(آزادانہ 'منصفانہ ' غیرجانبدارانہ)-------قوّتِ فیصلہ

یاسر شاہ

محفلین

آزادانہ 'منصفانہ ' غیرجانبدارانہ
قوّتِ فیصلہ


وقت پر فیصلہ کرنا اور صحیح فیصلہ کرنا تو اللہ جلّ جلالہ کی نعمت عظمیٰ ہے ہی محض قوّتِ فیصلہ بھی ایک بڑی نعمت ہے -ہمارے ارد گرد بہت سارے لوگ ایک عالمِ تذبذب میں اپنی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں-نہ جانے کیوں ایسا کرتے ہیں کہ " لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ'' کی چلتی پھرتی نظیریں بن جاتے ہیں- واللہ ایسے کئی لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے کہ اوّل تو ان سے فیصلہ نہیں ہوتا 'اگر کر بھی لیں تو اس پر پچھتانے ہی میں عمر گنوا دیتے ہیں-مولانا روم کے ایک شعر کا حاصل بھی کیا خوب ہے کہ ''اگر'' کی شادی ہوئی ''مگر" سےاور ان کے ہاں پیدا ہوا ''اے کاش" -عکس اس کا وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ جلّ جلالہ اپنے تعلّق کی بنا پر اس قوّت فیصلہ سے بہرہ مند کرتے ہیں -ایک بزرگ فرماتے ہیں :

مرضی تری ہر وقت جسے پیش نظر ہے
پھر اس کی زباں پر نہ اگر ہے نہ مگر ہے


القصّہ وہ اندر کی صلاحیت جو ہمارے جمود کو تحریک پہ ابھار دے یا ہماری تحریک کو سکون فراہم کرے قوّتِ فیصلہ کہلاتی ہے -کافر نیوٹن کا نظریۂ انرشیا بھی غضب ہے کہ چیزیں اپنی اصل پہ رہتی ہیں' جب تک بیرونی مداخلت نہ ہو -ایک ساکن جسم چاہتا ہے کہ ساکن رہے تا وقتیکہ کوئی بیرونی قوّت اس پر اثر انداز نہ ہو اور ایک یکساں متحرک جسم یوں ہی چلتا رہنا چاہتا ہے 'جب تک کوئی بیرونی قوّت مداخلت نہ کرے -

انسان چونکہ محض چیز نہیں لہٰذا اس کے اندر بھی ایک قوّت ہوتی ہے جو بیرونی قوّتوں سے اثر انداز ہو کر کار فرما ہوتی ہے -دیکھئے غالب کے دو اشعار انسانی تناظر میں نیوٹن کے نظریے کی وضاحت کرتے ہیں -مستقل جمود سے تنگ آ ئے تو کہا :

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

پھر حرکت کی یکسانیت سے بھی گھبرا اٹھے -چنانچہ اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے

کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

انسان بہرحال انسان ہے -ابن الوقت بن کر حالات کے دھارے میں بہنا اس کی شان کے خلاف ہے -وہ متاثر تو ہوتا ہے مگر زیادہ دیر متاثر نہیں رہ سکتا جلد مؤثر بن جاتا ہے -بیرونی عوامل اس کے اندر کے جذبے کو بروئے کار لا کر بڑی تبدیلیوں کا محرک بنتے ہیں-یہی جذبہ' اگر اسے صحیح رخ نہ ملے تو بغاوت بن کر نقصِ امن کا سبب بنتا ہے - اگر ہمارے اندر کچھ کرنے کاجذبہ ہو ' موقع بھی میسّر آئے اور اسباب بھی مہیّا ہو جائیں تو گویا "رسم دنیا بھی ہے' موقع بھی ہے' دستور بھی ہے" -ملکی انتخابات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے -نہ توڑ پھوڑ کی نہ تصادم اور تبدیلی کا امکان بھی روشن -

صاحبو ! ووٹ نہ دینا ایک فیصلہ تو ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے قطعاً قوّتِ فیصلہ درکار ہی نہیں -یہ تو دائم پڑے رہنا در پر ہے' یا گردش مدام ہے -یہ ایسا ہی ہے کہ نرم و ملائم بستر پہ سو رہے ہیں،فجر میں آنکھ کھلی ، پھر سو گئے-قوّت فیصلہ تو وہ ہے کہ ہم کو فجر کے لئے اٹھ کھڑا ہونے پہ ابھار دے -اسی طرح ہم اگر ٢٥ جولائی کو یہ سوچ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گئے کہ ہمارے اکیلے ووٹ سے کیا ہوتا ہے اور سب ہی امیدوار گڑ بڑ ہیں تو ہم نے کیا کمال کیا - ہم نے سرے سے قوّت فیصلہ سے کام ہی نہیں لیا -ہاں' وہ جذبہ لائق تحسین ہے اور عالی قوّت فیصلہ کی دلیل ہے جو ہمیں ٢٥ جولائی کی صبح کو نیند قربان کرنے پہ آمادہ کرے اور پولنگ اسٹیشن کی لمبی قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنے کے مجاہدے پہ ابھار دے-

ووٹ ہماری شرعی ذمّہ داری ہے -یہ ایک گواہی ہے جو دیانت سے دینی ہے کہ ان امید واروں میں نسبتاً کون بہتر ہے -موجودہ سیاسی تناظر میں یہ دو مقاصد میں سے کسی ایک کے حصول کا ذریعہ ہے کہ ہمارے وطن کا آئندہ سربراہ یا تو اچھا آدمی ہو یا نسبتاً کم برا ہو -یوں نہ صرف غلط ووٹ دینے والے بلکہ ووٹ نہ دینے والے بھی ہر ایک مقصد میں ناکامی کا با عث ہیں اور برعکس کا موجب بھی -کیا خوب کہا جون نے :


ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
 
Top