے تھے۔
نام نہاد اور کرائے کے مسلمانوں سے ایسے ایسے کارنامے انجام دلوائے گئے کہ عوام کو' کانا' راجہ اب بینا نظر آنے لگا ہے اور آنکھوں والا نابینا کیوں کہ اندھوں کی پرچھائیاں آنکھوں والوں کو چھپا چکی ہیں۔
عثمانی خلافت ختم کرنے کے بعد جتنے منظم طریقے سے خلافتِ عثمانیہ کے لیے اٹھنے والی ہر آواز دبانے کی کوشش کی گئی شاید ہی کبھی کسی تنظیم کے خلاف اتنا منظم نیٹ ورک بنا ہو۔
خلافت عثمانیہ اور مسلمانوں کی یک جہتی اور اتحاد کے لیے برسرِ پیکار تنظیم حزب التحریر (کہا جاتا ہے کہ اخوان المسلمین اور حزب التحریر دونوں ایک ہی تنظیم کے دو نام ہیں) وہ واحد جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی ہر حکومت میں ہر سطح پہ مکمل پابندی کا شکار رہی صرف انہی کو کھلواڑ کی اجازت ملی جن سے امریکہ، اسرائیل، ایران یا سعودی عرب وغیرہ کے انفرادی مقاصد پورے ہو سکتے تھے۔

