امجد میانداد
محفلین
کینوس پہ شاہکار ایسا بھی پیچیدہ نہیں کہ ہم سمجھ نہ پائیں، لیکن کیا کریں، آرٹسٹ کوئی اور ہے جو تشریح اس نے دینی ہے وہی ہم نے سمجھنی ہے، اور ہے بھی ایسا ہی کہ جو تشریح وہ دیتا ہے وہی ہم سمجھتے ہیں۔ آزاد تشریح تو شاید جب یہ وقت ، یہ آرٹسٹ اور یہ شاہکار تاریخ کا حصہ بنیں تو ہی شاید ممکن ہو۔
کینوس بھی عجب رنگ لیے ہے، آرٹسٹ جو تشریح سمجھانا چاہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں۔ ذہنی طور پر تو ہم مفلوج ہو چکے ہیں۔ اپنی عقل اپنی پسند سے کچھ سمجھنا نہیں چاہتے کچھ ماننا نہیں چاہتے۔ آرٹسٹ کی تشریحات بھی عجب ہیں،
صدیوں چلا آیا تھا کہ سبز رنگ قدرت کی کی صناعی اور قدرت کا پیغام لیے ہوئے ہے، سرخ رنگ جذبات کی شدت کا اظہار کرتا ہے، سفید رنگ امن اور آشتی کا درس دیتا ہے، آسمانی رنگ روح کی گہرائیوں کو کھنگالتا ہے، پیلے یا زرد رنگ سے بیزاری جھلکتی ہے سیاہ رنگ انتہائی گہرے راز اور طاقتیں لیے ہوئے ہے لیکن اب آرٹسٹ بہت طاقت میں ہے اس کا تخیل اور اس کی طاقت اس قدر ہے کہ ہمارے ذہن بھی اس کے تخیل کی زنجیروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
لیکن آرٹسٹ اب ہمیں بتا رہا ہے کہ سبز رنگ قہرو غضب، تعصب اور ظلم و جبر لیے ہوئے ہے، سرخ رنگ امن اور محبت کا پرچار کرنے کے لیے، سیاہ روحانیت اور وجدان کی گہرائیاں سموئے بیٹھا ہے، نیلا رنگ برائیوں اور فساد کا علم بردار ہے، غرض جو تشریح آرٹسٹ کر رہا ہے وہی آج کی حقیقت ہے اور ہم پہ ماننا فرض۔ اور مانیں بھی کیسے نا، کیوں کہ ہم نے خود دیکھےہیں آرٹسٹ کے ڈبوں میں پڑے رنگ اور رنگوں کی حالت جیسا آرٹسٹ نے کہا ویسا ہی نظر آیا۔آرٹسٹ سچا ہے اور رنگوں کی آفاقی سچائی جھوٹی۔
جب اسلام کا علَم ان لوگوں نے تھام لیا جن کی تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی زندگی کو ابھی کچھ ہی سال بِیتے تھے، پہاڑوں سے اترے وہ وحشی جن کے قدموں نے آدھی دنیا فتح کی اور تلواروں نے بہت سے منہ زوروں کو خاک چٹائی، تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی ان عظیم فتوحات کے پیچھے بھی ان کے مسلمان وزیر ہی تھے، جو بھانپ چکے تھے کہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھا یہ منہ زور طوفان جو کہ کسی بھی تہذیبی اور نظریاتی محور سے جڑا ہوا نہیں تھا ایک دن کسی مذہب کے افکار پہ گھٹنے ٹیکے گا، اپنا خالی پن محسوس کرے گا اور یہ کمی پوری کرنے کو ایک دن تو آخر کسی نا کسی نظریہ کو قبول کرے گا ہی۔ اور انہوں نے تن من دھن کی بازی لگائی اپنوں کے گلے کٹتے ہو دیکھتے رہے صرف اور صرف آنے والی صدیوں کی فتح اور حکمرانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ دہائیوں کی قربانی دیتے رہے صدیوں کی حکمرانی کی خاطر۔
لیکن صرف مسلمان ہی نہیں ہندو، عیسائی، بدھ مت اور مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جواس وقت صرف سازشوں میں پنپ رہا تھا سبھی پوری طرح اس صورتِ حال کا ادراک کیے ہوئے تھے، سب اسی کوشش میں تھے کہ یہ دودھ دیتی گائے ان کے کھیت میں آ جائے۔
لیکن ان کچھ دہائیوں کا نقصان اسلام کا شدید ترین نقصان ثابت ہوا، اسلام کو شدید ترین نقصان پہنچا۔ تاریخ کے صفحوں نے ہی مجھ ادنیٰ طالب علم کے کانوں میں سرگوشی کی کہ منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد کے اصل محرکات میں کس کی سازشیں شامل تھیں۔ علم کے خزانوں سے سینے منور کرتی کتابوں نے دریا سیاہ کر کے گواہی دی کہ غیروں سے زیادہ اس میں اپنے سازشی شامل تھے جن کو بغداد میں اسلام کے اس فرقے کا عروج قبول نہیں تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے، اور پھر جب فتح کے بعد منگولوں نے اپنے ہی دو مسلمان وزیر بھائیوں میں سے ایک کو بغداد میں اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑا تو وہ سازشی گروہ آخر اس ہونہار وزیر کو قتل کروا کر ٹھہرا منگولوں کے ہاتھوں اور وہ بھی ایسا کہ بغداد کی گلیوں میں اس سیاہ رو کو رگیدا گیا۔
