نیرنگ خیال
لائبریرین
"صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔"
(محمد علی جناح)
میں جانتا ہوں کہ آپ سب کو لفظ آزادی کے مفہوم کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں اسی خوش گمانی کو قائم رکھنا چاہتا ہوں کہ تمام افرادِ پاکستان آزادی کے تصور اور اس کی قدر و قیمت سے بخوبی آشنا ہیں۔ مگر کیا کروں کہ میرے سامنے جب سماجی، معاشرتی اور سیاسی واقعات آتے ہیں تو میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ لفظ آزادی کے معانی اور قدروقیمت کا تو ذکر ہی کیا، شاید ابھی تک میرے ملک کے لوگ اس لفظ سے ہی آشنا نہیں۔ ہمارے گزرے ستر برس اس بات کے غماز ہیں کہ ہم نے اپنے لیڈر کے آخری الفاظ کو بھی سنجیدہ نہیں لیا۔ ان ستر برس کی داستاں یہ بتاتی ہے کہ ہم نے مشترکہ کوشش اور مقدر پر یقین تو کیا کرنا تھا، ہم نے خواب دیکھنے ہی چھوڑ دیے۔ ہماری گفتگو زبانی جمع خرچ تک محدود ہوتی چلی گئی اور عملی طور پر ہر آنے والا دن ہمارے لئے بےیقینی کا سورج لایا، جس کی شامیں یاس و ناامیدی کی شفق لیے ہیں۔ ہر سال ہم بحثیت قوم اس دن ارادے تو باندھتے ہیں۔ خود سے وعدے بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا نہیں کہ ان میں صداقت نہیں ہوتی۔ مگر گزرتے دن ان وعدوں پر وقت کی دھول ڈال دیتے ہیں اور یوں یہ سب طاق نسیاں میں دھرا رہ جاتا ہے۔ اگلے سال ان وعدوں اور ارادوں کو اٹھا کر جھاڑا جاتا ہے۔ انہی وعدوں ارادوں کی نئے لفظوں نئے لہجوں سے آرائش کی جاتی ہے۔
میں مایوسی نہیں لکھنا چاہتا۔ میں قنوطیت کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتا لیکن ذرا اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کہ کیا واقعی سچ میں آپ نے کبھی اس معاشرے کی فکر کی ہے؟ ایسا کوئی کام کیا ہے جو معاشرے میں بہتری لانے کا سبب ہو۔ کبھی کسی غمگیں کے آنسو پونجھے ہو؟ کبھی کسی بھوکے کے منہ میں نوالا ڈالا ہو۔ یوں ہی کبھی آپ کسی انجان جنازے میں شامل ہوگئے ہوں۔ کبھی آپ نے سڑک کنارے کسی چھوٹے سے بچے کو ہاتھ میں غبارے و کھلونے لیے بیٹھا دیکھ کر اپنی سواری روکی ہو۔ اور اس سے پوچھا ہو کہ ہاں بیٹا! تم بیچنے لائے ہو تو ایک طرف اداس کیوں بیٹھے ہو۔ غربت اپنی جگہ، مگر ایسی اداسی نے کیوں آن گھیرا ہے؟ یوں چپ چاپ کیوں بیٹھے ہو؟کبھی یوں ہی بے سبب کسی ہسپتال میں جا کر آپ نے موت سے لڑتے ہوئے مریضوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہو یا پھر تھیلیسما کے مریض بچوں کے پاس جا کر کوئی دن گزارا ہو؟
ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ سب ایک اچھی زندگی کے خواہاں ہیں۔ ایک ایسی زندگی جس میں آپ کی ، آپ کے بچوں کی اور گھر والوں کی ہر خوشی شامل ہو۔ مگر بدقسمتی سے مجھے اس اچھی زندگی کی تعریف میں ملک کا نام نظر نہیں آتا۔ مجھے اس اچھی زندگی کی تعریف میں وہ اداس چہرے کہیں نظر نہیں آتے جو دن بھر کسی غیبی مدد کی آس لئے رات کے بوجھل قدموں تلے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس تصور آزادی میں آپ کی سیاسی آزادی نظر نہیں آتی۔ مجھے اس تصور آزادی میں آپ کی اخلاقی آزادی نظر نہیں آتی۔ آپ کی سمت دوسرے متعین کرتے ہیں۔ آپ کا معیارِ سچ جھوٹ کی تکرار ہے۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ دن میں دس اچھی پوسٹس بھی شئیر کرتے ہیں۔ حوصلہ بڑھانے والی ویڈیوز اور تصاویر بہت خوشی سے سب کو دکھاتے ہیں۔ احادیث اور قرآنی آیات آگے بڑھانے میں بھی آپ کا دامن تنگ نہیں۔ اور یوم آزادی پر تو جھنڈے بھی پہنے پھرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد اور پاکستان کا مطلب کیا کہ نعرے بھی بخوشی لگا لیتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ گزشتہ عرصہ سے، میں محض بکواس پڑھ اور سن رہا ہوں۔ ایک دوسرے کے لیے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس کو کسی بھی طرح سے اشرافیہ کی زبان نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک دوسرے کے لیے زہر اگلا جا رہا ہے۔فضا نفرت سے تعفن زدہ ہے۔ رویوں نے اظہار کو مسموم کر رکھا ہے۔ ایسے میں اچھے کام، اچھے رویے اور اچھے لوگ خلائی مخلوق محسوس ہونے لگے ہیں۔ کس کو سراہا جائے۔ کس کی تعریف کی جائے۔ کس کو مثال بنا کر پیش کیا جائے۔ معاشرے سے زندہ مثالیں ڈھونڈے نہیں ملتیں۔ اور اگر بدقسمتی سے کوئی اچھا شخص زندہ ہی ہے تو اس کے مرنے کا انتظار جاری ہے تاکہ بعد از مرگ اس کی تعریف کی جا سکے، اس کو سراہا جا سکے۔ اس ریا کے تماشے میں وہی افضل ہے جو ننگا ہے۔
مجھے مسائل کا حل پیش نہیں کرنا۔ دانشور چلا چلا کر اپنے گلے چھیل چکے ہیں۔ مجھے تم سے یہ نہیں کہنا خدارا محبتوں کو فروغ دو، کیوں کہ کسی چیز کی ترغیب دینا اس کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔میں کیا کہوں، کیا لکھوں، کیا سمجھاؤں کہ میں خود اسی تعفن زدہ معاشرے کا جزو ہوں جس کے سوچ وخیالات نے اس فضا کو خوشگوار بنانے میں ابھی تک کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
میں ناامیدی کی ناؤ میں دہشت و خوف کے منجدھار میں پھنسی، نفرتوں کے بیج بوتی، محبتوں کے جنازے اٹھاتی، تشدد کے پھل کاٹتی اور زہر کے دریا بہاتی قوم کو ملک کی سترھویں سالگرہ پر مبارک دیتا ہوں۔ اور اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اب غیب سے اسباب پیدا کر۔ اب اس رات کی سحر کر۔ اب بےیقینی کے سائے اٹھا دے مولا۔ اس گمان و یاس کی دھند سے امید کا سورج طلوع کر۔ ہم پر اپنی پہچان آسان کر دے۔
آمین یا رب العالمین
(محمد علی جناح)
میں جانتا ہوں کہ آپ سب کو لفظ آزادی کے مفہوم کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں اسی خوش گمانی کو قائم رکھنا چاہتا ہوں کہ تمام افرادِ پاکستان آزادی کے تصور اور اس کی قدر و قیمت سے بخوبی آشنا ہیں۔ مگر کیا کروں کہ میرے سامنے جب سماجی، معاشرتی اور سیاسی واقعات آتے ہیں تو میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ لفظ آزادی کے معانی اور قدروقیمت کا تو ذکر ہی کیا، شاید ابھی تک میرے ملک کے لوگ اس لفظ سے ہی آشنا نہیں۔ ہمارے گزرے ستر برس اس بات کے غماز ہیں کہ ہم نے اپنے لیڈر کے آخری الفاظ کو بھی سنجیدہ نہیں لیا۔ ان ستر برس کی داستاں یہ بتاتی ہے کہ ہم نے مشترکہ کوشش اور مقدر پر یقین تو کیا کرنا تھا، ہم نے خواب دیکھنے ہی چھوڑ دیے۔ ہماری گفتگو زبانی جمع خرچ تک محدود ہوتی چلی گئی اور عملی طور پر ہر آنے والا دن ہمارے لئے بےیقینی کا سورج لایا، جس کی شامیں یاس و ناامیدی کی شفق لیے ہیں۔ ہر سال ہم بحثیت قوم اس دن ارادے تو باندھتے ہیں۔ خود سے وعدے بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا نہیں کہ ان میں صداقت نہیں ہوتی۔ مگر گزرتے دن ان وعدوں پر وقت کی دھول ڈال دیتے ہیں اور یوں یہ سب طاق نسیاں میں دھرا رہ جاتا ہے۔ اگلے سال ان وعدوں اور ارادوں کو اٹھا کر جھاڑا جاتا ہے۔ انہی وعدوں ارادوں کی نئے لفظوں نئے لہجوں سے آرائش کی جاتی ہے۔
