آل محمد

سید رافع

محفلین
جان لیا اس نے اذیت دے کے
کہ یہ نہیں آل محمد میں سے
ڈالی تھی جب اوجڑی محمد پر کافر نے
وہ تو برہم نہ ہوئے تھے یہ جان کر
جاری رہی تھی صلوۃ ان کی شان سے
پڑھتے رہے وہ ثنا اپنے رب کے وجدان سے

ہر ہر واقعہ وہ دہراتا دل میں
ہر ہر لمحہ اذیت کفار کا ازبر ہے اسے
کیوں نہ اخلاص کی پہچان کے لیے
لیا جائے کچرے کا امتحان اس سے بھی ذرا
گزرے جب یہ اس راہ سے
ڈال دو بڑھیا کی طرح آل محمد پر کچرا ذرا
اگرجلال میں آجائے یا خفا ہوجائے
سمجھ لو کہ ظاہر کیا ہم نے حق کو
بھلا جوش و برہمی کب ہے شایاں آل محمد کو
یہ سن ہے چوبیس ضرور
لیکن لازم ہے کہ امتی میں ہو ہر ادا نبی کی
ہو نہ نبی لیکن ہو نبی ہی
اور اگر یہ طیش میں نہ آیا اس اذیت سے
چال ہے ایک اور کفار کی بطور مسلماں دل میں

کیوں نہ میں بھی ہر ادا کفار کی اپناؤں
کبھی شاعر، کبھی مجنوں، کبھی اسے دیوانہ کہہ جاؤں
محمد نے بھی تو سہی تھی یہ سب اذیت کفار سے!
کیوں نہ یہ سہے میرے ہاتھوں وہی اذیت اسکی آل اب
کیوں نہ میں بھی سیٹی اور تالیاں بجاؤں ہر مجلس میں اسکی
صبح کو اس کی مانوں شام کو کافر ہو جاؤں جھٹک کر ابھی
کیوں نہ سب ہی ادائیں کفار کی اپنا لوں
اکساؤں لوگوں کو کہ پھیلائیں مکر کو میری طرح
ہر ہر چال اور ہر ہر ادا کفر کی اپنائیں میری طرح
میں ہوں مسلماں مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا
توحید کا علمبرادر ہوں، کرتاہوں لاالہ کا پرچار ہر جگہ

میں ایک عورت ہوں کیوں نہ بن جاؤں ابو لہب کی بیوی کی طرح
تمسخر اڑاؤں اپنے آوارہ دوستوں سے مل کر ہر لمحہ
میں ہوں مسلماں رب کی عطا سے، محمد کی خاص ہے رحمت میری ثناء پہ
لیکن کیا ہے برا کہ پھیلاؤں ایک جال محمدکی آل پر
وہ تو محمد تھے، نبی تھے ،یہ کیا ہے؟
آل محمد ہے، مجھے کیا معلوم کہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے؟
کیا ہے برا اگر کر لوں فتنہ پردازں کو فریفتہ اپنی اداؤں سے
وہ یکبارگی ٹوٹ پڑیں احد کی طرح اس آل رسول پہ
کفر تو بس ہوتا ہے محمد سے جنگ پر
یہ تھوڑی کفر ہے کہ اذیت سے بھر دے زندگی آل رسول کی
مجھے سب معلوم ہے قرآن کی وہ آیت
قول سب اس نبی مکرم کے
کیا برا ہے کہ اگر میں پڑھوں
ہر صلوۃ میں درود آل رسول پر
مجھے اس سے فرق کیا پڑتا ہے کہ رب چاہتا ہے محبت اقرابا رسول سے
مجھے معلوم ہے قول محمد کا کہ غرق قرآں میں آل محمد قیامت تک
لیکن کیا ہے کہ یہ سب بھول کے تمسخر کے شغل سے کروں برباد انکو
جینا تو ہے ہی مشکل ،کروں اور دشوار اسکو
میں ہوں تنگ اپنے گھر والوں سے، ذرا اس اذیت کو نکالوں اس پر
میرے گھر کے سب مرد ہیں مکر کے امین
کیا برا ہے کہ اگر کرلوں تھوڑا سا مکر میں بھی
اذیت ہے ہر سو قریے میں اور میرے ہر طرف
کیا برا ہے کہ بدلہ لوں آل محمد سے اذیت کا
فائدہ کیوں نہ اٹھا لوں ان کی شرافت کا
انکے علم اور انکے اخلاص کا

