سید شہزاد ناصر
محفلین
اسلام آباد (سید محمد عابد) پانی کی آلودگی کے باعث آبی حیات خطرات میں مبتلا ہیں۔ حال ہی میں سکھر میںایک نہر سے نایاب نسل کی انڈس بلائنڈ ڈولفن مردہ حالت میں پائی گئی ہے، وائلڈ لائف کے عملے کے مطابق اس ڈولفن کی عمر25 سال تھی اور اس کی موت پانی زہرلا ہونے کے باعث ہوئی۔ چند ماہ پہلے کراچی کے ساحل پر ہرے رنگ کا کچھوا مردہ حالت میں پایا گیا جو کہ پاکستان میں آبی آلودگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دریائے ستلج کے کنارے پر سیکڑوں مچھلیاں اور دیگر آبی حیات مردہ حالت میںنظر آتی ہیں۔محکمہ آبپاشی کے ذرائع کے مطابق بہاولنگر میں واقع بھوکا پتن پل کے قریب دریا ستلج میں بی ایس لنک کینال سے زہریلا پانی آنے کی وجہ سے مچھلیاں اور دیگر آبی حیات مرر ہے ہیں۔ پاکستان میں متعدد نایاب اقسام کی آبی حیات پائی جاتی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بہتر سہولیات گراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے آبی حیات ہلاک ہو رہی ہیں۔ متعدد فیکٹریوں سے نکلنے والا آلودہ پانی، چمڑے کے کارخانوں سے آنے والا فصلہ اور کوڑے کی وجہ سے دریا ستلج میں موجود آبی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور کنارے پر سیکڑوں کی تعداد میں مچھلیاں ، سانپ اور دیگر آبی حیات مردہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں واقع راول ڈیم میں روزانہ لاکھوں ٹن کوڑا بہا دیا جاتا ہے جو کہ ڈیم میں موجود آبی حیات کی موت کا باعث ہے۔
مچھیرے مچھلیوں کا شکار کرنے کے لئے پانی میں زہر کا استعمال کرتے ہیں۔اس طرح مچھلیوں کا شکار تو ہو جاتا ہے لیکن ساتھ ساتھ کئی دوسری آبی حیات بھی مر جاتی ہیںاورمچھلیوں کے شکار کا یہ طریقہ مذہبی طور پر حرام ہے۔ محکمہ آبپاشی کی انتظامیہ کے مطابق نہروں میں بندش کی وجہ سے نہر میں صاف پانی نہیں آرہا جس کے باعث آبی حیات مر رہیہےں۔
انٹرنیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب غیر انسانی حیات کی105 اقسام معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مچھلیوں کی30 اقسام کو آلودگی کی وجہ سے شدید خطر ہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب پاکستان میں غیر انسانی حیاتیات کو پہنچنے والے نقصان کی خبرا ہلِ پاکستان کے لیے اس لیے بھی عوامی سطح پر توجہ کی حقدار دکھائی نہیں دیتی کیونکہ پاکستان میں انسانی حیاتیات کی بقا کے لیے کوئی سرے سے کوئی گرمی ہی دکھائی نہیں دیتی۔
سکھر اور گھوٹکی کے مقام پردریائے سندھ میں شکار کیلئے بااثر افراد کی جانب سے زہر کے استعمال سے لاکھوں مچھلیاں مرجاتی ہیں اوردیگر آبی حیات بھی اسی زہر کا شکار ہوتی ہیں۔ کچے کے علاقوں میں چھوٹی اور بڑی مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات کی بڑے پیمانے پر نسل کشی جاری ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق پانی میں زہر ڈالے جانے سے آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
حکومت ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے وگرنہ متعدد سمندری حیات ناپید ہو جائیں گی۔آبی حیات کے تحفظ کے لئے موئثر اقدامات کی ضرورت ہے
ربط
http://technologytimespk.blogspot.com/2011/01/blog-post_4034.html
دریائے ستلج کے کنارے پر سیکڑوں مچھلیاں اور دیگر آبی حیات مردہ حالت میںنظر آتی ہیں۔محکمہ آبپاشی کے ذرائع کے مطابق بہاولنگر میں واقع بھوکا پتن پل کے قریب دریا ستلج میں بی ایس لنک کینال سے زہریلا پانی آنے کی وجہ سے مچھلیاں اور دیگر آبی حیات مرر ہے ہیں۔ پاکستان میں متعدد نایاب اقسام کی آبی حیات پائی جاتی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بہتر سہولیات گراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے آبی حیات ہلاک ہو رہی ہیں۔ متعدد فیکٹریوں سے نکلنے والا آلودہ پانی، چمڑے کے کارخانوں سے آنے والا فصلہ اور کوڑے کی وجہ سے دریا ستلج میں موجود آبی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور کنارے پر سیکڑوں کی تعداد میں مچھلیاں ، سانپ اور دیگر آبی حیات مردہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں واقع راول ڈیم میں روزانہ لاکھوں ٹن کوڑا بہا دیا جاتا ہے جو کہ ڈیم میں موجود آبی حیات کی موت کا باعث ہے۔
مچھیرے مچھلیوں کا شکار کرنے کے لئے پانی میں زہر کا استعمال کرتے ہیں۔اس طرح مچھلیوں کا شکار تو ہو جاتا ہے لیکن ساتھ ساتھ کئی دوسری آبی حیات بھی مر جاتی ہیںاورمچھلیوں کے شکار کا یہ طریقہ مذہبی طور پر حرام ہے۔ محکمہ آبپاشی کی انتظامیہ کے مطابق نہروں میں بندش کی وجہ سے نہر میں صاف پانی نہیں آرہا جس کے باعث آبی حیات مر رہیہےں۔
انٹرنیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب غیر انسانی حیات کی105 اقسام معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مچھلیوں کی30 اقسام کو آلودگی کی وجہ سے شدید خطر ہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب پاکستان میں غیر انسانی حیاتیات کو پہنچنے والے نقصان کی خبرا ہلِ پاکستان کے لیے اس لیے بھی عوامی سطح پر توجہ کی حقدار دکھائی نہیں دیتی کیونکہ پاکستان میں انسانی حیاتیات کی بقا کے لیے کوئی سرے سے کوئی گرمی ہی دکھائی نہیں دیتی۔
سکھر اور گھوٹکی کے مقام پردریائے سندھ میں شکار کیلئے بااثر افراد کی جانب سے زہر کے استعمال سے لاکھوں مچھلیاں مرجاتی ہیں اوردیگر آبی حیات بھی اسی زہر کا شکار ہوتی ہیں۔ کچے کے علاقوں میں چھوٹی اور بڑی مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات کی بڑے پیمانے پر نسل کشی جاری ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق پانی میں زہر ڈالے جانے سے آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
حکومت ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے وگرنہ متعدد سمندری حیات ناپید ہو جائیں گی۔آبی حیات کے تحفظ کے لئے موئثر اقدامات کی ضرورت ہے
ربط
http://technologytimespk.blogspot.com/2011/01/blog-post_4034.html