پھر وقت نے ثابت کر دکھایا کہ منگول کچھ ہی نسلوں بعد فاتح ہو کر بھی مفتوح ہو گئے حق کی سچائی سے۔ منگول ، منگول نہ رہ سکے اور مغول ہوتے ہوئے مغل ہو گئے، ان کے ساتھ اسلام کی ترقی اور فلاح کے بجائے وہ لوگ زیادہ جڑے رہے جنہیں اسلام کے نام کا اقتدار چاہیے تھا اور جو اسلام کا اقتدار دیکھنا چاہتے تھے، فنی و علمی ترقی نہیں۔ بغداد کی درسگاہوں کی تباہی اسلام کی ترقی کا فُل اسٹاپ ثابت ہوا۔
عصرِ حاضرکے کینوس پہ رنگ توپچھلی کچھ صدیوں میں ہی سجنا شروع ہو گئے تھے، لیکن منظر گزشتہ صدی میں واضع ہوئے اور اب شاہکار کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
سب واضع ہے کہ عالمی منظر نامے سے کس طرح خلافتِ عثمانیہ کا اختتام کیا گیا اور اسرائیل کا ناجائز وجود مسلمانوں پر تھوپ دیا گیا۔ اس کے بعد بھی ان کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ اسلام سے ایک ہی خطرہ ہے اور وہ ہے ان کے اتحاد کا۔ دوبارہ سے ایک خلیفہ کے ماتحت ہونے کا مطلب یہی تھا کہ اس ترقی کے دور میں اسلام کا عروج باقیوں کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔ لہٰذا سب کو ان کی انفرادی طاقت کا مزہ چکھایا گیا، اقتدار کے نشے کی ڈوز دی گئی اور انفرادی حثیت میں رہنے کے مزے سمجھائے گئے۔ نتیجتاً وہ سب تنظیمیں تو بنتی ٹوٹتی رہیں جن سے سامراج کے مقاصد بنتے رہے اور پورے ہوتے رہے لیکن خلافتِ عثمانیہ کی آواز دوبارہ نہ اٹھنے دی گئی۔ اسرائیل کے آس پڑوس میں ایک فرقے کے عوام کی جس طرح سے بیخ کنی کی گئی اور کی جا رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کیوں کہ اسرائیل امریکہ کو خطرہ صرف اور صرف خلافتِ عثمانیہ کی آواز بلند ہونے سے ہے۔
آرٹسٹ نے اب کینوس پہ خاکہ مکمل کر لیا تھا اور اب اس کے خال و خد واضع ہونے شروع ہو گئے تھے۔
نام نہاد اور کرائے کے مسلمانوں سے ایسے ایسے کارنامے انجام دلوائے گئے کہ عوام کو' کانا' راجہ اب بینا نظر آنے لگا ہے اور آنکھوں والا نابینا کیوں کہ اندھوں کی پرچھائیاں آنکھوں والوں کو چھپا چکی ہیں۔
عثمانی خلافت ختم کرنے کے بعد جتنے منظم طریقے سے خلافتِ عثمانیہ کے لیے اٹھنے والی ہر آواز دبانے کی کوشش کی گئی شاید ہی کبھی کسی تنظیم کے خلاف اتنا منظم نیٹ ورک بنا ہو۔
خلافت عثمانیہ اور مسلمانوں کی یک جہتی اور اتحاد کے لیے برسرِ پیکار تنظیم حزب التحریر (کہا جاتا ہے کہ اخوان المسلمین اور حزب التحریر دونوں ایک ہی تنظیم کے دو نام ہیں) وہ واحد جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی ہر حکومت میں ہر سطح پہ مکمل پابندی کا شکار رہی صرف انہی کو کھلواڑ کی اجازت ملی جن سے امریکہ، اسرائیل، ایران یا سعودی عرب وغیرہ کے انفرادی مقاصد پورے ہو سکتے تھے۔
اسی طرح سعودی عرب بھی اپنا پورا زور اسی پر لگانا چاہتا ہے کہ یہ آواز دوبارہ نہ اٹھے کیوں کہ پہلے بھی ترکی جیسے ملک کے ہاتھ میں تھی حکمرانی اور اب عربوں کو یہ کیسے گوارہ تھا ، پہلے تو برداشت اس لیے ہو گیا تھا کہ خود کی کوئی علمی اور دنیاوی حثیت سوائے مدینہ اور مکہ کے والیوں کے اور کچھ نہ تھی۔ لیکن اب تو پیسا ہے نشہ ہے اقتدار ہے اور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کا مزہ ہے۔
ایران اور اس کے ہمنوا بھی کسی طرح نہیں چاہتے کہ ان کا مخالف فقہ پورے اسلام کا پھر سے علَم بردار کہلائے اس لیے ان کی بھی ساری کوششیں اسی سمت رہیں کہ ایسے ہر قدم کی حوصلہ شکنی کی جائے جو اسلام کے اتحاد کی یا خلافت کے قیام کی بات کرے۔