اسی طرح سعودی عرب بھی اپنا پورا زور اسی پر لگانا چاہتا ہے کہ یہ آواز دوبارہ نہ اٹھے کیوں کہ پہلے بھی ترکی جیسے ملک کے ہاتھ میں تھی حکمرانی اور اب عربوں کو یہ کیسے گوارہ تھا ، پہلے تو برداشت اس لیے ہو گیا تھا کہ خود کی کوئی علمی اور دنیاوی حثیت سوائے مدینہ اور مکہ کے والیوں کے اور کچھ نہ تھی۔ لیکن اب تو پیسا ہے نشہ ہے اقتدار ہے اور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کا مزہ ہے۔
ایران اور اس کے ہمنوا بھی کسی طرح نہیں چاہتے کہ ان کا مخالف فقہ پورے اسلام کا پھر سے علَم بردار کہلائے اس لیے ان کی بھی ساری کوششیں اسی سمت رہیں کہ ایسے ہر قدم کی حوصلہ شکنی کی جائے جو اسلام کے اتحاد کی یا خلافت کے قیام کی بات کرے۔
حزب التحریر کے پاکستانی نمائندے میری آخری معلومات تک پابندِ سلاسل تھے لیکن نہ تو ایسا کچھ منظرِ عام پہ ہے اور نہ ہی ڈسکس ہوتا ہے کیوں کہ اس سے امت پر براہِ راست فرق پڑنا ہے، حزب التحریر کی ویب سائٹس اور وہ ویب سائٹس جن میں ان کے یہاں کے رہنما جو کہ نوید بٹ ہیں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے مکمل طور پر بلاکڈ رہیں۔
کیا اُن میں سے کسی تنظیم کو ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جنہوں نے پاکستان کے عوام پر زمین تنگ کی ہوئی ہے اور جو اس سے قبل امریکہ، سعودی عرب ، ایران یا کسی بھی اور ملک کے مفاد میں کام کرتے رہے اور بعد میں طاقت پکڑ لی یا طاقت دے دی گئی کھلواڑ کرنے کی۔
میرے سامنے دو تکونیں ہیں ایک کو میں اسلام کی اندرونی تکون کہوں گا اور اسی کی مناسبت سے دوسری تکون پہ بات کروں گا۔ اسلام کی اندرونی تکون میں مجھے ایک کونے پہ ترقی پسند اسلام کے علم بردار نظر آتے ہیں جو کہ ترکی، مصر ، وغیرہ میں بھی موجود ہیں، دوسرے کونے پہ براجمان اقتدار کے فرعون ہیں یعنی سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک اور تیسرے کونے پہ ایران اور اس کے زیرِ اثر ممالک ہیں ۔
عرب ممالک اپنے اقتدار کی وجہ سے اور مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار ہونے کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ پھر سے خلافت قائم ہوتیسرا کونا اس تکون کا فقہی رنجش کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ خلافت دوبارہ قائم ہو اور امت میں اتحاد ہو۔ اور پہلا کونا جسے خلافت بھی چاہیے مذہب کا بول بالا بھی چاہیے اور ٹھیکے داروں سے نجات بھی چاہیے وہ ترقی چاہتا ہے اسلام چاہتا ہے اور عزت اور اتحاد چاہتا ہے وہ ہر طرف سے زبوں حالی کا شکار ہے اور دشمنوں میں گھِرا ہوا ہے۔
اب دوسری تکون جو میں سمجھتا ہوں وہ خلافت کے مخالفین کی ہے، خلافت کے خلاف اتحاد کی تکون بھی بہت بڑی ہے جس میں ایک سربراہی کونا سنبھال رکھا ہے اسرائیل بشمول امریکہ وغیرہ دوسرا وہ مذہبی اقتدار کے فرعونوں اور ٹھیکیداروں کا گروہ یعنی سعودی عرب وغیرہ اور تیسرا فقہی رنجش یعنی ایران وغیرہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اندھے ہیں اور ہم نے خود ہی آنکھیں موند لیں اور ذہن کے دروازے بند کر دیے ہیں تو آرٹسٹ کو کیوں نہ موقع ملے ہمیں بیوقوف بنانے کا جب ہم خود ہی تلُے ہیں۔ میری آنکھیں بھی بند ہیں میرا ذہن الجھا ہے میں ماننے پر تیار نہیں کہ اسلام حق کی خاطر مجھے میری ہی اتنی قیمتی جان لٹانے کا حکم دیتا ہے، ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کہتا ہے بھلا میں اور اتنے آرام اور سکون سے رہتا کسی لڑائی جھگڑے میں پڑوں-ہوں!!، نمازوں کا حکم دیتا ہے، میں آج یہ کہتا ہوں کہ اسلام تجارت نہیں کہ نماز پڑھی اور اللہ سے کچھ مانگا، میں یہ باتیں کرتا ہوں کہ اسلام میں غلامی اور جبر نہیں کہ ہر حال میں اللہ کے سجدے کرنے ہیں۔ میں تو آج یہی کہتا ہوں کہ اللہ کو ہمارے سجدوں کی کیا ضرورت وہ بڑا بے نیاز ہے بڑا بخشنے والا ہے نماز کے بغیر ہی معاف کر دے گا۔
میں آج دلیلیں مانگتا ہوں اپنے کولیگز سے اور اپنے کلاس فیلوز سے اپنے پڑوسیوں سے کہ بتاؤ کہاں میوزک حرام ہے، کہاں موسیقی کی ممانعت ہے، کہاں رقص سے منع کیا گیا، کیوں کہ انہوں نے تقریباََ ویسی ہی بات کرنی ہے جیسی میں سننا چاہتا ہوں کسی پابندی سے بچنے کے لیے یا شاید ان کا علمی قد اتنا ہی ہو کہ جو بات وہ کریں اس کا میں منہ توڑ جواب بھی دے ماروں۔ مجھے مصوری کا شوق ہے اور میں انہی لوگوں سے فتوے بھی لیتا ہوں جو میری مصوری پسند کرتے ہیں۔ اور انہوں نے مجھے حقائق کی روشنی میں خود بتایا کہ مصوری حرام نہیں یہ بعد کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
میں آج لوگوں سے پوچھتا پھرتا ہوں کہ پردہ کتنا حکم ہے کتنا ضروری ہے اور کتنا من گھڑت شاید کہ کہیں چُھوٹ مل جائے۔ اور پھر ہم مل کر زنانیوں کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔ جسم کا کیا پردہ۔

