آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری اور مذاکرات پر تیار ہیں: براہمداغ، خیرمقدم کرتے ہیں : وزیر اعلی

آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری اور مذاکرات پر تیار ہیں: براہمداغ، خیرمقدم کرتے ہیں : وزیر اعلیٰ مالک

news-1440644905-7497.jpg

لندن (بی بی سی رپورٹ) بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے بلوچستان کے مسئلہ پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لئے تیار ہیں۔ براہمداغ ماضی میں اس معاملے پر مذاکرات کی آپشن کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ ’بلوچستان کی آزادی تک جنگ رہے گی۔‘ بدھ کو بی بی سی اردو سے خصوصی بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کے لئے آگے آنا ہوگا۔اس سوال پر کہ اگر مذاکرات کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے یہ شرط رکھی جائے کہ وہ آزاد بلوچستان کا مطالبہ ترک کر دیں تو ان کا ردعمل کیا ہوگا، براہمداغ نے کہا کہ ’اگر ہمارے دوست، ساتھی، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔‘ براہمداغ بگٹی نے لندن میں موجود پاکستانی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے تو کسی رابطے سے انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ ’اگر وہ ہم سے ملنا چاہیں تو ہم اس کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ یہ تو بہت بیوقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ وہ بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتا ہے اور ہم کہیں کہ نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان سے بہت مرتبہ رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ’پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔‘ براہمداغ نے کہا کہ مذاکرات کے لئے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے۔ ’اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لئے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے، تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کے لئے ماحول سازگار ہو سکتا ہے۔‘ اس سوال پر کہ اگر مذاکرات ہوئے تو ان کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ’ہم تو مظلوم قوم ہیں اور نو سال سے آپریشن کا شکار ہیں۔ طاقتور وہی ہیں۔ وہ کیا دینے کو تیار ہوں گے؟ وہ کیا ایجنڈا رکھتے ہیں۔اگر وہ آتے ہیں تو ہم انہیں وہی ایجنڈا پیش کریں گے جو ہماری اکثریت کو منظور ہوگا۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان پر اور دیگر علیحدگی پسندوں پر بلوچ عوام کا دباؤ نہیں کہ مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کیا جائے تو بلوچ رہنما نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ لیکن دس پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ آپ نے ان برسوں میں کب کوشش کی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مائنڈسیٹ کو تبدیل کرے کیونکہ طاقتور وہی ہیں۔‘ بلوچستان میں حالات خراب بھی انہوں نے کیے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے۔ ہمارے پاس نہ طاقت ہے اور نہ اتنی بڑی فوج کہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں۔ اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگا۔‘ بلوچستان میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پر براہمداغ نے کہا کہ ’بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو، وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔‘اس سوال پر کہ حالیہ دنوں میں ان پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انھیں بھارت سے مدد ملتی ہے، براہمداغ نے کہا کہ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کے لئے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوامِ متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ’بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کے لئے نہیں کہا تھا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں اور وہ انہیں چھپانے کے لئے اس قسم کے الزام لگاتی ہے۔‘اپنے دادا اور بلوچ رہنما اکبر بگٹی کی ہلاکت کی تحقیقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے براہمداغ نے کہا کہ اس کا انحصار تو پاکستان کے حکمرانوں پر ہے کہ 2006 کے واقعات کے بعد کیا تحقیقات ہوئیں اور کیا حقائق سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ نو برس میں اس واقعے کی تحقیقات کی بجائے اس علاقے میں آپریشن جاری ہے بلکہ میں کہوں گا کہ پورے بلوچستان میں قتل و غارت جاری ہے۔ ان حالات میں ممکن نہیں کہ کسی کے دل میں اتنا رحم آ جائے کہ وہ حقائق سامنے لائے۔‘ لندن سے نوائے وقت رپورٹ کے مطابق بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت سے بات چیت کیلئے تیار ہوں۔ اگر بلوچ عوام کہے گی تو الگ ملک کی تحریک واپس لے لوں گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام چاہیں تو آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری پر تیار ہیں۔ براہمداغ بگٹی ماضی میں مذاکرات کی آپشن مسترد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کو شکست ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں گذشتہ 15 سال میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ عوام چاہتی ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔ معاملات سیاسی اور پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ بلوچ عوام کو ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے۔ مذاکرات کیلئے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے۔ چودھری نثار ملاقات کرنا چاہیں تو ہم تیار ہیں۔ ماضی میں بھی رابطے کئے گئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہو گا۔

کوئٹہ (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے براہمداغ بگٹی کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ براہمداغ بگٹی سمیت تمام لوگوں کو بات چیت کیلئے خوش آمدید کہتے ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ آمر کا پیدا کردہ ہے، شروع دن سے مئوقف رہا ہے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی انداز میں حل ہو گا۔ خواہش ہے بلوچستان میں لگی آگ جلد بجھ جائے، حکومت اور عسکری قیادت صوبے کے مسئلے پر ایک پیج پر ہیں۔ چاہتے ہیں بلوچستان کی تعمیر پر سب اپنا کردار ادا کریں۔ بہت خون بہہ چکا، اب زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت تمام ناراض بلوچ بھائیوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ بلوچستان حکومت کو مذاکرات کیلئے مکمل مینڈیٹ حاصل ہے۔
 
برہمداغ کی پیشکش سے لگتا ہے کہ علیحدگی پسندوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور بلوچستان میں اب "را" ان کی مدد کے قابل نہیں رہی۔
 
ایک اچهی خبر ہے.
برہمداخ بگٹی کی کچه باتیں بہت حد تک سچ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل غور ہیں۔

بلوچستان کی لسانی تقسیم ایسی ہے کہ پورا بلوچستان کبهی بهی علیحدگی پسند نہیں ہو سکتا اور شاید جناب بگٹی کو اس بات کی سمجھ گئی ہے۔
 
Top