آزردگی ہے، ملال ہے۔

آزردگی ہے۔ ملال ہے۔ کچھ کھو دینے کا احساس ہے۔ بعض احساس بہت جان لیوا ہوتے ہیں۔ پر بھلے ہی احساس جان لیوا ہوتے ہیں؛ اگر یہ احساس نہ ہوتے تو خوشی کیا ہے، دکھ کیا ہوتا ہے، کوئی سمجھ ہی نہ سکتا۔
کوئی کہنے والا کہتا تھا کہ دھوکے نہ ہوتے تو کوئی اعتبار کرنا نہ سیکھ پاتا۔ حالانکہ دھوکہ تو اعتبار کو توڑنے والی چیز ہے۔ پر بعض چیزیں بعض چیزوں کے لیے لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ جیسے آزردگی کے ساتھ ملال۔
سوچیں وہ احساس کیسا ہو گا جب آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے پاس جینے کے لیے گنتی کی چند سانسیں رہ گئی ہیں اور وہ بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ختم ہو رہی ہیں۔ وقت کی سب سے بُری خاصیت یہ ہے کہ گُزر جاتا ہے، رُکتا نہیں ہے۔ اور اِس کی سب سے اچھی بات بھی یہی ہے کہ یہ ٹھہرتا نہیں، چلتا رہتا ہے۔
ایک فلسفہ ہے کہ زندگی وقت کی محتاج نہیں ہے۔ ہر انسان اپنا وقت خود بناتا ہے، چاہے اچھا بنائے، چاہے بُرا۔ اور یہ وقت اُس کی زندگی کی ڈیفی نیشن بن جاتا ہے۔
وقت پانی ہے۔ اِس کو جس سانچے میں ڈھالیں گے یہ ڈھل جائے گا۔
ایک فن کار۔ جس نے اپنے فن کے رموز جان کر۔ اپنی گزری ہوئی اور آنے والی سانسوں کی گنتی شمار کرتے ہوئے۔ وقت کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایک سانچے میں رکھا۔ اور جب وہ سانچا بن گیا تو فن کار نے اُس سے نظریں پھیر لیں۔ کیونکہ یہ اُس کے لیے ناپسندیدہ سانچا تھا۔
آزردگی اور ملال تو بنتا ہے نا پھر۔۔۔؟؟

از علی احمد صاحب
 

حماد علی

محفلین
آزردگی ہے۔ ملال ہے۔ کچھ کھو دینے کا احساس ہے۔ بعض احساس بہت جان لیوا ہوتے ہیں۔ پر بھلے ہی احساس جان لیوا ہوتے ہیں؛ اگر یہ احساس نہ ہوتے تو خوشی کیا ہے، دکھ کیا ہوتا ہے، کوئی سمجھ ہی نہ سکتا۔
کوئی کہنے والا کہتا تھا کہ دھوکے نہ ہوتے تو کوئی اعتبار کرنا نہ سیکھ پاتا۔ حالانکہ دھوکہ تو اعتبار کو توڑنے والی چیز ہے۔ پر بعض چیزیں بعض چیزوں کے لیے لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ جیسے آزردگی کے ساتھ ملال۔
سوچیں وہ احساس کیسا ہو گا جب آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے پاس جینے کے لیے گنتی کی چند سانسیں رہ گئی ہیں اور وہ بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ختم ہو رہی ہیں۔ وقت کی سب سے بُری خاصیت یہ ہے کہ گُزر جاتا ہے، رُکتا نہیں ہے۔ اور اِس کی سب سے اچھی بات بھی یہی ہے کہ یہ ٹھہرتا نہیں، چلتا رہتا ہے۔
ایک فلسفہ ہے کہ زندگی وقت کی محتاج نہیں ہے۔ ہر انسان اپنا وقت خود بناتا ہے، چاہے اچھا بنائے، چاہے بُرا۔ اور یہ وقت اُس کی زندگی کی ڈیفی نیشن بن جاتا ہے۔
وقت پانی ہے۔ اِس کو جس سانچے میں ڈھالیں گے یہ ڈھل جائے گا۔
ایک فن کار۔ جس نے اپنے فن کے رموز جان کر۔ اپنی گزری ہوئی اور آنے والی سانسوں کی گنتی شمار کرتے ہوئے۔ وقت کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایک سانچے میں رکھا۔ اور جب وہ سانچا بن گیا تو فن کار نے اُس سے نظریں پھیر لیں۔ کیونکہ یہ اُس کے لیے ناپسندیدہ سانچا تھا۔
آزردگی اور ملال تو بنتا ہے نا پھر۔۔۔؟؟

از علی احمد صاحب
نظریں پھیر لینے پر واقعی ملال تو بنتا ہے !!
 
Top