حقیقت یہ ہے کہ میں بالی ووڈ، ہالی ووڈ کی فلموں سے دور نہیں رہ سکتا، حقیقت یہ ہے کہ مجھے سلیو لیس قمیصوں میں لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اجلے رنگوں سے جھلکتی بلاؤز اور پینٹیز بہت بھاتی ہیں پتہ نہیں میرے کون سے جذبے کی تسکین ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ٹی وی کے بغیر رہ نہیں سکتا، مخلوط طرزِ زندگی مجھے بہت راغب کرتی ہے۔ اور ڈراموں، فلموں اور میوزک ویڈیوز میں مجھے کپڑے مختصر ہی اچھے لگتے ہیں۔
اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اب اسلام کچھ آؤٹ آف ڈیٹ لگنا شروع ہو گیا ہے۔ کیسا مذہب ہے کہ میرے ساتھ چل نہیں سکتا اس زمانے کو روشوں کو سمجھ نہیں رہا۔
اور میں ایسا سمجھوں بھی کیوں نا، آرٹسٹ نے تشریح ہی ایسی سمجھا دی ہے اب۔ وہی سچ اور اچھا لگنے لگا ہے جو آرٹسٹ بتاتا ہے۔ اور میں خود سے تخیل کو زحمت کیوں دوں میں فکری موت تو مر چکا ہوں کب سے۔ میں تو یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کب انگریز نے مجھے اقلیت سے اکثریت میں بدل دیا۔ آسائشیں، سہولتیں، چُھوٹ، کم تکلیف، عیاشی، گانا بجانا، جہاد جیسے فلسفے سے خلاصی، اور دیگر پابندیوں سے خلاصی اور مدر پدر آزادی ہی وہ سب تھا جو مجھے چاہیے تھا اور مجھے جہاں مل رہا ہے میں وہیں دوڑے چلا جاتا ہوں۔ انگریز نے تحریکِ آزادی کو ناکام کرنے کے لیے لوگوں کو مرکزیت سے توڑ کر جس نئے کنوئیں کی طرف ہانکا وہاں وہ سب کچھ تھا جو ایک انسان کو چاہیے۔ آخر پچھلی کتنی صدیوں سے ہم اسلام قبول کرنے کے بعد اتنی ساری پابندیاں سہہ رہے تھے، ہمارے ہندو رشتہ دار، پڑوسی دوست ناچ گانا سب سنتے اور ہمیں بتاتے اور ہم شرمندہ شرمندہ ان کو نا تلاوت سنا سکتے کہ وہ تو مسلمانوں کے لیے ہے اور نا گانا بجانا کر سکتے اور ناچ سکتے اور نہ نچا سکتے۔ لیکن اب جب اسلام میں ہی وہ سب آزادیاں ملنی شروع ہو گئیں جو مجھے ہندو، بدھ اور عیسائی ہوتے ہوئے تھیں تو میں کیوں نہ استفادہ کرتا۔ سو میں نے کیا۔ کیا تھا اگر فرقہ نیا تھا یا کسی دوسرے فرقے شاخ تھا، تھا تو تسلیم شدہ اسلام نا۔۔

اب ہم یہ سب نہیں چھوڑ سکتے اس لیے جو ہمیں چھوڑنے کا کہتا ہے وہ گمراہ ہے، وہ غاروں سے آیا ہے اور وہ جاہل ہے۔ میں آنکھیں اور دماغ بند کیے بیٹھا ہوں کہ کہیں کوئی مجھ سے یہ آسائیشیں چھننے کی بات نہ کر بیٹھے۔ یہ مست مست ٹھمکے، یہ ایکشن رومانس اور فینٹیسی سے بھر پور فلمیں مجھ سے نہ چھن جائیں۔

سنا ہے کسی حدیث میں ذکر ہے کہ بہت سے فرقے ہوں جائیں گے اسلام میں لیکن ایک فرقہ ہی حق پر ہو گا اور آخر دور میں اس فرقے پر زمین تنگ کر دی جائے گی اور سب اس کے دشمن ہو جائیں گے حق بات بری سمجھی جائے گی۔ شاید ایسی کوئی حدیث نا ہو اور یہ حدیث بھی اُس زیرِ عتاب فرقے نے اپنی سچائی ثابت کرنے کو پھیلا رکھی ہو۔ لیکن قصہ اب کا تو یہ ہے کہ جہاد ایک جرم ہونے لگا ہے، پردہ پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، میوزک تو اب ہمارے بھی دین کا حصہ ہے کیوں کہ آرٹسٹ نے ہمارے سامنے جو رنگ بکھیرے انہوں نے ہمیں یہی سمجھایا ہے۔
میں شام میں ہونے والی بد ترین خون ریزی دیکھ رہا ہوں، مجھے پتہ ہے فلسطین میں کتنا خون بہہ چکا ہے اور کتنا بہہ رہا ہے اور مزید بہے گا، میں لیبیا میں دیکھ چکا ہوں، یمن میں دیکھ لیا سب، افغانستان میں دیکھتا رہا، مصر میں جو بربریت قائم کی جا رہی ہے اور جو سرخی ہر طرف چھائی ہے میں دیکھ رہا ہوں لیکن میں وہ سب بھی سمجھ رہا ہوں جو مجھے آرٹسٹ سمجھانا چاہتا ہے کہ یہ سرخ خون کا رنگ کل کا امن لے کر آئے گا، اس بہنے دو بہے گا تو امن آئے گا۔ خوشیاں آئیں گی۔ میں یہ نہیں سمجھنا چاہتا کہ ان سب ممالک سے ایک فرقے کی حکومت ختم کر کے یا اس کی حمایت ختم کر کے دوسرے فرقے یا اس کی حمایتی حکومتیں ہی کیوں لائی جا رہی ہیںۢ۔

