ماشاء اللہ، بہت خوب ۔۔۔ ہم چونکہ فارسی دان نہیں سو وسطی حصہ تو مکمل نہیں سمجھ سکے
کچھ مقامات پر مجھے وزن کا مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔ مثلا
ایک تازہ غزل
جو کہ تھی جابجا خون کے دھبوں سے سرخ
میں نے لاکھوں امیدوں کے بجتے ربابوں کے ساتھ
چارہ سازِ دل و جاں کے آگے سنائی
اگر مصرعے فاعلن کی تکرار پر موزوں ہیں تو دوسرے مصرعے کا محض فاع پر ختم ہونا مجھے مناسب نہیں لگ رہا۔
سے اور سرخ کے مابین تنافر بھی کھٹک رہا ہے۔
اگر دوسرے مصرعے کا سرخ اور تیسرے کا میں ایک ایک ہی رکن پر موزوں کئے گئے ہیں تو پھر آگے چل کر لاکھوں وزن میں پورا نہیں آرہا۔
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
جو کہ تھی جابجا، خون کے دھبوں سے احمریں
میں نے لاکھوں ۔۔۔ الخ
حرف ہا از جگر دادہ بودم توانِ فغاں
روشنی از رخِ روشنِ او بہ ہر حرف دادم
بہ خامہ ز مژگانِ او تیزی دادم
ز خامہ بہ ہر حرف دادم
ان مصارع میں بھی وزن کا مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔ ہرگاہ کہ میں فارسی دان نہیں، مگر میرے خیال میں دادم میں دوسری دال متحرک ہوتی ہے۔ سو اگر دوسرے مصرعے کا آخری رکن فاعلان بھی رکھا جائے تو بھی مصرعہ زائد الوزن رہتا ہے۔
تیسرا اور چوتھا تو دونوں بحر سے خارج ہیں، بلکہ فعولن فعولن پر تقطیع ہورہے ہیں۔
امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔
نظم زبان و بیان کے حوالے سے بہت اعلی پائے کی ہے۔ داد و مبارکباد قبول کیجئے۔
دعاگو،
راحل۔