حزب التحریر کے پاکستانی نمائندے میری آخری معلومات تک پابندِ سلاسل تھے لیکن نہ تو ایسا کچھ منظرِ عام پہ ہے اور نہ ہی ڈسکس ہوتا ہے کیوں کہ اس سے امت پر براہِ راست فرق پڑنا ہے، حزب التحریر کی ویب سائٹس اور وہ ویب سائٹس جن میں ان کے یہاں کے رہنما جو کہ نوید بٹ ہیں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے مکمل طور پر بلاکڈ رہیں۔
کیا اُن میں سے کسی تنظیم کو ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جنہوں نے پاکستان کے عوام پر زمین تنگ کی ہوئی ہے اور جو اس سے قبل امریکہ، سعودی عرب ، ایران یا کسی بھی اور ملک کے مفاد میں کام کرتے رہے اور بعد میں طاقت پکڑ لی یا طاقت دے دی گئی کھلواڑ کرنے کی۔
میرے سامنے دو تکونیں ہیں ایک کو میں اسلام کی اندرونی تکون کہوں گا اور اسی کی مناسبت سے دوسری تکون پہ بات کروں گا۔ اسلام کی اندرونی تکون میں مجھے ایک کونے پہ ترقی پسند اسلام کے علم بردار نظر آتے ہیں جو کہ ترکی، مصر ، وغیرہ میں بھی موجود ہیں، دوسرے کونے پہ براجمان اقتدار کے فرعون ہیں یعنی سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک اور تیسرے کونے پہ ایران اور اس کے زیرِ اثر ممالک ہیں ۔
عرب ممالک اپنے اقتدار کی وجہ سے اور مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار ہونے کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ پھر سے خلافت قائم ہوتیسرا کونا اس تکون کا فقہی رنجش کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ خلافت دوبارہ قائم ہو اور امت میں اتحاد ہو۔ اور پہلا کونا جسے خلافت بھی چاہیے مذہب کا بول بالا بھی چاہیے اور ٹھیکے داروں سے نجات بھی چاہیے وہ ترقی چاہتا ہے اسلام چاہتا ہے اور عزت اور اتحاد چاہتا ہے وہ ہر طرف سے زبوں حالی کا شکار ہے اور دشمنوں میں گھِرا ہوا ہے۔
اب دوسری تکون جو میں سمجھتا ہوں وہ خلافت کے مخالفین کی ہے، خلافت کے خلاف اتحاد کی تکون بھی بہت بڑی ہے جس میں ایک سربراہی کونا سنبھال رکھا ہے اسرائیل بشمول امریکہ وغیرہ دوسرا وہ مذہبی اقتدار کے فرعونوں اور ٹھیکیداروں کا گروہ یعنی سعودی عرب وغیرہ اور تیسرا فقہی رنجش یعنی ایران وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اندھے ہیں اور ہم نے خود ہی آنکھیں موند لیں اور ذہن کے دروازے بند کر دیے ہیں تو آرٹسٹ کو کیوں نہ موقع ملے ہمیں بیوقوف بنانے کا جب ہم خود ہی تلُے ہیں۔ میری آنکھیں بھی بند ہیں میرا ذہن الجھا ہے میں ماننے پر تیار نہیں کہ اسلام حق کی خاطر مجھے میری ہی اتنی قیمتی جان لٹانے کا حکم دیتا ہے، ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کہتا ہے بھلا میں اور اتنے آرام اور سکون سے رہتا کسی لڑائی جھگڑے میں پڑوں-ہوں!!، نمازوں کا حکم دیتا ہے، میں آج یہ کہتا ہوں کہ اسلام تجارت نہیں کہ نماز پڑھی اور اللہ سے کچھ مانگا، میں یہ باتیں کرتا ہوں کہ اسلام میں غلامی اور جبر نہیں کہ ہر حال میں اللہ کے سجدے کرنے ہیں۔ میں تو آج یہی کہتا ہوں کہ اللہ کو ہمارے سجدوں کی کیا ضرورت وہ بڑا بے نیاز ہے بڑا بخشنے والا ہے نماز کے بغیر ہی معاف کر دے گا۔
میں آج دلیلیں مانگتا ہوں اپنے کولیگز سے اور اپنے کلاس فیلوز سے اپنے پڑوسیوں سے کہ بتاؤ کہاں میوزک حرام ہے، کہاں موسیقی کی ممانعت ہے، کہاں رقص سے منع کیا گیا، کیوں کہ انہوں نے تقریباََ ویسی ہی بات کرنی ہے جیسی میں سننا چاہتا ہوں کسی پابندی سے بچنے کے لیے یا شاید ان کا علمی قد اتنا ہی ہو کہ جو بات وہ کریں اس کا میں منہ توڑ جواب بھی دے ماروں۔ مجھے مصوری کا شوق ہے اور میں انہی لوگوں سے فتوے بھی لیتا ہوں جو میری مصوری پسند کرتے ہیں۔ اور انہوں نے مجھے حقائق کی روشنی میں خود بتایا کہ مصوری حرام نہیں یہ بعد کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
میں آج لوگوں سے پوچھتا پھرتا ہوں کہ پردہ کتنا حکم ہے کتنا ضروری ہے اور کتنا من گھڑت شاید کہ کہیں چُھوٹ مل جائے۔ اور پھر ہم مل کر زنانیوں کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔ جسم کا کیا پردہ۔