شاید یہ سب تب ہی سمجھ آئے جب آرٹسٹ یا یہ شاہکار تاریخ کے صفحوں کا حصہ بن جائے۔

تحریر: امجد میانداد
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
ایک ایسی تحریر جس سے ممکل اختلاف اور مکلمل اتفاق نہیں کیا جاسکتا - سوچنے اوررد کرنے (یعنی بحث ) کو بہرحال بہت کچھ ہے
اس میں - اب یہ ہم پرمنحصر ہے کہ ہم اس سے کیا لیتے ہیں - مجھے آخری دو پیراگراف بہت پسند آئے ہیں جو ایک مجموعی سوچ اور
عہد حاضرکی مکلمل عکاسی ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
برادرِ محترم۔ پہلے تو دیر سے آمد کے لیے معذرت۔
مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ آج کل ٹیگ کرنے کی اطلاع موصول نہیں ہو پا رہی ہے۔

دوسری عرض یہ ہے کہ مجھے آپ کی عالمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کے لیے نیک نیتی اور ہمدردی سے انکار نہیں، اور اُسے تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ لیکن ایک مودبانہ گذارش ضرور کرنا چاہتا ہوں۔
برادر، آپ ایرانی مولویانہ حکومت اور پوری شیعیت کو ایک ہی خانے میں فٹ کر کے موخر الذکر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو میری نظر میں نہایت خطرناک اور نادانی کی بات ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ اگر کوئی شخص سعودیوں کی آڑ میں سنیوں کو نشانہ بنائے۔ اگر آپ عالمِ اسلام کے لیے ایران کی مولویانہ حکومت کو عالمِ اسلام کے روشن مسقبل کے لیے خطرہ قرار دیتے تو شاید میں آپ کی ہمنوائی کرتا، لیکن جس طرح آپ نے 'فقہ جعفریہ' کو مسلمانوں کے دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اور جس طرح شیعیت جیسے پیچیدہ تاریخی و مذہبی مظہر کو سادہ انگارانہ خانوں میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، معذرت چاہتا ہوں، کہ مجھے ناگوار گزرا ہے۔

دیکھیں برادر، کروڑوں لوگوں پر مشتمل اور ایک بڑی دنیا پر پھیلا کوئی مذہبی گروہ اتنا یگانہ نہیں ہوتا ہے کہ سب پر ایک ہی حکم لگا دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید ہمیں بوسنیا کے بہترین اور متمدن سنی مسلمانوں اور سعودیہ کے پست ترین اور بدترین سنی حکمرانوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھ کر ایک ہی حکم لگانا پڑتا۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بوسنیائیوں اور سعودیوں میں سرے سے کوئی مماثلت ہی نہیں ہے۔
اسی طرح شیعہ بھی ایک اکائی نہیں، بلکہ لسانی، مسلکی، ثقافتی، نظریاتی تنوع سے بھرپور ایک مذہبی گروہ ہے۔ اس میں البانیہ کے یورپی شیعہ بھی شامل ہیں، آذربائجان کے سیکولر، معتدل اور غیر فرقہ پرست شیعہ بھی شامل ہیں، ایران کے مذہبی ملا بھی شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں‌ کہ امام مہدی سے اُنہیں حکومت کی سند حاصل ہے، اور پاکستان جیسے کم تعلیم یافتہ ملک کے جنونی شیعہ بھی شامل ہیں۔ خود ایران میں بھی شیعیت انتہائی غنی نظریاتی اور مذہبی تنوع کی حامل ہے۔ ایران نے اگر خمینی جیسے شدت پسند مولوی حکمران دنیا کو دیے ہیں، تو یہاں‌ سے محمد مصدق جیسے جمہوریت پسند اور تیسری دنیا کے حقیقی نمائندے جیسے شیعہ بھی اٹھے ہیں۔ عبدالکریم سروش بھی ایک ایرانی شیعہ ہیں جو مغرب میں اسلامی اصلاح سازی اور لبرل اسلام کی ایک بڑی آواز سمجھے جاتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ دو ایک مثالیں کافی ہیں۔ اب اتنے متنوع مظہر کو 'اسلام و مسلمان مخالف فقہ جعفریہ' کے گمراہ کن ذیل میں‌ لا کر ایک ہی حکم لگانا کتنا انصاف پر مبنی ہے؟ کیا میں اسے شیعہ مخالف تعصب کہنے پر حق بجانب نہیں ہوں؟

