آصف شفیع
محفلین
غزل:
آشنائی کبھی ہوتی نہیں چلتے چلتے
وقت لگتا ہے کسی رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے
ایک دن کہہ ہی دیا اُس نے، مجھے جانا ہے
ایک دن ہو ہی گیا سانحہ ٹلتے ٹلتے
کیا بتائیں کسے چاہا، کسے پایا ہم نے
عمر گزری کفِ افسوس ہی ملتے ملتے
ایک پل کو بھی نہیں وصل کا موسم دیکھا
زندگی بیت گئی ہجر میں جلتے جلتے
ڈھونڈتا رہتا ہوں میں اس کے نشاں تک آصف
چھوڑ جاتا ہے مجھے روز وہ چلتے چلتے
( آصف شفیع)
آشنائی کبھی ہوتی نہیں چلتے چلتے
وقت لگتا ہے کسی رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے
ایک دن کہہ ہی دیا اُس نے، مجھے جانا ہے
ایک دن ہو ہی گیا سانحہ ٹلتے ٹلتے
کیا بتائیں کسے چاہا، کسے پایا ہم نے
عمر گزری کفِ افسوس ہی ملتے ملتے
ایک پل کو بھی نہیں وصل کا موسم دیکھا
زندگی بیت گئی ہجر میں جلتے جلتے
ڈھونڈتا رہتا ہوں میں اس کے نشاں تک آصف
چھوڑ جاتا ہے مجھے روز وہ چلتے چلتے
( آصف شفیع)