حقیقت یہ ہے کہ میں بالی ووڈ، ہالی ووڈ کی فلموں سے دور نہیں رہ سکتا، حقیقت یہ ہے کہ مجھے سلیو لیس قمیصوں میں لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اجلے رنگوں سے جھلکتی بلاؤز اور پینٹیز بہت بھاتی ہیں پتہ نہیں میرے کون سے جذبے کی تسکین ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ٹی وی کے بغیر رہ نہیں سکتا، مخلوط طرزِ زندگی مجھے بہت راغب کرتی ہے۔ اور ڈراموں، فلموں اور میوزک ویڈیوز میں مجھے کپڑے مختصر ہی اچھے لگتے ہیں۔
اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اب اسلام کچھ آؤٹ آف ڈیٹ لگنا شروع ہو گیا ہے۔ کیسا مذہب ہے کہ میرے ساتھ چل نہیں سکتا اس زمانے کو روشوں کو سمجھ نہیں رہا۔
اور میں ایسا سمجھوں بھی کیوں نا، آرٹسٹ نے تشریح ہی ایسی سمجھا دی ہے اب۔ وہی سچ اور اچھا لگنے لگا ہے جو آرٹسٹ بتاتا ہے۔ اور میں خود سے تخیل کو زحمت کیوں دوں میں فکری موت تو مر چکا ہوں کب سے۔ میں تو یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کب انگریز نے مجھے اقلیت سے اکثریت میں بدل دیا۔ آسائشیں، سہولتیں، چُھوٹ، کم تکلیف، عیاشی، گانا بجانا، جہاد جیسے فلسفے سے خلاصی، اور دیگر پابندیوں سے خلاصی اور مدر پدر آزادی ہی وہ سب تھا جو مجھے چاہیے تھا اور مجھے جہاں مل رہا ہے میں وہیں دوڑے چلا جاتا ہوں۔ انگریز نے تحریکِ آزادی کو ناکام کرنے کے لیے لوگوں کو مرکزیت سے توڑ کر جس نئے کنوئیں کی طرف ہانکا وہاں وہ سب کچھ تھا جو ایک انسان کو چاہیے۔ آخر پچھلی کتنی صدیوں سے ہم اسلام قبول کرنے کے بعد اتنی ساری پابندیاں سہہ رہے تھے، ہمارے ہندو رشتہ دار، پڑوسی دوست ناچ گانا سب سنتے اور ہمیں بتاتے اور ہم شرمندہ شرمندہ ان کو نا تلاوت سنا سکتے کہ وہ تو مسلمانوں کے لیے ہے اور نا گانا بجانا کر سکتے اور ناچ سکتے اور نہ نچا سکتے۔ لیکن اب جب اسلام میں ہی وہ سب آزادیاں ملنی شروع ہو گئیں جو مجھے ہندو، بدھ اور عیسائی ہوتے ہوئے تھیں تو میں کیوں نہ استفادہ کرتا۔ سو میں نے کیا۔ کیا تھا اگر فرقہ نیا تھا یا کسی دوسرے فرقے شاخ تھا، تھا تو تسلیم شدہ اسلام نا۔۔
اب ہم یہ سب نہیں چھوڑ سکتے اس لیے جو ہمیں چھوڑنے کا کہتا ہے وہ گمراہ ہے، وہ غاروں سے آیا ہے اور وہ جاہل ہے۔ میں آنکھیں اور دماغ بند کیے بیٹھا ہوں کہ کہیں کوئی مجھ سے یہ آسائیشیں چھننے کی بات نہ کر بیٹھے۔ یہ مست مست ٹھمکے، یہ ایکشن رومانس اور فینٹیسی سے بھر پور فلمیں مجھ سے نہ چھن جائیں۔
سنا ہے کسی حدیث میں ذکر ہے کہ بہت سے فرقے ہوں جائیں گے اسلام میں لیکن ایک فرقہ ہی حق پر ہو گا اور آخر دور میں اس فرقے پر زمین تنگ کر دی جائے گی اور سب اس کے دشمن ہو جائیں گے حق بات بری سمجھی جائے گی۔ شاید ایسی کوئی حدیث نا ہو اور یہ حدیث بھی اُس زیرِ عتاب فرقے نے اپنی سچائی ثابت کرنے کو پھیلا رکھی ہو۔ لیکن قصہ اب کا تو یہ ہے کہ جہاد ایک جرم ہونے لگا ہے، پردہ پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، میوزک تو اب ہمارے بھی دین کا حصہ ہے کیوں کہ آرٹسٹ نے ہمارے سامنے جو رنگ بکھیرے انہوں نے ہمیں یہی سمجھایا ہے۔
میں شام میں ہونے والی بد ترین خون ریزی دیکھ رہا ہوں، مجھے پتہ ہے فلسطین میں کتنا خون بہہ چکا ہے اور کتنا بہہ رہا ہے اور مزید بہے گا، میں لیبیا میں دیکھ چکا ہوں، یمن میں دیکھ لیا سب، افغانستان میں دیکھتا رہا، مصر میں جو بربریت قائم کی جا رہی ہے اور جو سرخی ہر طرف چھائی ہے میں دیکھ رہا ہوں لیکن میں وہ سب بھی سمجھ رہا ہوں جو مجھے آرٹسٹ سمجھانا چاہتا ہے کہ یہ سرخ خون کا رنگ کل کا امن لے کر آئے گا، اس بہنے دو بہے گا تو امن آئے گا۔ خوشیاں آئیں گی۔ میں یہ نہیں سمجھنا چاہتا کہ ان سب ممالک سے ایک فرقے کی حکومت ختم کر کے یا اس کی حمایت ختم کر کے دوسرے فرقے یا اس کی حمایتی حکومتیں ہی کیوں لائی جا رہی ہیںۢ۔
