طارق شاہ
محفلین
غزل
سُوئے میکدہ نہ جاتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
وہ نِگاہ سے پِلاتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
گو ہَوائے گُلسِتاں نےمِرے دِل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اُٹھاتے،تو کُچھ اور بات ہوتی
یہ بَجا، کلی نے کِھل کر کیا گُلسِتاں مُعَطّر !
اگر آپ مُسکراتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
یہ کُھلے کُھلے سے گِیسو، اِنھیں لاکھ تُو سنوارے
مِرے ہاتھ سے سنورتے،تو کُچھ اور بات ہوتی
گو حَرَم کے راستے سے، وہ پہنچ گئے خُدا تک
تِری رہگُزر سے جاتے،تو کُچھ اور بات ہوتی
آغا حشر کاشمیری
آخری تدوین: