تزئین کائنات برنگِ دگر ہے آج
جشنِ ولادت شاہِ جنّ و بشر ہے آج
صدیوں سے فرشِ راہ تھے جس کے لیے نجوم
آغوش آمنہ میں رشکِ قمر ہے آج
صُبح ازل کو جس نے دیا حسنِ لازوال
وہ موجِ نور زینتِ دیوار و در ہے آج
کس کے قدم سے چمکی ہے بطحا کی سرزمیں
ظلمت کدوں میں شورِ نویدِ سحر ہے آج
اے چشمِ شوق شوکتِ نظارہ دیکھنا
ماہِ فلک چراغِ سرِ رہ گذر سے آج
شوقِ نظارہ نے وہ تراشا ہے سُر
جس آئنے میں جلوئہ آئنہ گر ہے آج
جچتی نہیں نگاہ میں دُنیا کی رونقیں
کیا پُوچھتے ہو دھیان ہمارا کدھر ہے آج
ناصر درِ حضور سے جوچاہو مانگ لو
وا خاص و عام کے لیے بابِ اثر ہے آج
از:
ناصر کاظمی