شاید یہ سب تب ہی سمجھ آئے جب آرٹسٹ یا یہ شاہکار تاریخ کے صفحوں کا حصہ بن جائے۔
تحریر: امجد میانداد
کینوس بھی عجب رنگ لیے ہے، آرٹسٹ جو تشریح سمجھانا چاہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں۔ ذہنی طور پر تو ہم مفلوج ہو چکے ہیں۔ اپنی عقل اپنی پسند سے کچھ سمجھنا نہیں چاہتے کچھ ماننا نہیں چاہتے۔ آرٹسٹ کی تشریحات بھی عجب ہیں،
صدیوں چلا آیا تھا کہ سبز رنگ قدرت کی کی صناعی اور قدرت کا پیغام لیے ہوئے ہے، سرخ رنگ جذبات کی شدت کا اظہار کرتا ہے، سفید رنگ امن اور آشتی کا درس دیتا ہے، آسمانی رنگ روح کی گہرائیوں کو کھنگالتا ہے، پیلے یا زرد رنگ سے بیزاری جھلکتی ہے سیاہ رنگ انتہائی گہرے راز اور طاقتیں لیے ہوئے ہے لیکن اب آرٹسٹ بہت طاقت میں ہے اس کا تخیل اور اس کی طاقت اس قدر ہے کہ ہمارے ذہن بھی اس کے تخیل کی زنجیروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
لیکن آرٹسٹ اب ہمیں بتا رہا ہے کہ سبز رنگ قہرو غضب، تعصب اور ظلم و جبر لیے ہوئے ہے، سرخ رنگ امن اور محبت کا پرچار کرنے کے لیے، سیاہ روحانیت اور وجدان کی گہرائیاں سموئے بیٹھا ہے، نیلا رنگ برائیوں اور فساد کا علم بردار ہے، غرض جو تشریح آرٹسٹ کر رہا ہے وہی آج کی حقیقت ہے اور ہم پہ ماننا فرض۔ اور مانیں بھی کیسے نا، کیوں کہ ہم نے خود دیکھےہیں آرٹسٹ کے ڈبوں میں پڑے رنگ اور رنگوں کی حالت جیسا آرٹسٹ نے کہا ویسا ہی نظر آیا۔آرٹسٹ سچا ہے اور رنگوں کی آفاقی سچائی جھوٹی۔
جب اسلام کا علَم ان لوگوں نے تھام لیا جن کی تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی زندگی کو ابھی کچھ ہی سال بِیتے تھے، پہاڑوں سے اترے وہ وحشی جن کے قدموں نے آدھی دنیا فتح کی اور تلواروں نے بہت سے منہ زوروں کو خاک چٹائی، تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی ان عظیم فتوحات کے پیچھے بھی ان کے مسلمان وزیر ہی تھے، جو بھانپ چکے تھے کہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھا یہ منہ زور طوفان جو کہ کسی بھی تہذیبی اور نظریاتی محور سے جڑا ہوا نہیں تھا ایک دن کسی مذہب کے افکار پہ گھٹنے ٹیکے گا، اپنا خالی پن محسوس کرے گا اور یہ کمی پوری کرنے کو ایک دن تو آخر کسی نا کسی نظریہ کو قبول کرے گا ہی۔ اور انہوں نے تن من دھن کی بازی لگائی اپنوں کے گلے کٹتے ہو دیکھتے رہے صرف اور صرف آنے والی صدیوں کی فتح اور حکمرانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ دہائیوں کی قربانی دیتے رہے صدیوں کی حکمرانی کی خاطر۔
لیکن صرف مسلمان ہی نہیں ہندو، عیسائی، بدھ مت اور مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جواس وقت صرف سازشوں میں پنپ رہا تھا سبھی پوری طرح اس صورتِ حال کا ادراک کیے ہوئے تھے، سب اسی کوشش میں تھے کہ یہ دودھ دیتی گائے ان کے کھیت میں آ جائے۔
لیکن ان کچھ دہائیوں کا نقصان اسلام کا شدید ترین نقصان ثابت ہوا، اسلام کو شدید ترین نقصان پہنچا۔ تاریخ کے صفحوں نے ہی مجھ ادنیٰ طالب علم کے کانوں میں سرگوشی کی کہ منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد کے اصل محرکات میں کس کی سازشیں شامل تھیں۔ علم کے خزانوں سے سینے منور کرتی کتابوں نے دریا سیاہ کر کے گواہی دی کہ غیروں سے زیادہ اس میں اپنے سازشی شامل تھے جن کو بغداد میں اسلام کے اس فرقے کا عروج قبول نہیں تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے، اور پھر جب فتح کے بعد منگولوں نے اپنے ہی دو مسلمان وزیر بھائیوں میں سے ایک کو بغداد میں اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑا تو وہ سازشی گروہ آخر اس ہونہار وزیر کو قتل کروا کر ٹھہرا منگولوں کے ہاتھوں اور وہ بھی ایسا کہ بغداد کی گلیوں میں اس سیاہ رو کو رگیدا گیا۔