میں مایوسی نہیں لکھنا چاہتا۔ میں قنوطیت کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتا لیکن ذرا اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کہ کیا واقعی سچ میں آپ نے کبھی اس معاشرے کی فکر کی ہے؟ ایسا کوئی کام کیا ہے جو معاشرے میں بہتری لانے کا سبب ہو۔ کبھی کسی غمگیں کے آنسو پونجھے ہو؟ کبھی کسی بھوکے کے منہ میں نوالا ڈالا ہو۔ یوں ہی کبھی آپ کسی انجان جنازے میں شامل ہوگئے ہوں۔ کبھی آپ نے سڑک کنارے کسی چھوٹے سے بچے کو ہاتھ میں غبارے و کھلونے لیے بیٹھا دیکھ کر اپنی سواری روکی ہو۔ اور اس سے پوچھا ہو کہ ہاں بیٹا! تم بیچنے لائے ہو تو ایک طرف اداس کیوں بیٹھے ہو۔ غربت اپنی جگہ، مگر ایسی اداسی نے کیوں آن گھیرا ہے؟ یوں چپ چاپ کیوں بیٹھے ہو؟کبھی یوں ہی بے سبب کسی ہسپتال میں جا کر آپ نے موت سے لڑتے ہوئے مریضوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہو یا پھر تھیلیسما کے مریض بچوں کے پاس جا کر کوئی دن گزارا ہو؟
ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ سب ایک اچھی زندگی کے خواہاں ہیں۔ ایک ایسی زندگی جس میں آپ کی ، آپ کے بچوں کی اور گھر والوں کی ہر خوشی شامل ہو۔ مگر بدقسمتی سے مجھے اس اچھی زندگی کی تعریف میں ملک کا نام نظر نہیں آتا۔ مجھے اس اچھی زندگی کی تعریف میں وہ اداس چہرے کہیں نظر نہیں آتے جو دن بھر کسی غیبی مدد کی آس لئے رات کے بوجھل قدموں تلے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس تصور آزادی میں آپ کی سیاسی آزادی نظر نہیں آتی۔ مجھے اس تصور آزادی میں آپ کی اخلاقی آزادی نظر نہیں آتی۔ آپ کی سمت دوسرے متعین کرتے ہیں۔ آپ کا معیارِ سچ جھوٹ کی تکرار ہے۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ دن میں دس اچھی پوسٹس بھی شئیر کرتے ہیں۔ حوصلہ بڑھانے والی ویڈیوز اور تصاویر بہت خوشی سے سب کو دکھاتے ہیں۔ احادیث اور قرآنی آیات آگے بڑھانے میں بھی آپ کا دامن تنگ نہیں۔ اور یوم آزادی پر تو جھنڈے بھی پہنے پھرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد اور پاکستان کا مطلب کیا کہ نعرے بھی بخوشی لگا لیتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ گزشتہ عرصہ سے، میں محض بکواس پڑھ اور سن رہا ہوں۔ ایک دوسرے کے لیے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس کو کسی بھی طرح سے اشرافیہ کی زبان نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک دوسرے کے لیے زہر اگلا جا رہا ہے۔فضا نفرت سے تعفن زدہ ہے۔ رویوں نے اظہار کو مسموم کر رکھا ہے۔ ایسے میں اچھے کام، اچھے رویے اور اچھے لوگ خلائی مخلوق محسوس ہونے لگے ہیں۔ کس کو سراہا جائے۔ کس کی تعریف کی جائے۔ کس کو مثال بنا کر پیش کیا جائے۔ معاشرے سے زندہ مثالیں ڈھونڈے نہیں ملتیں۔ اور اگر بدقسمتی سے کوئی اچھا شخص زندہ ہی ہے تو اس کے مرنے کا انتظار جاری ہے تاکہ بعد از مرگ اس کی تعریف کی جا سکے، اس کو سراہا جا سکے۔ اس ریا کے تماشے میں وہی افضل ہے جو ننگا ہے۔
مجھے مسائل کا حل پیش نہیں کرنا۔ دانشور چلا چلا کر اپنے گلے چھیل چکے ہیں۔ مجھے تم سے یہ نہیں کہنا خدارا محبتوں کو فروغ دو، کیوں کہ کسی چیز کی ترغیب دینا اس کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔میں کیا کہوں، کیا لکھوں، کیا سمجھاؤں کہ میں خود اسی تعفن زدہ معاشرے کا جزو ہوں جس کے سوچ وخیالات نے اس فضا کو خوشگوار بنانے میں ابھی تک کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
میں ناامیدی کی ناؤ میں دہشت و خوف کے منجدھار میں پھنسی، نفرتوں کے بیج بوتی، محبتوں کے جنازے اٹھاتی، تشدد کے پھل کاٹتی اور زہر کے دریا بہاتی قوم کو ملک کی سترھویں سالگرہ پر مبارک دیتا ہوں۔ اور اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اب غیب سے اسباب پیدا کر۔ اب اس رات کی سحر کر۔ اب بےیقینی کے سائے اٹھا دے مولا۔ اس گمان و یاس کی دھند سے امید کا سورج طلوع کر۔ ہم پر اپنی پہچان آسان کر دے۔
آمین یا رب العالمین