سید فصیح احمد
لائبریرین
چاند کی چودھویں کا پہرِ جوبن تھا۔ سمند کے ساحل کنارے ایک لڑکی اپنے محبوب کی گود میں سر رکھے چاند کو دیکھ رہی تھی اور لڑکا اپنی محبوبہ کی سیاہ گھن گھور زلفیں سلجھا رہا تھا۔ اس روح پرور ماحول میں سمندر، لہروں کے اضطراب پر راگ مدہوشی کے مد و جزر الاپ رہا تھا۔ کئی کوس دور بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیئے موجود روشن مینارہ مستی بھری لہروں پر پیلی روشنی پھینکتا تو یوں لگتا کہ کوئی سنہری پری سطح آب سے آزاد ہونے کے لیئے تڑپ رہی ہے۔ دور کھڑے ناریل اور صنوبرِ ہندی کے پیڑ خاموشی سے سر جوڑے ان اُلفت کی مورتیوں کو دیکھ رہے تھے۔ دور کہیں کوئی ماہی گیر بانسری پر مدہر سی راگنی چھیڑ رہا تھا۔ اس کی آواز لہروں کے اودھم میں کبھی کبھی دب بھی جاتی۔ وہ لڑکا بہت دیر سے اپنی محبوبہ کے رخِ روشن سے بے کل لٹ ہٹانے میں مگن تھا۔ مگر لٹ تھی کہ اس رُخِ نازنیں کے ہر مرمریں اتار چڑھاؤ پر تڑپتی جاتی، کوئی پل چین نہ پا رہی تھی۔
" سُنو! "
لڑکے نے اس پیکر مسرت کو مخاطب کیا،
" ہمم ! بولو ! "
حرفِ اِذن میں ایک ادا تھی، اک احساسِ دل لگی تھا۔
" میں تُم سے بہت پیار کرتا ہوں! "
لڑکی کے سفید گالوں میں پڑے کٹورے مسکان کے قبضہ سے کچھ اور گہرے ہو گئے۔
" کتنا؟ " ۔۔۔ انداز میں اب کے چلبلا پن تھا۔
ایک ہوا کا جھونکا جو دونوں کے درمیان سے گزرا تو مخملی بدن نے اِک جھرجھری لی، وقت گزرنے کے ساتھ شائد فضا میں خنکی در آئی تھی۔ لڑکے کے پاس کوئی اوڑھنی نہیں تھی، اس نے اپنے دستانے اور موزے اتار کر اس جاذب نظر کو پہنا دیئے۔
" گُمانِ انسانی جہاں تک پہنچے، وہاں سے پرواز کرتا ہے! " ۔۔۔ اس کے لہجے میں یقین کا لمس تھا !
پری پیکر بیتابی سے اُٹھ بیٹھی، پھر اپنے محبوب کی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا !
" اور کہاں تک جاتا ہے؟ "
" وہاں تک سوچ کا جانا ممکن نہیں! "
۔۔۔ لڑکے نے نیل گگن سی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا۔ لڑکی کچھ نہ بولی ، لیکن ایک عجب لبھانے والا تاثر تھا چہرے پر، مسکان بھرے لب اور سکون ہی سکون ۔۔۔ دو زانو بیٹھ کر اس نے اپنے محبوب کو تکیے کی دعوت دی۔ لڑکا ریت پر یوں دراز ہوا کہ اس کا سر اس محورے محبت کی جھول میں سما گیا۔ حسینہ نے جھک کر اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔ کچھ دیر خاموشی سے دونوں کی نظریں سمندر پر اڑتے پرندوں کا پیچھا کرتی رہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے محبت کرنے والوں نے محفل سی سجا رکھی ہو۔
" ایک بات کہوں؟ " ۔۔۔ لڑکی کے لب ہلے۔
" ہاں بولو! "
" میں بھی تُم سے بہت پیار کرتی ہوں! " ۔۔ یہ کہہ کر اس نے چہرے کا رخ روشن مینارے کی طرف کر لیا، جیسے کچھ دکھانے سے کترا رہی ہو۔
" کِتنا؟ "
لڑکے نے پوروں سے اس دلربا کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دھیرے سے اپنی طرف کیا، اس کے لہجے میں عمیق اشتیاق تھا۔ پری پیکر نے نچلا لب دندان میں یوں گرفت کر رکھا تھا جیسے کوئی راز اگل دینے کا خطرہ لاحق ہو۔ پھر اچانک اس کے گداز ہونٹوں نے اِک بھرپور انگڑائی لی۔ سفید موتیوں کی لڑی ان میں یوں لگ رہی تھی جیسے کسی نے مخمل کے دو پلوں میں مرمریں سے کچھ پارے کمال قرینے سے رکھ دیے ہوں۔
" یوں مسکراتی کیوں ہو! "
لہجے میں دل لگی تھی۔ کوئی جواب نہ آیا۔ اب مسکان کے سنگ اس گلنار کی شفاف نیلگوں آنکھیں اِک عجب ژرف لیئے تھیں۔
" سنو! " ۔۔ اس نے اپنی کومل انگلیاں لڑکے کے بالوں میں بھر دیں۔
" ہاں بولو! " ۔۔۔ اس مجسمِ دلکش کے مخمور چہرے پر پھر وہی حیا بھرا منظر تھا! جھلمالاتا مکھڑا ، کسمساتے لب ، کومل گالوں میں ابھرتے بھنور ، خنک ہوا سے لہراتے سیاہ گیسو ۔۔۔ اظہار خیال کی کشمکش !