پھر ہمارا پاکستان ایک قومی ریاست کہا جاتا ہے، جس میں اصولاً مذہبی اور فرقہ وارانہ شہری تشخیص کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ شیعوں پر پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پاکستانی قوم کا بھی لازم و ملزوم حصہ ہیں۔ اگر شیعوں کو بیگانہ اور اکثریت کا 'سازشی دشمن' تصور کر کے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا تو اس کا منطقی نتیجہ فرقہ وارانہ 'دو قومی نظریے' کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ خدا نہ کرے کہ میرا عزیز ملک بھی اُسی راہ پر گامزن ہو جس راہ پر عراق اور شام جیسے ملک گئے ہیں۔ بلکہ دعا ہے کہ میرا ملک ایسا بنے جہاں سیاسی و شہری بنیادوں پر سنی اور شیعہ دونوں ایک متحد قوم ہوں اور جہاں کوئی فرقہ وارانہ تشخیص روا نہیں رکھی جائے اور نہ ہی مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی عوامی وجود ہو۔

امید ہے کہ جو میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ آپ پر واضح ہو چکا ہو گا۔
 
آخری تدوین:

ملائکہ

محفلین
موجودہ حالات کو بہت خوبصورتی سے آرٹسٹ کی نظر سے بیان کیا ہے۔۔۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ہماری پاکستانی قوم ابھی یہی سمجھ نہیں پارہی کہ مصر،شام اور دوسرے ممالک میں گیم آخر کھیلی کیا جارہی ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
میں تصحیح کے پیشِ نظر صرف ایک نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں جہاں آپ نےاسلام کو ہونے یا ملنے والے نقصان یا ترقی کا ذکر کیا ہے ، اگر اس میں اسلام کی جگہ مسلمان لکھ دیا جائے تو صحیح ہوگا۔ کیوں کہ اسلام میں نہ تو کوئی کمی ہے کہ اسے نقصان پہنچ جائے اور نہ اسلام ایک وقتی مذہب ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی رک یا آہستہ ہوبلکہ یہ تو ذاتِ باری تعالیٰ کا واحد چُنا ہوا دین ہے، جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں کے لیے دائمی وضع کیا ہے۔
ہاں البتہ مسلمان اپنے اعمال کی وجہ سے ان صفات کے حامل ہوسکتے ہیں۔
 
برادرِ محترم۔ پہلے تو دیر سے آمد کے لیے معذرت۔
مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ آج کل ٹیگ کرنے کی اطلاع موصول نہیں ہو پا رہی ہے۔

