کاشفی

محفلین
جامِ رنگیں
(بہزاد لکھنوی)
آرہے ہو اور نظر ہے جام پر
مر مٹا میں لغزشِ ہرگام پر

بےسبب آنسو نہیں بہتے مرے
رو رہا ہوں میں دلِ ناکام پر

زاہدِ ناداں نے لا کر صدقے کئے
لاکھ تقوے، ایک رنگیں جام پر

ہو گیا میخانے میں کتنا ہجوم
ایک آوازِ صلائے عام پر

عشق کی آخر نظر پڑ ہی گئی
حُسن کے آغاز اور انجام پر

بےخودی مجھ کو سمجھنے دے ذرا
مست ہوتا ہوں میں کسی کے نام پر

خوش کہاں ہے، ہائے بہزادِ حزیں
ہنس رہا ہے آج صبح و شام پر
 
Top