آزاد نظم (تمنا ) - 17 جون-2023

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں
فصلیں اگلتی کھیتیاں
اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں
ہے کاروبارِ زندگی
ان سے رواں ان سے دواں
سڑ کوں پہ اور کھیتوں میں اور
سب کارخانوں میں لگے
محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے
ہاتھوں پہ میں
دلکش حسیں اور مرمریں
گورے حنائی ہاتھ کی
رعنائیوں کو وار دوں

ٍگھر کی کفالت کے لیے
بازار کے اک چوک پر
ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے
سودا سلف کو بیچتی
جرمِ ضعیفی کی سزا کو
کاٹتی خاتون کے
جھریوں بھرے چہرے کو میں
اپنے دلِ بے تاب کی
گہرائیوں سے پیار دوں

یہ دور ایسا دور ہے
حق دار کو ملتا نہیں
حق بھی بِنا رشوت دیے
طاقت یہاں ہر حال میں
قانون پر حاوی رہے
انصاف کا پلڑا یہاں
شیطان کا بھاری رہے
یہ تلخ ہیں سچائیاں
اس دور کی سچائیاں
میرے خُدا توفیق دے
مجھ کو
کہ میں کردار کی تلوار سے
اِن تلخ سی
سچائیوں کو مار دوں
 

الف عین

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں
فصلیں اگلتی کھیتیاں
اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں
ہے کاروبارِ زندگی
ان سے رواں ان سے دواں
... رواں دواں محاورہ ہے، دونوں الفاظ الگ لگ مستعمل نہیں، اگرچہ دواں بھی مہمل نہیں، لیکن ان سے دواں کا ٹکڑا نکالنے سے بہتر ہو گا، بلکہ پورا مصرع "ہے کاروبار زندگی ان سے رواں" بھی مناسب ہے
سڑ کوں پہ اور کھیتوں میں اور
اور اچھا تاثر نہیں دے رہا
سڑکوں پہ بھی
کھیتوں میں بھی
سب کارخانوں میں لگے
محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے
ہاتھوں پہ میں
دلکش حسیں اور مرمریں
گورے حنائی ہاتھ کی
رعنائیوں کو وار دوں
سارے متعدد ہاتھوں پر واحد ہاتھ قربان؟ ان ہاتھوں کی ایک دو صفات کم کر کے "ہاتھوں" لانے کی کوشش کرو
ٍگھر کی کفالت کے لیے
بازار کے اک چوک پر
ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے

سودا سلف کو بیچتی
جرمِ ضعیفی کی سزا کو

کاٹتی خاتون کے
جھریوں بھرے چہرے کو میں
جھریاں، جھریوں میں "ر" پر تشدید ہونی چاہیے
... خاتون کے چہرے پہ ہیں جو جھریاں
ان جھریوں کو...
اپنے دلِ بے تاب کی
گہرائیوں سے پیار دوں

یہ دور ایسا دور ہے
حق دار کو ملتا نہیں
حق بھی بِنا رشوت دیے
طاقت یہاں ہر حال میں

قانون پر حاوی رہے
انصاف کا پلڑا یہاں
شیطان کا بھاری رہے
"رہے" لفظ سے تمنا کا اظہار ہوتا ہے جو یہاں مراد نہیں، یہاں تو محض حقیقت کا اظہار ہے۔ شاید "لگے" سے یہ بات درست ظاہر ہو
یہ تلخ ہیں سچائیاں
اس دور کی سچائیاں
دوسرے مصرعے کی ضرورت نہیں
میرے خُدا توفیق دے
مجھ کو
کہ میں کردار کی تلوار سے
اِن تلخ سی
سچائیوں کو مار دوں
تلوار سے قتل کرنا زیادہ مستعمل ہے، ویسے مارنا بھی قابل قبول ہے
 
محترم سر الف عین صاحب!
آپ کی تجاویز کےبعد:

سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں
فصلیں اُگلتی کھیتیاں
اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں
ہے کاروبارِ زندگی
ان سے رواں (رواں دواں محاورہ ہے، دونوں الفاظ الگ لگ مستعمل نہیں، اگرچہ دواں بھی مہمل نہیں، لیکن ان سے دواں کا ٹکڑا نکالنے سے بہتر ہو گا، بلکہ پورا مصرع "ہے کاروبار زندگی ان سے رواں" بھی مناسب ہے)
سڑ کوں پہ بھی کھیتوں میں بھی (اور اچھا تاثر نہیں دے رہا ۔۔۔۔۔۔۔سڑکوں پہ بھی ۔۔۔۔۔۔کھیتوں میں بھی)
سب کارخانوں میں لگے
محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے
ہاتھوں پہ سب (سارے متعدد ہاتھوں پر واحد ہاتھ قربان؟ ان ہاتھوں کی ایک دو صفات کم کر کے "ہاتھوں" لانے کی کوشش کرو)
دلکش حسیں اور مرمریں
مہندی لگے ہاتھوں کی میں

رعنائیوں کو وار دوں

ٍگھر کی کفالت کے لیے
بازار کے اک چوک پر
ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے
سودا سلف کو بیچتی
جرمِ ضعیفی کی سزا کو
کاٹتی خاتون کے
چہرے پہ ہیں جو جھریاں (جھریاں، جھریوں میں "ر" پر تشدید ہونی چاہیے... خاتون کے چہرے پہ ہیں جو جھریاں ۔۔۔۔۔۔ان جھریوں کو...)
ان جھریوں کو
دلِ کی
میں

گہرائیوں سے پیار دوں

یہ دور ایسا دور ہے
حق دار کو ملتا نہیں
حق بھی بِنا رشوت دیے
طاقت یہاں ہر حال میں
قانون پر حاوی لگے
انصاف کا پلڑا یہاں
شیطان کا بھاری لگے ("رہے" لفظ سے تمنا کا اظہار ہوتا ہے جو یہاں مراد نہیں، یہاں تو محض حقیقت کا اظہار ہے۔ شاید "لگے" سے یہ بات درست ظاہر ہو)
اس دور کا ناسُور ہیں
یہ تلخ سی سچائیاں
( اس دور کی سچائیاں والے مصرعے کی ضرورت نہیں)
میرے خُدا توفیق دے
مجھ کو
کہ میں کردار کی تلوار سے
اِن تلخ سی
سچائیوں کو مار دوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہیں بھئی ، خورشیداحمدخورشید !
یہ ٹھیک نہیں ہے ۔آپ ایسی شاعری مت کیجیے۔ میں نے ابھی عرفان علوی صاحب کی آزاد نظم پر ایک مفصل نوٹ لکھا ہے۔ آپ اسے دیکھ لیجیے اور سمجھ لیجیے کہ اسی طرح کی بات میں آپ کی اس نظم پر کہوں گا۔ یہ شاعری نہیں سہل پسندی ہے۔گستاخی معاف ، لیکن ایسی نظمیں تو ہر موزوں طبع شخص دن میں درجن کے حساب سے لکھ سکتا ہے۔ ایک نثری پیراگراف لکھ کر اس میں الفاظ کے ہیر پھیر سے مختلف لمبائی کے مصرعے گھڑنا کوئی ہنر یا فن نہیں ہے۔ آپ نے جس جگہ چاہا ہے ارکان کو توڑدیا ہے۔ نظم میں دو ارکان سے زیادہ کا کوئی مصرع نہیں ہے۔ یہ نظم نہیں نثر ہے ۔ اس سے پرہیز کیجیے۔ میں سمجھانے کی خاطر ذیل میں آپ کی نظم کو جوں کا توں ایک نثری پیراگراف کی شکل میں کاپی کررہا ہوں ۔ صرف علاماتِ اوقاف کا اضافہ کیا ہے ۔ آپ خود دیکھ لیجیے اور تجزیہ کیجیے۔

"سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں ، فصلیں اگلتی کھیتیاں اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں ، ہے کاروبارِ زندگی ان سے رواں ان سے دواں۔ سڑ کوں پہ اور کھیتوں میں اور سب کارخانوں میں لگے محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے ہاتھوں پہ میں دلکش حسیں اور مرمریں گورے حنائی ہاتھ کی رعنائیوں کو وار دوں ۔ ٍگھر کی کفالت کے لیے بازار کے اک چوک پر ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے سودا سلف کو بیچتی جرمِ ضعیفی کی سزا کو
کاٹتی خاتون کے جھریوں بھرے چہرے کو میں اپنے دلِ بے تاب کی گہرائیوں سے پیار دوں ۔ یہ دور ایسا دور ہے حق دار کو ملتا نہیں حق بھی بِنا رشوت دیے ۔ طاقت یہاں ہر حال میں قانون پر حاوی رہے، انصاف کا پلڑا یہاں شیطان کا بھاری رہے۔ یہ تلخ ہیں سچائیاں ، اس دور کی سچائیاں ! میرے خُدا توفیق دے مجھ کو کہ میں کردار کی تلوار سے اِن تلخ سی سچائیوں کو مار دوں ۔"


بھائی ، اگر میری باتیں بری لگی ہوں تو میں انتہائی معذرت خواہ ہوں۔ آپ نے مجھ سے اصلاح مانگی تو میں نے یہ لکھ دیا۔ آزاد نظم پر کس طرح اصلاح دی جائے اس کا کوئی اصول یا کوئی معیار میری نظر سے نہیں گزرا۔ معذرت! میں پرانی اقدار و روایات کا حامل پرانا آدمی ہوں ۔ امید ہے کہ آپ درگزر سے کام لیں گے۔
 
نہیں بھئی ، خورشیداحمدخورشید !
یہ ٹھیک نہیں ہے ۔آپ ایسی شاعری مت کیجیے۔ میں نے ابھی عرفان علوی صاحب کی آزاد نظم پر ایک مفصل نوٹ لکھا ہے۔ آپ اسے دیکھ لیجیے اور سمجھ لیجیے کہ اسی طرح کی بات میں آپ کی اس نظم پر کہوں گا۔ یہ شاعری نہیں سہل پسندی ہے۔گستاخی معاف ، لیکن ایسی نظمیں تو ہر موزوں طبع شخص دن میں درجن کے حساب سے لکھ سکتا ہے۔ ایک نثری پیراگراف لکھ کر اس میں الفاظ کے ہیر پھیر سے مختلف لمبائی کے مصرعے گھڑنا کوئی ہنر یا فن نہیں ہے۔ آپ نے جس جگہ چاہا ہے ارکان کو توڑدیا ہے۔ نظم میں دو ارکان سے زیادہ کا کوئی مصرع نہیں ہے۔ یہ نظم نہیں نثر ہے ۔ اس سے پرہیز کیجیے۔ میں سمجھانے کی خاطر ذیل میں آپ کی نظم کو جوں کا توں ایک نثری پیراگراف کی شکل میں کاپی کررہا ہوں ۔ صرف علاماتِ اوقاف کا اضافہ کیا ہے ۔ آپ خود دیکھ لیجیے اور تجزیہ کیجیے۔

"سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں ، فصلیں اگلتی کھیتیاں اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں ، ہے کاروبارِ زندگی ان سے رواں ان سے دواں۔ سڑ کوں پہ اور کھیتوں میں اور سب کارخانوں میں لگے محنت کشوں کے
با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے ہاتھوں پہ میں دلکش حسیں اور مرمریں گورے حنائی ہاتھ کی رعنائیوں کو وار دوں ۔ ٍگھر کی کفالت کے لیے بازار کے اک چوک پر ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے سودا سلف کو بیچتی جرمِ ضعیفی کی سزا کو
کاٹتی خاتون کے جھریوں بھرے چہرے کو میں اپنے دلِ بے تاب کی گہرائیوں سے پیار دوں ۔ یہ دور ایسا دور ہے حق دار کو ملتا نہیں حق بھی بِنا رشوت دیے ۔ طاقت یہاں ہر حال میں قانون پر حاوی رہے، انصاف کا پلڑا یہاں شیطان کا بھاری رہے۔ یہ تلخ ہیں سچائیاں ، اس دور کی سچائیاں ! میرے خُدا توفیق دے مجھ کو کہ میں کردار کی تلوار سے اِن تلخ سی سچائیوں کو مار دوں ۔"