دوسری عرض یہ ہے کہ مجھے آپ کی عالمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کے لیے نیک نیتی اور ہمدردی سے انکار نہیں، اور اُسے تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ لیکن ایک مودبانہ گذراش ضرور کرنا چاہتا ہوں۔
برادر، آپ ایرانی مولویانہ حکومت اور پوری شیعیت کو ایک ہی خانے میں فٹ کر کے موخر الذکر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو میری نظر میں نہایت خطرناک اور نادانی کی بات ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ اگر کوئی شخص سعودیوں کی آڑ میں سنیوں کو نشانہ بنائے۔ اگر آپ عالمِ اسلام کے لیے ایران کی مولویانہ حکومت کو عالمِ اسلام کے روشن مسقبل کے لیے خطرہ قرار دیتے تو شاید میں آپ کی ہمنوائی کرتا، لیکن جس طرح آپ نے 'فقہ جعفریہ' کو مسلمانوں کے دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اور جس طرح شیعیت جیسے پیچیدہ تاریخی و مذہبی مظہر کو سادا انگارانہ خانوں میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، معذرت چاہتا ہوں، کہ مجھے ناگوار گزرا ہے۔

دیکھیں برادر، کروڑوں لوگوں پر مشتمل اور ایک بڑی دنیا پر پہلا کوئی مذہبی گروہ اتنا یگانہ نہیں ہوتا ہے کہ سب پر ایک ہی حکم لگایا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید ہمیں بوسنیا کے بہترین سنی مسلمانوں اور سعودیہ کے پست ترین اور بدترین سنی حکمرانوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھ کر ایک ہی حکم لگانا پڑتا۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بوسنیائیوں اور سعودیوں سرے سے کوئی کوئی مماثلت ہی نہیں ہے۔
اسی طرح شیعہ بھی ایک اکائی نہیں، بلکہ لسانی، مسلکی، ثقافتی، نظریاتی تنوع سے بھرپور ایک مذہبی گروہ ہے۔ اس میں البانیہ کے یورپی ترین شیعہ بھی شامل ہیں، آذربائجان کے سیکولر، انتہائی معتدل اور غیر فرقہ پرست شیعہ بھی شامل ہیں، ایران کے مذہبی ملا بھی شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں‌ کہ امام مہدی سے اُنہیں حکومت کی سند حاصل ہے، اور پاکستان جیسے کم تعلیم یافتہ ملک کے جنونی شیعہ بھی شامل ہیں۔ خود ایران میں بھی شیعیت انتہائی غنی نظریاتی اور مذہبی تنوع کی حامل ہے۔ ایران نے اگر خمینی جیسے شدت پسند مولوی حکمران دنیا کو دیے ہیں، تو یہاں‌ سے محمد مصدق جیسے جمہوریت پسند اور تیسری دنیا کے حقیقی نمائندے جیسے شیعہ بھی اٹھے ہیں۔ عبدالکریم سروش بھی ایک ایرانی شیعہ ہیں جو مغرب میں اسلامی اصلاح سازی اور لبرل اسلام کی ایک بڑی آواز سمجھے جاتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ دو ایک مثالیں کافی ہیں۔ اب اتنے متنوع مظہر کو 'اسلام و مسلمان مخالف فقہ جعفریہ' کے گمراہ کن ذیل میں‌ لا کر ایک ہی حکم لگانا کتنا انصاف پر مبنی ہے؟ کیا میں اسے شیعہ مخالف تعصب کہنے پر حق بجانب نہیں ہوں؟

پھر آج کا دور قومی ریاستوں کا دور ہے، جس میں اصولاً مذہبی اور فرقہ وارانہ تشخیص کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لوگ شیعوں پر پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پاکستانی قوم کا بھی لازم و ملزوم حصہ ہیں۔ اگر شیعوں کو بیگانہ اور اکثریت کا 'سازشی دشمن' تصور کر کے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا تو اس کا منطقی نتیجہ فرقہ وارانہ 'دو قومی نظریے' کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ خدا نہ کرے کہ میرا عزیز ملک بھی اُسی راہ پر گامزن ہو جس راہ پر عراق اور شام جیسے ملک گئے ہیں۔ بلکہ دعا ہے کہ میرا ملک ترکی کی طرح بنے جہاں سیاسی و شہری بنیادوں پر سنی اور شیعہ دونوں ایک متحد اور وطن پرست ترک قوم ہیں اور جہاں کوئی فرقہ وارانہ تشخیص روا نہیں رکھی جاتی اور نہ ہی مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی عوامی وجود ہے۔

