آسماں گیر ہے زلفوں کا دھواں کہتے ہیں
جشن بردوش ہے فردوس رواں کہتے ہیں
آج انسان ہے میردوجہاں کہتے ہیں
اب لچکتی نہیں کوشش سے بھی غلماں کی کمر
جل گئے حِدّتِ تحقیق سے اوہام کے پر
اَبَدی ہے یہ جہانِ گزراں کہتے ہیں
رھرو و آگہی گئی منزلِ عصر ِ مسعود
جن کو کل لوگ سمجھتے تھے بتانِ معبود
اب اُنہیں ذہن کی آوارگیاں کہتے ہیں
مصطفیٰ زیدی
روشنی
22
جشن بردوش ہے فردوس رواں کہتے ہیں
آج انسان ہے میردوجہاں کہتے ہیں
اب لچکتی نہیں کوشش سے بھی غلماں کی کمر
جل گئے حِدّتِ تحقیق سے اوہام کے پر
اَبَدی ہے یہ جہانِ گزراں کہتے ہیں
رھرو و آگہی گئی منزلِ عصر ِ مسعود
جن کو کل لوگ سمجھتے تھے بتانِ معبود
اب اُنہیں ذہن کی آوارگیاں کہتے ہیں
مصطفیٰ زیدی
روشنی
22