بھائی ، اگر میری باتیں بری لگی ہوں تو میں انتہائی معذرت خواہ ہوں۔ آپ نے مجھ سے اصلاح مانگی تو میں نے یہ لکھ دیا۔ آزاد نظم پر کس طرح اصلاح دی جائے اس کا کوئی اصول یا کوئی معیار میری نظر سے نہیں گزرا۔ معذرت! میں پرانی اقدار و روایات کا حامل پرانا آدمی ہوں ۔ امید ہے کہ آپ درگزر سے کام لیں گے۔
استادِ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب!
تہہِ دل سے آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری اصلاح کی خاطر بڑی وضاحت سے لکھا۔ لیکن آپ اسے میری کم فہمی سمجھیں کہ اصل مسئلہ ابھی تک میری سمجھ سے بالاتر ہے۔میں اسی نظم کو پابند نظم کی شکل میں دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ اور دوبارہ آپ سے اصلاح کا طلبگار ہوں۔ہاں فقرے توڑنے والی بات کا واقعی مجھےابھی تک زیادہ علم نہیں کہ آزاد نظم میں اس کا اصول کیا ہے؟ اگر راہنمائی فرمادیں گے تو میرا بھلا ہوجائے گا۔
یہ بات آپ کی ٹھیک ہے کہ کلام میں جدتِ مضمون اور ندرتِ بیان کے عناصر لانے کے لیے ظاہر ہے مجھے مزید محنت اورآپ جیسے اساتذہ سے راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔


سڑ کوں پہ چلتی گاڑیاں فصلیں اُگلتی کھیتیاں
اور کارخانوں کی دھواں دیتی ہوئی یہ چمنیاں
ہے کاروبارِ زندگی ان سے رواں ان سے دواں
سڑ کوں پہ بھی کھیتوں میں بھی سب کارخانوں میں لگے
محنت کشوں کے با ہُنر مَیلے جفاکش کھردرے
ہاتھوں پہ سب دلکش حسیں اور مرمریں مہندی لگے
ہاتھوں کی میں رعنائیوں کو وار دوں میں واردوں

ٍگھر کی کفالت کے لیے بازار کے اک چوک پر
ٹھیلے پہ رکھ کر عام سے سودا سلف کو بیچتی
جرمِ ضعیفی کی سزا کو کاٹتی خاتون کے
چہرے پہ ہیں جو جھریاں ان جھریوں کو دلِ کی میں
گہرائیوں سے پیار دوں گہرائیوں سے پیار دوں

یہ دور ایسا دور ہے حق دار کو ملتا نہیں
حق بھی بِنا رشوت دیے طاقت یہاں ہر حال میں
قانون پر حاوی لگے انصاف کا پلڑا یہاں
شیطان کا بھاری لگے اس دور کا ناسُور ہیں
یہ تلخ سی سچائیاں میرے خُدا توفیق دے
مجھ کو کہ میں کردار کی تلوار سے اِن تلخ سی
سچائیوں کو مار دوں سچائیوں کو مار دوں​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تہہِ دل سے آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری اصلاح کی خاطر بڑی وضاحت سے لکھا۔ لیکن آپ اسے میری کم فہمی سمجھیں کہ اصل مسئلہ ابھی تک میری سمجھ سے بالاتر ہے۔میں اسی نظم کو پابند نظم کی شکل میں دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ اور دوبارہ آپ سے اصلاح کا طلبگار ہوں۔ہاں فقرے توڑنے والی بات کا واقعی مجھےابھی تک زیادہ علم نہیں کہ آزاد نظم میں اس کا اصول کیا ہے؟ اگر راہنمائی فرمادیں گے تو میرا بھلا ہوجائے گا
خورشید بھائی ، اصل مسئلہ میں نے تفصیل سے لکھ بھی دیا تھا اور عرفان علوی صاحب کی نظم "موڑ" کا ذکر بھی کیا تھا کہ وہاں مزید تفصیل موجود ہے۔ دوبارہ دیکھ لیجئے ۔ مختصراً یہ کہ آزاد نظم کے مصرعوں میں بھی وہی تمام محاسن لانے کی کوشش کرنا چاہیے کہ جو پابند نظم میں لائے جاتے ہیں ۔ بلکہ آزاد نظم میں تو ک گنائیت اور شعریت کی کچھ اضافی خوبیاں ہونا چاہئیں تاکہ پابندیوں سےآزادی کی قیمت ادا کی جاسکے۔ یہ تمام باتیں غور سے پھر پڑھ لیجیے۔ پھر بھی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو حکم دیجیے گا میں دوبارہ کوشش کروں گا۔
 