امید ہے کہ جو میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ آپ پر واضح ہو چکا ہو گا۔
جی حسان بالکل ٹھیک کہا آپ نے مجھ سے یقیناَ ایک جگہ یہ غلطی سے درج ہو گیا جو کہ درست کر دیا ہے، اور میں یقیناَ فقہ جعفریہ کے دونوں بڑے گروپوں سے آگاہ ہو اور وہاں بھی صورتحال کم و بیش یہی ہے کہ اخوت اور بھائی چارے کا علم بردار جو گروہ تھا وہ کچھ صدیوں پہلے تک اکثریت میں تھا لیکن اب وہاں بھی وہ گروہ آگے لایا جا چکا ہے جو نفرت اور حقارت پر مبنی کچھ مخصوص نظریات رکھتا ہے۔ میرے ذاتی دوستوں میں ایسی اہلِ تشیع فیملیز ہیں جو حضرت عمر کے بارے میں دوسرے گروہ کے مروجہ نظریات کی مخالف ہیں حضرت ابو بکر صدیق کی عظمت اور حضرت عائشہ کی حرمت کی گواہی دیتے ہیں۔

جہاں غلطی ہوئی وہاں ایک طالبعلم کی حثیت سے معافی کا خواستگار ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیکھیں برادرِ محترم! مذہبی عقائد جیسی چیزوں سے تو مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جسے جو عقیدہ رکھنا ہے ہزار بار رکھے، سانوں کی!! البتہ کسی مذہبی گروہ اور اُس کے پیروکاروں کو خصوصی طور پر تنقید کا نشانہ بنانا مجھے کبھی ہضم نہیں ہوتا۔ اسی لیے آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔
اگر شیعہ شدت پسندوں کو (چاہے وہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں) ذہن میں رکھ کر اُن پر حکم لگانے کے بجائے یہ ذہن میں رکھا جائے کہ یہ شیعہ ہی مسلم دنیا کی پہلی جدید اور روشن خیال پارلیمانی ریاست جمہوریۂ آذربائجان کے بانی ہیں تو شاید لوگ اُن پر بطورِ کل منفی حکم صادر کرنے سے گریز کریں۔

والسلام۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
مجھے ٹیگ نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی میں تبصرہ کروں گا چاہے آپ کو اچھا نہ بھی لگے۔

آپ کی تحریر بالکل بے ربط ہے اور کسی طور پر بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر ہے۔ تاریخ سے بھی cherry picking کر کے اپنے مطلب کی چیزیں نکالی گئی ہیں اور جس بنیاد پر اس تحریر کو استوار کیا گیا ہے یعنی "کوئی سازشی مسلمانوں کے خلاف کم از کم 800 سالوں سے سازش کر رہا ہے اور مسلمان اس کا شکار ہو رہے ہیں" نہایت ہی متزلزل ہے کیونکہ اس time scale پر اور اتنے لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنا تو صرف خدا کے ہی بس کی بات ہے۔

اس کے علاوہ کوئی اور تبصرہ کرنے سے معذرت چاہوں گا کہ "ایرانی فون کمپنی" والے دھاگے کے shock سے میں ابھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوا ہوں اور اختلافی باتوں میں میں الجھنا نہیں چاہتا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
امجد بھائی، ایک اچھی فکر انگیز تحریر ہے مگر ربط کہیں کہیں متاثر دکھائی دیتا ہے۔
نوید بٹ کا حوالہ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں اول تو لوگ ایسے مردانِ حر کے نام سے ہی ناواقف ہیں اور اگر کچھ لوگ واقف بھی ہیں تو وہ ان کے حق میں بولنے کو حرام نہیں تو کم از کم مکروہ ضرور تصور کرتے ہیں۔ امریکی آشیرباد سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے ریاستی دہشت گردوں سے مردانِ حر کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرنے کے سوا اور کیا توقع کی جاسکتی ہے بھلا!
اتحاد و یگانگت ہی تو مسلمانوں کا وہ سب سے اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔ تاریخ کا نظرِ غائر سے جائزہ لینے والے اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کون کون سی قوتیں کب سے اسلام مخالف سرگرمیوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اور ان کی کاوشوں کے نتیجے میں کب کب، کہاں کہاں اور کیا کیا خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔
اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم فکری و نظری اختلافات سے اوپر اٹھ کر مسلم اُمّہ کی فلاح و بہبود اور سربلندی کے لئے اپنا حقیقی کردار ادا کریں۔
 
Top