خورشیداحمدخورشید
محفلین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں
فصلیں اگلتی کھیتیاں
اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں
ہے کاروبارِ زندگی
ان سے رواں ان سے دواں
سڑ کوں پہ اور کھیتوں میں اور
سب کارخانوں میں لگے
محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے
ہاتھوں پہ میں
دلکش حسیں اور مرمریں
گورے حنائی ہاتھ کی
رعنائیوں کو وار دوں
ٍگھر کی کفالت کے لیے
بازار کے اک چوک پر
ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے
سودا سلف کو بیچتی
جرمِ ضعیفی کی سزا کو
کاٹتی خاتون کے
جھریوں بھرے چہرے کو میں
اپنے دلِ بے تاب کی
گہرائیوں سے پیار دوں
یہ دور ایسا دور ہے
حق دار کو ملتا نہیں
حق بھی بِنا رشوت دیے
طاقت یہاں ہر حال میں
قانون پر حاوی رہے
انصاف کا پلڑا یہاں
شیطان کا بھاری رہے
یہ تلخ ہیں سچائیاں
اس دور کی سچائیاں
میرے خُدا توفیق دے
مجھ کو
کہ میں کردار کی تلوار سے
اِن تلخ سی
سچائیوں کو مار دوں
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں
فصلیں اگلتی کھیتیاں
اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں
ہے کاروبارِ زندگی
ان سے رواں ان سے دواں
سڑ کوں پہ اور کھیتوں میں اور
سب کارخانوں میں لگے
محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے
ہاتھوں پہ میں
دلکش حسیں اور مرمریں
گورے حنائی ہاتھ کی
رعنائیوں کو وار دوں
ٍگھر کی کفالت کے لیے
بازار کے اک چوک پر
ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے
سودا سلف کو بیچتی
جرمِ ضعیفی کی سزا کو
کاٹتی خاتون کے
جھریوں بھرے چہرے کو میں
اپنے دلِ بے تاب کی
گہرائیوں سے پیار دوں
یہ دور ایسا دور ہے
حق دار کو ملتا نہیں
حق بھی بِنا رشوت دیے
طاقت یہاں ہر حال میں
قانون پر حاوی رہے
انصاف کا پلڑا یہاں
شیطان کا بھاری رہے
یہ تلخ ہیں سچائیاں
اس دور کی سچائیاں
میرے خُدا توفیق دے
مجھ کو
کہ میں کردار کی تلوار سے
اِن تلخ سی
سچائیوں کو مار دوں