خورشید بھائی ، اصل مسئلہ میں نے تفصیل سے لکھ بھی دیا تھا اور عرفان علوی صاحب کی نظم "موڑ" کا ذکر بھی کیا تھا کہ وہاں مزید تفصیل موجود ہے۔ دوبارہ دیکھ لیجئے ۔ مختصراً یہ کہ آزاد نظم کے مصرعوں میں بھی وہی تمام محاسن لانے کی کوشش کرنا چاہیے کہ جو پابند نظم میں لائے جاتے ہیں ۔ بلکہ آزاد نظم میں تو ک گنائیت اور شعریت کی کچھ اضافی خوبیاں ہونا چاہئیں تاکہ پابندیوں سےآزادی کی قیمت ادا کی جاسکے۔ یہ تمام باتیں غور سے پھر پڑھ لیجیے۔ پھر بھی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو حکم دیجیے گا میں دوبارہ کوشش کروں گا۔
استادِ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب!
کیا نظم کی موجودہ شکل قابلِ قبول ہے؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
استادِ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب!
کیا نظم کی موجودہ شکل قابلِ قبول ہے؟
یہ نظم اب پابند صورت میں آگئی ہے۔ یعنی آزاد نہیں رہی بلکہ تمام مصرع ہم وزن ہوگئے ہیں ۔ لیکن آہنگ ، غنائیت اور شعریت کے بارے میں جو اعتراضات تھے وہ تو وہیں کے وہیں ہیں ۔ آپ نے تو نظم میں ایک لفظ تک نہیں بدلا۔ یہ باتیں تو محنت کرنے سے درست ہوں گی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہر کلامِ منظوم شعر نہیں ہوتا ۔ کلامِ منظوم کو شعر بنانے کے لیے کئی اور لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے جو میں نے پچھلے مراسلوں میں لکھے۔
میری رائے میں اس نظم کو یو نہی چھوڑدیں ۔ اگلی پر کام کریں ۔
 
یہ نظم اب پابند صورت میں آگئی ہے۔ یعنی آزاد نہیں رہی بلکہ تمام مصرع ہم وزن ہوگئے ہیں ۔ لیکن آہنگ ، غنائیت اور شعریت کے بارے میں جو اعتراضات تھے وہ تو وہیں کے وہیں ہیں ۔ آپ نے تو نظم میں ایک لفظ تک نہیں بدلا۔ یہ باتیں تو محنت کرنے سے درست ہوں گی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہر کلامِ منظوم شعر نہیں ہوتا ۔ کلامِ منظوم کو شعر بنانے کے لیے کئی اور لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے جو میں نے پچھلے مراسلوں میں لکھے۔
میری رائے میں اس نظم کو یو نہی چھوڑدیں ۔ اگلی پر کام کریں ۔
استادِ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب!
میں یہ سمجھنا چاہ رہاہوں کہ ایک لفظ بھی تبدیل کیے بغیر ایک آزاد نظم ، پابند نظم ہوسکتی ہے کیا؟
یعنی کیا صرف لکھنے کی فارمیٹ بدلنےسے اس میں تبدیلی آجائے گی؟
میں نے پہلے بھی اسے ایک بحر میں ہی لکھا تھا۔
رجز مثمن سالم
مستفعِلن​
مستفعِلن​
مستفعِلن​
مستفعِلن​
 
Top