" مت پوچھا کرو! ۔۔۔۔ بس میری گود میں سر رکھ کر سو جاؤ "
اپنے گیسو پھیلا کر اس نے کومل گال اپنے محبوب کے چہرے پر رکھ دیئے اور دونوں پنچھیوں نے آنکھیں موند لیں۔
" سُنو! "
لڑکے نے اس پیکر مسرت کو مخاطب کیا،
" ہمم ! بولو ! "
حرفِ اِذن میں ایک ادا تھی، اک احساسِ دل لگی تھا۔
" میں تُم سے بہت پیار کرتا ہوں! "
لڑکی کے سفید گالوں میں پڑے کٹورے مسکان کے قبضہ سے کچھ اور گہرے ہو گئے۔
" کتنا؟ " ۔۔۔ انداز میں اب کے چلبلا پن تھا۔
ایک ہوا کا جھونکا جو دونوں کے درمیان سے گزرا تو مخملی بدن نے اِک جھرجھری لی، وقت گزرنے کے ساتھ شائد فضا میں خنکی در آئی تھی۔ لڑکے کے پاس کوئی اوڑھنی نہیں تھی، اس نے اپنے دستانے اور موزے اتار کر اس جاذب نظر کو پہنا دیئے۔
" گُمانِ انسانی جہاں تک پہنچے، وہاں سے پرواز کرتا ہے! " ۔۔۔ اس کے لہجے میں یقین کا لمس تھا !
پری پیکر بیتابی سے اُٹھ بیٹھی، پھر اپنے محبوب کی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا !
" اور کہاں تک جاتا ہے؟ "
" وہاں تک سوچ کا جانا ممکن نہیں! "
۔۔۔ لڑکے نے نیل گگن سی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا۔ لڑکی کچھ نہ بولی ، لیکن ایک عجب لبھانے والا تاثر تھا چہرے پر، مسکان بھرے لب اور سکون ہی سکون ۔۔۔ دو زانو بیٹھ کر اس نے اپنے محبوب کو تکیے کی دعوت دی۔ لڑکا ریت پر یوں دراز ہوا کہ اس کا سر اس محورے محبت کی جھول میں سما گیا۔ حسینہ نے جھک کر اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔ کچھ دیر خاموشی سے دونوں کی نظریں سمندر پر اڑتے پرندوں کا پیچھا کرتی رہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے محبت کرنے والوں نے محفل سی سجا رکھی ہو۔
" ایک بات کہوں؟ " ۔۔۔ لڑکی کے لب ہلے۔
" ہاں بولو! "
" میں بھی تُم سے بہت پیار کرتی ہوں! " ۔۔ یہ کہہ کر اس نے چہرے کا رخ روشن مینارے کی طرف کر لیا، جیسے کچھ دکھانے سے کترا رہی ہو۔
" کِتنا؟ "
لڑکے نے پوروں سے اس دلربا کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دھیرے سے اپنی طرف کیا، اس کے لہجے میں عمیق اشتیاق تھا۔ پری پیکر نے نچلا لب دندان میں یوں گرفت کر رکھا تھا جیسے کوئی راز اگل دینے کا خطرہ لاحق ہو۔ پھر اچانک اس کے گداز ہونٹوں نے اِک بھرپور انگڑائی لی۔ سفید موتیوں کی لڑی ان میں یوں لگ رہی تھی جیسے کسی نے مخمل کے دو پلوں میں مرمریں سے کچھ پارے کمال قرینے سے رکھ دیے ہوں۔
" یوں مسکراتی کیوں ہو! "
لہجے میں دل لگی تھی۔ کوئی جواب نہ آیا۔ اب مسکان کے سنگ اس گلنار کی شفاف نیلگوں آنکھیں اِک عجب ژرف لیئے تھیں۔
" سنو! " ۔۔ اس نے اپنی کومل انگلیاں لڑکے کے بالوں میں بھر دیں۔
" ہاں بولو! " ۔۔۔ اس مجسمِ دلکش کے مخمور چہرے پر پھر وہی حیا بھرا منظر تھا! جھلمالاتا مکھڑا ، کسمساتے لب ، کومل گالوں میں ابھرتے بھنور ، خنک ہوا سے لہراتے سیاہ گیسو ۔۔۔ اظہار خیال کی کشمکش !
" مت پوچھا کرو! ۔۔۔۔ بس میری گود میں سر رکھ کر سو جاؤ "
اپنے گیسو پھیلا کر اس نے کومل گال اپنے محبوب کے چہرے پر رکھ دیئے اور دونوں پنچھیوں نے آنکھیں موند لیں۔