پھر وقت نے ثابت کر دکھایا کہ منگول کچھ ہی نسلوں بعد فاتح ہو کر بھی مفتوح ہو گئے حق کی سچائی سے۔ منگول ، منگول نہ رہ سکے اور مغول ہوتے ہوئے مغل ہو گئے، ان کے ساتھ اسلام کی ترقی اور فلاح کے بجائے وہ لوگ زیادہ جڑے رہے جنہیں اسلام کے نام کا اقتدار چاہیے تھا اور جو اسلام کا اقتدار دیکھنا چاہتے تھے، فنی و علمی ترقی نہیں۔ بغداد کی درسگاہوں کی تباہی اسلام کی ترقی کا فُل اسٹاپ ثابت ہوا۔
عصرِ حاضرکے کینوس پہ رنگ توپچھلی کچھ صدیوں میں ہی سجنا شروع ہو گئے تھے، لیکن منظر گزشتہ صدی میں واضع ہوئے اور اب شاہکار کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
سب واضع ہے کہ عالمی منظر نامے سے کس طرح خلافتِ عثمانیہ کا اختتام کیا گیا اور اسرائیل کا ناجائز وجود مسلمانوں پر تھوپ دیا گیا۔ اس کے بعد بھی ان کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ اسلام سے ایک ہی خطرہ ہے اور وہ ہے ان کے اتحاد کا۔ دوبارہ سے ایک خلیفہ کے ماتحت ہونے کا مطلب یہی تھا کہ اس ترقی کے دور میں اسلام کا عروج باقیوں کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔ لہٰذا سب کو ان کی انفرادی طاقت کا مزہ چکھایا گیا، اقتدار کے نشے کی ڈوز دی گئی اور انفرادی حثیت میں رہنے کے مزے سمجھائے گئے۔ نتیجتاً وہ سب تنظیمیں تو بنتی ٹوٹتی رہیں جن سے سامراج کے مقاصد بنتے رہے اور پورے ہوتے رہے لیکن خلافتِ عثمانیہ کی آواز دوبارہ نہ اٹھنے دی گئی۔ اسرائیل کے آس پڑوس میں ایک فرقے کے عوام کی جس طرح سے بیخ کنی کی گئی اور کی جا رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کیوں کہ اسرائیل امریکہ کو خطرہ صرف اور صرف خلافتِ عثمانیہ کی آواز بلند ہونے سے ہے۔
آرٹسٹ نے اب کینوس پہ خاکہ مکمل کر لیا تھا اور اب اس کے خال و خد واضع ہونے شروع ہو گئے تھے۔
نام نہاد اور کرائے کے مسلمانوں سے ایسے ایسے کارنامے انجام دلوائے گئے کہ عوام کو' کانا' راجہ اب بینا نظر آنے لگا ہے اور آنکھوں والا نابینا کیوں کہ اندھوں کی پرچھائیاں آنکھوں والوں کو چھپا چکی ہیں۔
عثمانی خلافت ختم کرنے کے بعد جتنے منظم طریقے سے خلافتِ عثمانیہ کے لیے اٹھنے والی ہر آواز دبانے کی کوشش کی گئی شاید ہی کبھی کسی تنظیم کے خلاف اتنا منظم نیٹ ورک بنا ہو۔
خلافت عثمانیہ اور مسلمانوں کی یک جہتی اور اتحاد کے لیے برسرِ پیکار تنظیم حزب التحریر (کہا جاتا ہے کہ اخوان المسلمین اور حزب التحریر دونوں ایک ہی تنظیم کے دو نام ہیں) وہ واحد جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی ہر حکومت میں ہر سطح پہ مکمل پابندی کا شکار رہی صرف انہی کو کھلواڑ کی اجازت ملی جن سے امریکہ، اسرائیل، ایران یا سعودی عرب وغیرہ کے انفرادی مقاصد پورے ہو سکتے تھے۔
اسی طرح سعودی عرب بھی اپنا پورا زور اسی پر لگانا چاہتا ہے کہ یہ آواز دوبارہ نہ اٹھے کیوں کہ پہلے بھی ترکی جیسے ملک کے ہاتھ میں تھی حکمرانی اور اب عربوں کو یہ کیسے گوارہ تھا ، پہلے تو برداشت اس لیے ہو گیا تھا کہ خود کی کوئی علمی اور دنیاوی حثیت سوائے مدینہ اور مکہ کے والیوں کے اور کچھ نہ تھی۔ لیکن اب تو پیسا ہے نشہ ہے اقتدار ہے اور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کا مزہ ہے۔
ایران اور اس کے ہمنوا بھی کسی طرح نہیں چاہتے کہ ان کا مخالف فقہ پورے اسلام کا پھر سے علَم بردار کہلائے اس لیے ان کی بھی ساری کوششیں اسی سمت رہیں کہ ایسے ہر قدم کی حوصلہ شکنی کی جائے جو اسلام کے اتحاد کی یا خلافت کے قیام کی بات کرے۔
حزب التحریر کے پاکستانی نمائندے میری آخری معلومات تک پابندِ سلاسل تھے لیکن نہ تو ایسا کچھ منظرِ عام پہ ہے اور نہ ہی ڈسکس ہوتا ہے کیوں کہ اس سے امت پر براہِ راست فرق پڑنا ہے، حزب التحریر کی ویب سائٹس اور وہ ویب سائٹس جن میں ان کے یہاں کے رہنما جو کہ نوید بٹ ہیں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے مکمل طور پر بلاکڈ رہیں۔
کیا اُن میں سے کسی تنظیم کو ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جنہوں نے پاکستان کے عوام پر زمین تنگ کی ہوئی ہے اور جو اس سے قبل امریکہ، سعودی عرب ، ایران یا کسی بھی اور ملک کے مفاد میں کام کرتے رہے اور بعد میں طاقت پکڑ لی یا طاقت دے دی گئی کھلواڑ کرنے کی۔
میرے سامنے دو تکونیں ہیں ایک کو میں اسلام کی اندرونی تکون کہوں گا اور اسی کی مناسبت سے دوسری تکون پہ بات کروں گا۔ اسلام کی اندرونی تکون میں مجھے ایک کونے پہ ترقی پسند اسلام کے علم بردار نظر آتے ہیں جو کہ ترکی، مصر ، وغیرہ میں بھی موجود ہیں، دوسرے کونے پہ براجمان اقتدار کے فرعون ہیں یعنی سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک اور تیسرے کونے پہ ایران اور اس کے زیرِ اثر ممالک ہیں ۔
عرب ممالک اپنے اقتدار کی وجہ سے اور مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار ہونے کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ پھر سے خلافت قائم ہوتیسرا کونا اس تکون کا فقہی رنجش کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ خلافت دوبارہ قائم ہو اور امت میں اتحاد ہو۔ اور پہلا کونا جسے خلافت بھی چاہیے مذہب کا بول بالا بھی چاہیے اور ٹھیکے داروں سے نجات بھی چاہیے وہ ترقی چاہتا ہے اسلام چاہتا ہے اور عزت اور اتحاد چاہتا ہے وہ ہر طرف سے زبوں حالی کا شکار ہے اور دشمنوں میں گھِرا ہوا ہے۔
اب دوسری تکون جو میں سمجھتا ہوں وہ خلافت کے مخالفین کی ہے، خلافت کے خلاف اتحاد کی تکون بھی بہت بڑی ہے جس میں ایک سربراہی کونا سنبھال رکھا ہے اسرائیل بشمول امریکہ وغیرہ دوسرا وہ مذہبی اقتدار کے فرعونوں اور ٹھیکیداروں کا گروہ یعنی سعودی عرب وغیرہ اور تیسرا فقہی رنجش یعنی ایران وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اندھے ہیں اور ہم نے خود ہی آنکھیں موند لیں اور ذہن کے دروازے بند کر دیے ہیں تو آرٹسٹ کو کیوں نہ موقع ملے ہمیں بیوقوف بنانے کا جب ہم خود ہی تلُے ہیں۔ میری آنکھیں بھی بند ہیں میرا ذہن الجھا ہے میں ماننے پر تیار نہیں کہ اسلام حق کی خاطر مجھے میری ہی اتنی قیمتی جان لٹانے کا حکم دیتا ہے، ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کہتا ہے بھلا میں اور اتنے آرام اور سکون سے رہتا کسی لڑائی جھگڑے میں پڑوں-ہوں!!، نمازوں کا حکم دیتا ہے، میں آج یہ کہتا ہوں کہ اسلام تجارت نہیں کہ نماز پڑھی اور اللہ سے کچھ مانگا، میں یہ باتیں کرتا ہوں کہ اسلام میں غلامی اور جبر نہیں کہ ہر حال میں اللہ کے سجدے کرنے ہیں۔ میں تو آج یہی کہتا ہوں کہ اللہ کو ہمارے سجدوں کی کیا ضرورت وہ بڑا بے نیاز ہے بڑا بخشنے والا ہے نماز کے بغیر ہی معاف کر دے گا۔
میں آج دلیلیں مانگتا ہوں اپنے کولیگز سے اور اپنے کلاس فیلوز سے اپنے پڑوسیوں سے کہ بتاؤ کہاں میوزک حرام ہے، کہاں موسیقی کی ممانعت ہے، کہاں رقص سے منع کیا گیا، کیوں کہ انہوں نے تقریباََ ویسی ہی بات کرنی ہے جیسی میں سننا چاہتا ہوں کسی پابندی سے بچنے کے لیے یا شاید ان کا علمی قد اتنا ہی ہو کہ جو بات وہ کریں اس کا میں منہ توڑ جواب بھی دے ماروں۔ مجھے مصوری کا شوق ہے اور میں انہی لوگوں سے فتوے بھی لیتا ہوں جو میری مصوری پسند کرتے ہیں۔ اور انہوں نے مجھے حقائق کی روشنی میں خود بتایا کہ مصوری حرام نہیں یہ بعد کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
میں آج لوگوں سے پوچھتا پھرتا ہوں کہ پردہ کتنا حکم ہے کتنا ضروری ہے اور کتنا من گھڑت شاید کہ کہیں چُھوٹ مل جائے۔ اور پھر ہم مل کر زنانیوں کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔ جسم کا کیا پردہ۔