جینے کا سبھی ہی ساماں چھین کر کہوں مسکراتے کیوں نہیں؟
پابند اذیت کر کے کہوں کہ گیا اب کہاں اخلاص تمہارا؟
تم ایک براہمن ہو مر کیوں نہیں جاتے
جان دے کیوں نہیں دیتے میرے مکار رہبروں کے آگے
ہر ہر درس نظامی میں خاص تاکید سے سمجھایا
کہیں یہ نا ہو جائیں ملکوں کی سیادت کے امین
حالانکہ ہیں یہی بادشاہ اور ملکوں کے امین
قومیں ان سے ہیں لیکن جان لو تفریق ہم سے ہے
کسی صورت ان کو ابھرنے نہ دینا
کوئی کان ایسا نہ ہو جو سن لے پیام انکا
قرآں عربی میں ہے، کر لو معنی میں مکر
بدل دو تفسیر، پھیلا دو یہ پیغام اب ہر گلی
کوئی سنے نہ آل محمد کی صدا اب
کہیں اخلاص و شرافت نہ ہوجائیں عام
کہیں دفتر بند نہ ہو جائیں ہمارے
یہ لکھی کتابیں پھر خریدے گا کون؟
کون بنے گا ہمارے درس نظامی کا مسافر
کون دے گا زکوۃ ہم کو
کیسے کریں گے زکوۃ کے کچیل کے حیلے
کیسے ہم تیار کریں گے امام میلے
بنا دیں جو ہم تم کو غلام
کر دیں دہشت کو ہر ملک میں عام
اور پھر کہیں کہ ہم تو ہیں توحید کے علمبردار
پھیلاتے ہیں سنتیں ہر سو دبا کر آل محمد کو ہم
عجب ہے مکر اس دور میں جو ٹوٹنے میں نہیں آتا
بھائی ہے اخلاص اصل دین یہ سمجھ لو
ملتی ہے یہ دولت مفت میں آل محمد سے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
محترم محمد عبدالرؤوف اختلافات اپنی جگہ مگر تصور کیجیے کسی انجان مذہب شخص نے یہ ٹیکسٹ دیکھا اور مضحکہ خیز سمجھ لیا تو کریڈٹ آپ کو جائے گا... ایسے دھاگوں میں ریٹنگ سے بہتر ہے تبصرہ کرکے اصل اختلاف کو لکھ دیا جائے
 

سید رافع

محفلین
صلوۃ اور نماز میں کوئی فرق ہے؟
نماز فارسی زبان کا لفظ ہے جبکہ عربی لفظ صلوۃ ہے۔ ان الفاظوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

نماز میں قدیم رسمی عبادتیں جیسے بتوں کی پوچا کرنے سے لے کر روحانی مشقیں، سب اس میں آجاتی ہیں۔ جبکہ صلوۃ اس نور طہارت کو قائم رکھنے کی دن و رات جستجو ہے جو دن میں پانچ بارخاص طور پر دربار خداوندی سے معین ہے۔

ایک اور بات صلاۃ خاص وقت پر کی جانے والی طہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ صلوۃ عام طور پر دعاؤں، درود یا رحمت و برکت کی حالت طہارت کو بیان کرتا ہے۔ دونوں کا مقصد طہارت ہی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نماز فارسی زبان کا لفظ ہے جبکہ عربی لفظ صلوۃ ہے۔ ان الفاظوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

نماز میں قدیم رسمی عبادتیں جیسے بتوں کی پوچا کرنے سے لے کر روحانی مشقیں، سب اس میں آجاتی ہیں۔ جبکہ صلوۃ اس نور طہارت کو قائم رکھنے کی دن و رات جستجو ہے جو دن میں پانچ بارخاص طور پر دربار خداوندی سے معین ہے۔

ایک اور بات صلاۃ خاص وقت پر کی جانے والی طہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ صلوۃ عام طور پر دعاؤں، درود یا رحمت و برکت کی حالت طہارت کو بیان کرتا ہے۔ دونوں کا مقصد طہارت ہی ہے۔
صلاۃ اور صلوۃ میں اس فرق کی توجیہ کیا ہے
 

سید رافع

محفلین
صلاۃ اور صلوۃ میں اس فرق کی توجیہ کیا ہے
دونوں الفاظ کا الگ الگ مقصد ہے۔ صلاۃ ہر وقت بھیجی جا سکتی ہے جبکہ صلوۃ بھیجنے کا مخصوص وقت رب کی جانب سے طے ہے۔ اس کے شروع اور آخری وقت کا نبی کریم ص نے بتا دیا ہے۔

