اصغر گونڈوی آلامِ‌ روزگار کو آساں بنا دیا ---اصغر گونڈوی

راہب

محفلین
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا

میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلوں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

یوں مسکرائے جاں سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا

کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی
جب خاک کردیا اسے عرفاں بنا دیا

کیا کیا قیود دہر میں ہیں اہل ہوش کے
ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا

اک برق تھی ضمیر میں فطرت کے موجزن
آج اس کو حسن و عشق کا ساماں بنا دیا

وہ شورشیں ، نظام جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کیا ، انہیں انساں بنا دیا

ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا


بلبل بہ آہ و نالہ و گل مست رنگ و بو
مجھ کو شہید رسم گلستاں بنا دیا

کہتے ہیں اک فریب مسلسل ہے زندگی
اس کو بھی وقف حسرت و حرماں بنا دیا

عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

اس حسن کاروبار کو مستوں سے پوچھئیے
جس کو فریب ہوش نے عصیاں بنا دیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ کیا خوب غزل ہے راہب صاحب!‌ آپ تو کمال پر کمال کرتے جا رہے ہیں‌ - عرصے سے اصغر گونڈوی کو پڑھنے کی خواہش تھی جو آپ کو پوسٹ سے کسی حد تک پوری ہوئی -
حد بنانا چاہتا تھا لامکاں‌ میں اے منیر
گھر بنا کر ذہن کی آشفتگی کچھ کم ہوئی
 

راہب

محفلین
سخنور آپ کی پسندیدگی کا شکریہ اور شکریہ کچھ یوں کہ میرے چند بہت ہی پسندیدہ شاعروں میں سے ایک اصغر گونڈی مرحوم بھی ہیں اصغر گونڈوی جو کہ جگر مرادآبادی کے استاد تھے اپنے وقت کے بہت بڑے شاعر تھے ان کی شاعری کے بارے میں یہ چند سطور ملاحظہ کیجئے
"اصغر نے متذکرہ دو شعری مجموعوں میں جس کائنات کی تخلیق کی ہے وہ اپنی مختصر جسامت کے باوجود ہر اعتبار سے کامل و شامل ہے۔ اس کائنات کی بنیادی قدر عشق و محبت ہے اصغر کا عشق کوئی ارضی جذبہ نہیں بلکہ اپنے انتہائی تجزیہ میں ان کی نوعیت خالص تجریدی ہے۔ یہ زندگی کا حرکی عنصر ہے۔ زندگی کی تیز گامی اور سخت کوشی اس عشق کا ایک کرشمہ ہے۔ زندگی کی ساری رعنائی و زیبائی اسی کے طفیل ہے۔ عشق جہاں ابن آدم کے لیے اس جہان مہ و انجم سے کہیں وسیع تر دشت کا طالب ہے، وہاں اس نے زمان و مکان اور ایں و آن جہاں کی وسعتوں میں اپنی وحشتوں کو بیکار بکھیر دینے کے بجائے اسے زندگی کا ایک نقطہ ارتکاز بھی دیا ہے۔ جبھی تو نظام عالم بیتابیوں کے مظاہر کی صورت میں ہمارے سامنے جلوہ آرا ہے جبھی تو سمک سے سما تک اور ثری سے ثریا تک کائنات کا ذررہ ذرہ دیوانگی شوق کے عالم میں ایک ازلی رقص میں محو ہے۔ ان ذروں کارقص اسی صبائے عشق کی مستی کا رہین منت ہے۔ذروں کی یہ تپش ، یہ تڑپ ، اجرام فلک کی یہ بے قراری اسی جذبہ عشق کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ اسی کے سہارے یہ قافلہ بے تاب نہ جانے کون سی منزل کی جانب سرگرم سفر ہے؟ زندگی اسی رقص مسلسل اس لذت جوش طلب اسی تگاپوئے مدام سے تو عبارت ہے ورنہ شوریدگان شوق کے سامنے بھی بھلا کوئی معین مقصود، کوئی مقرر منزل ہوا کرتی ہے؟ یہی عمل پیہم تو زندگی ہے اور زندگی گویا ایک پرواز ہے اور کوتاہی عمل گرفتاری۔"(کرشن کانت)
 
Top