حقیقت یہ ہے کہ میں بالی ووڈ، ہالی ووڈ کی فلموں سے دور نہیں رہ سکتا، حقیقت یہ ہے کہ مجھے سلیو لیس قمیصوں میں لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اجلے رنگوں سے جھلکتی بلاؤز اور پینٹیز بہت بھاتی ہیں پتہ نہیں میرے کون سے جذبے کی تسکین ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ٹی وی کے بغیر رہ نہیں سکتا، مخلوط طرزِ زندگی مجھے بہت راغب کرتی ہے۔ اور ڈراموں، فلموں اور میوزک ویڈیوز میں مجھے کپڑے مختصر ہی اچھے لگتے ہیں۔
اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اب اسلام کچھ آؤٹ آف ڈیٹ لگنا شروع ہو گیا ہے۔ کیسا مذہب ہے کہ میرے ساتھ چل نہیں سکتا اس زمانے کو روشوں کو سمجھ نہیں رہا۔
اور میں ایسا سمجھوں بھی کیوں نا، آرٹسٹ نے تشریح ہی ایسی سمجھا دی ہے اب۔ وہی سچ اور اچھا لگنے لگا ہے جو آرٹسٹ بتاتا ہے۔ اور میں خود سے تخیل کو زحمت کیوں دوں میں فکری موت تو مر چکا ہوں کب سے۔ میں تو یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کب انگریز نے مجھے اقلیت سے اکثریت میں بدل دیا۔ آسائشیں، سہولتیں، چُھوٹ، کم تکلیف، عیاشی، گانا بجانا، جہاد جیسے فلسفے سے خلاصی، اور دیگر پابندیوں سے خلاصی اور مدر پدر آزادی ہی وہ سب تھا جو مجھے چاہیے تھا اور مجھے جہاں مل رہا ہے میں وہیں دوڑے چلا جاتا ہوں۔ انگریز نے تحریکِ آزادی کو ناکام کرنے کے لیے لوگوں کو مرکزیت سے توڑ کر جس نئے کنوئیں کی طرف ہانکا وہاں وہ سب کچھ تھا جو ایک انسان کو چاہیے۔ آخر پچھلی کتنی صدیوں سے ہم اسلام قبول کرنے کے بعد اتنی ساری پابندیاں سہہ رہے تھے، ہمارے ہندو رشتہ دار، پڑوسی دوست ناچ گانا سب سنتے اور ہمیں بتاتے اور ہم شرمندہ شرمندہ ان کو نا تلاوت سنا سکتے کہ وہ تو مسلمانوں کے لیے ہے اور نا گانا بجانا کر سکتے اور ناچ سکتے اور نہ نچا سکتے۔ لیکن اب جب اسلام میں ہی وہ سب آزادیاں ملنی شروع ہو گئیں جو مجھے ہندو، بدھ اور عیسائی ہوتے ہوئے تھیں تو میں کیوں نہ استفادہ کرتا۔ سو میں نے کیا۔ کیا تھا اگر فرقہ نیا تھا یا کسی دوسرے فرقے شاخ تھا، تھا تو تسلیم شدہ اسلام نا۔۔
اب ہم یہ سب نہیں چھوڑ سکتے اس لیے جو ہمیں چھوڑنے کا کہتا ہے وہ گمراہ ہے، وہ غاروں سے آیا ہے اور وہ جاہل ہے۔ میں آنکھیں اور دماغ بند کیے بیٹھا ہوں کہ کہیں کوئی مجھ سے یہ آسائیشیں چھننے کی بات نہ کر بیٹھے۔ یہ مست مست ٹھمکے، یہ ایکشن رومانس اور فینٹیسی سے بھر پور فلمیں مجھ سے نہ چھن جائیں۔
سنا ہے کسی حدیث میں ذکر ہے کہ بہت سے فرقے ہوں جائیں گے اسلام میں لیکن ایک فرقہ ہی حق پر ہو گا اور آخر دور میں اس فرقے پر زمین تنگ کر دی جائے گی اور سب اس کے دشمن ہو جائیں گے حق بات بری سمجھی جائے گی۔ شاید ایسی کوئی حدیث نا ہو اور یہ حدیث بھی اُس زیرِ عتاب فرقے نے اپنی سچائی ثابت کرنے کو پھیلا رکھی ہو۔ لیکن قصہ اب کا تو یہ ہے کہ جہاد ایک جرم ہونے لگا ہے، پردہ پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، میوزک تو اب ہمارے بھی دین کا حصہ ہے کیوں کہ آرٹسٹ نے ہمارے سامنے جو رنگ بکھیرے انہوں نے ہمیں یہی سمجھایا ہے۔
میں شام میں ہونے والی بد ترین خون ریزی دیکھ رہا ہوں، مجھے پتہ ہے فلسطین میں کتنا خون بہہ چکا ہے اور کتنا بہہ رہا ہے اور مزید بہے گا، میں لیبیا میں دیکھ چکا ہوں، یمن میں دیکھ لیا سب، افغانستان میں دیکھتا رہا، مصر میں جو بربریت قائم کی جا رہی ہے اور جو سرخی ہر طرف چھائی ہے میں دیکھ رہا ہوں لیکن میں وہ سب بھی سمجھ رہا ہوں جو مجھے آرٹسٹ سمجھانا چاہتا ہے کہ یہ سرخ خون کا رنگ کل کا امن لے کر آئے گا، اس بہنے دو بہے گا تو امن آئے گا۔ خوشیاں آئیں گی۔ میں یہ نہیں سمجھنا چاہتا کہ ان سب ممالک سے ایک فرقے کی حکومت ختم کر کے یا اس کی حمایت ختم کر کے دوسرے فرقے یا اس کی حمایتی حکومتیں ہی کیوں لائی جا رہی ہیںۢ۔
شاید یہ سب تب ہی سمجھ آئے جب آرٹسٹ یا یہ شاہکار تاریخ کے صفحوں کا حصہ بن جائے۔
تحریر: امجد میانداد
آخری تدوین: