آزاد نظم۔ شاید وہ اندھا تھا

منذر رضا

محفلین
اربابِ سخن سے تنقید کی درخواست کے ساتھ، اگر غلطیاں زیادہ ہوں تو بے شک مدیران اسے اصلاحِ سخن میں منتقل فرما دیں
الف عین
محمد وارث
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
فلسفی
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن
نظم «شاید وہ اندھا تھا»
ایک دن میں نے اس سے کہا
جانِ جاں
تم مری زندگی
تم مری عاشقی
تم مری بندگی
تم مری کل متاع
اور تمہارے بغیر
زندگی کا تصور نہیں
جب مری بات پوری ہوئی تو وہ شخص
کھلکھلا کے ہنسا
ساتھ میں بھی ہنسا
ہاں مگر فرق تھا
اس کے اور میرے ہنسنے میں بہت فرق تھا
خیر آج
ایک عرصے کے بعد
یاد کرتا ہوں میں
یہ عجب واقعہ
اور یہ سوچتا ہوں کہ کیا واقعی
میرے جذبات پر
وہ فقط ہنس ہی سکتا تھا یا
ان کی اوٹ میں
دیکھ سکتا تھا میرا دلِ زار بھی
پھر خیال آتا ہے
عین ممکن ہے یہ بات کہ
اس کی آنکھیں نہ ہوں!
اور وہ اندھا ہو!
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات۔ یہ نثری شاعری نہیں، آزاد نظم ہے۔ فعولن کا رکن دہرایا گیا ہے۔
کہیں کہیں سکتے کی کیفیت ہے، جو آسانی سے دور ہو سکتی ہے
اور تمہارے بغیر
.... تمہارے بِنا

جب مری بات پوری ہوئی تو وہ شخص
کھلکھلا کے ہنسا
... جب مری بات پوری ہوئی
کھلکھلا کر ہنسا وہ

اور

پھر خیال آتا ہے
عین ممکن ہے یہ بات کہ
اس کی آنکھیں نہ ہوں!
.... پھر یہ آیا خیال
عین ممکن ہے یہ
اس کی.....
 
Top