ان دونوں الفاظ کا مادہ صلو ہے۔

صلو مادے کے الفاظ قرآن میں 99 بار آئے ہیں۔

( صَلَوٰة ) 83 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( صَلَّىٰ ) 12 دفعہ بطور فعل آیا ہے۔
( مُصَلًّى ) ایک دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( مُصَلِّين ) 3 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
صَلَوٰة 83 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ کثرت سے اللہ کے ذکر کی جگہ کے ساتھ آیا ہے۔
اسی طرح صَلَّىٰ 12 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ رسول کے کثرت سے برکت عطا کرنے کے ساتھ آیا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ صلوۃ سے صلاۃ اور صلاۃ سے صلوۃ کا سفر تادم زندگی جاری رہنا چاہیے۔ یہی صلوۃ قائم کرنا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دونوں الفاظ کا الگ الگ مقصد ہے۔ صلاۃ ہر وقت بھیجی جا سکتی ہے جبکہ صلوۃ بھیجنے کا مخصوص وقت رب کی جانب سے طے ہے۔ اس کے شروع اور آخری وقت کا نبی کریم ص نے بتا دیا ہے۔

ان دونوں الفاظ کا مادہ صلو ہے۔

صلو مادے کے الفاظ قرآن میں 99 بار آئے ہیں۔

( صَلَوٰة ) 83 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( صَلَّىٰ ) 12 دفعہ بطور فعل آیا ہے۔
( مُصَلًّى ) ایک دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( مُصَلِّين ) 3 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
صَلَوٰة 83 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ کثرت سے اللہ کے ذکر کی جگہ کے ساتھ آیا ہے۔
اسی طرح صَلَّىٰ 12 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ رسول کے کثرت سے برکت عطا کرنے کے ساتھ آیا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ صلوۃ سے صلاۃ اور صلاۃ سے صلوۃ کا سفر تادم زندگی جاری رہنا چاہیے۔ یہی صلوۃ قائم کرنا ہے۔
قران پاک میں صلاۃ لفظ نہیں، حدیث میں یہ لفظ موجود ہے؟
 

سید رافع

محفلین
قران پاک میں صلاۃ لفظ نہیں، حدیث میں یہ لفظ موجود ہے؟
جی بہت سی جگہ حدیث میں آیا ہے۔ یہ آیت دیکھ کر احادیث کے ذریعے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہاں "صلوۃ" سے مراد "صلاۃ" ہے یا "صلوۃ" ہے۔

صحیح مسلم کی حدیث 111 میں لفظ صلاۃ آیا ہے:

حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني ، حدثنا ابو خالد يعني سليمان بن حيان الاحمر ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بني الإسلام على خمسة، على ان يوحد الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصيام رمضان، والحج "، فقال رجل: الحج، وصيام رمضان؟ قال: لا صيام رمضان، والحج، هكذا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.

ابو خالد سلیمان بن حیان احمر نے ابومالک اشجعی سے، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اللہ کو یکتا قرار دینے، نمازقائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر۔“ ایک شخص نے کہ: حج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں! رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اسی طرح (اسی ترتیب سے) سنی تھی۔

المختصر لفظ "صلاۃ" اور "صلوۃ" دراصل ایک ہی لفظ کی مختلف شکلیں ہیں۔ انکا مادہ صلو ہے۔
 

اربش علی

محفلین
دونوں الفاظ کا الگ الگ مقصد ہے۔ صلاۃ ہر وقت بھیجی جا سکتی ہے جبکہ صلوۃ بھیجنے کا مخصوص وقت رب کی جانب سے طے ہے۔ اس کے شروع اور آخری وقت کا نبی کریم ص نے بتا دیا ہے۔
صلوٰة اور صلاة میں کوئی بھی فرق نہیں۔
صلاة لفظ صلوٰة ہی کا متبادل املا ہے، جو جا بجا حدیث کی کتابوں اورہر دوسری عربی کتاب میں نظر آئے گا۔
قرآن میں چوں کہ کلاسیکی اور اصلی املا استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے وہاں صلوٰة ہی لکھا جائے گا۔

اسی طرح کے متبادل املا کی کئی مثالیں ہیں جیسے:
مشكوٰة/مشكاة
زکوٰة/زكاة
حيوٰة/حياة

فارسی اور اردو میں آ کر یہ صلات، مشکات، زکات اور حیات بن جاتے ہیں۔
 
Top