ہدیہ تشکر.....بہت عنایت......درد اورآنسوؤں میں بسی نظم حُزن وملال کے در وا کرگئی - تلخی اوردُکھ کا امتزاج کلام میں بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے
اورآپ کے منفرداوراعلٰی ذوق کی نمائندگی بھی کرتا ہے
محبت اور پسندیدگی کے لیے ممنون ہوں....احساس جذبات اور یادوں سے بھر پور
بہت خوب
شکریہ
بصد ادب و احترام: گوگل ترجمہ کیا کبھی بھی ایک ادب پارے کاترجمہ کر پائے گا؟؟ کیا گوگل ترجمہ کبھی بھی آپ جیسے بزرگوں کے روشن دماغوں کی جگہ لے پائے گا؟؟.........میرے خیال میں تو یہ تصور ہی محال ہے............شکریہ @التباس، اچھی نثری نظم ہے، اگرچہ مشکل سے ہی پڑھی گئی اسی وجہ سے۔ ہندی نظمیں تو نثری ہی ہوتی ہیں، بلکہ اردو کے علاوہ تقریباً ساری زبانوں میں ہی۔ اس لئے غیر اردو سمجھ کر پڑھنی پڑی۔ اسد محمد خاں کو ویسے زیادہ محنت کرنا نہیں پڑی ہوگی۔ برخوردار گوگل ترجمہ کر دیتے ہیں نا آج کل۔ میں بھی کچھ ہندی کہانیوں کا اسی طرح ترجمہ کر رہا ہوں۔ اگرچہ ہندی جاننے کی وجہ سے اس کی اصلاح بھی درست کر سکتا ہوں۔
میں بھی کچھ ہندی کہانیوں کا اسی طرح ترجمہ کر رہا ہوں۔ اگرچہ ہندی جاننے کی وجہ سے اس کی اصلاح بھی درست کر سکتا ہوں۔
شکرگزار ہوں قرۃالعین اعوان آپا.......بہتخوبصورت!
طارق شاہ صاحب....... پسندیدگی.....تحسین اور محبت کے لیے ازحد ممنون ہوںکہتے ہیں کہ ترجمے سے تخلیق کا کچھ نہ کچھ اثر زائل ہوتا ہے
لیکن یہاں میں نہیں سمجھتا ایسی کوئی صورت یا بات ہوئی ہو ،
کیا خوب ،احساسات کو چھوتی نظم ہے،جسے بارہا پڑھا اور بارہا
وہی اک کیفیت جداگانہ ۔۔
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں صاحب اور لکھتے رہیں
یقیناً ٹیکنالوجی نے بہت کچھ مہمل کے درجے میں لا پھینکا ہے.....گو کہ خود یہ ٹیکنالوجی بھی انسانی ذہنِ رسا ہی کی مرہونِ منّت ہے.....اور یہی بات سمجھنے کی ہے، کہ ذہنِ انسانی جیسی پیچیدہ شے کو replace کرنا فی الحال تو ٹیکنالوجی کے لیے بعید از خیال ہے....یہی میں عرض کرنا چاہتا تھا....باقی آپ کی بات درست ہے کہ بہت حد تک ترجمہ ٹھیک ہے، البتّہ ادب پارے کا شگفتہ پن اور روانی ذرا مشکل ہے۔اور اب پیش ہے عزیزم گوگل کا ترجمہ، جہاں کہیں اسد محمد خاں سے فرق ہے، اسے میں نے مختلف ظاہر کیا ہے۔
سورج کے ساتھ - ساتھ
سندھيا کے منتر ڈوب جاتے تھے،
گھنٹی بجتي تھی اناتھ آشرم میں
بھوکے بھٹکتے بچوں کے لوٹ آنے کی،
دور - دور تک پھیلے کھیتوں پر،
دھوئیں میں لپٹے گاؤں پر،
بارش سے بھیگی کچی ڈگر پر،
جانے کیسا راز بھرا تاریکی پھیل جاتا تھا،
اور ایسے میں آواز آتی تھی والد
تمہارے پکارنے کی،
میرا نام اس اندھیارے میں
بج اٹھتا تھا، تمہارے سرو میں .
میں اب بھی ہوں
اب بھی ہے یہ روتا ہوا اندھیرے چاروں طرف
لیکن کہاں ہے تمہاری آواز
جو میرا نام بھر کر
اسے اوكل سرو میں بجا دے.
(2)
'دھکا دے کر کسی کو
آگے جانا گناہ ہے '
اسلئے تم بھیڑ سے الگ ہو گئے.
'آرزو ہی سب دکھوں کا اصل ہے'
اس لئے تم جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے.
'اطمینان آخری دولت ہے'
(یہاں چہار سو کا نام ہے، جو در اصل رسالے کا نام ہے، یعنی جہاں سے اسد محمد خاں کی یہ فائل ملی ہو گی)
مان کر تم نے سب کچھ لٹ جانے دیا.
والد! ان اقدار نے تو تم کو
اناتھ، نراشرت اور وپنن ہی بنایا،
تم نہیں ، مجھ سے کہتی ہے،
موت کے وقت تمہارے
نستج چہرے پر پڑتی یہ ظالم دارو سایہ.
(3)
'سادگی سے رہوں گا'
تم نے سوچا تھا
اسلئے ہر تہوارمیں تم دروازے پر کھڑے رہے.
'جھوٹ نہیں بولوں گا'
تم نے ورت لیا تھا
اسلئے ہر گوشٹھي میں تم تصویر سے جڑے رہے.
تم نے جتنا ہی اپنے کو معنی دیا
دوسروں نے اتنا ہی تمہیں بے معنی سمجھا.
کیسی وڈمبنا ہے کہ
جھوٹ کے اس میلے میں
سچے تھے تم
اسلئے بیراگي سے پڑے رہے.
(4)
تمہاری آخری سفر میں
وہ نہیں آئے
جو تمہاری خدمات کی سیڑھیاں لگا کر
شہر کی اونچی عمارتوں میں بیٹھ گئے تھے،
جنہوں نے تمہاری سادگی کے سکوں سے
بھرے بازار بھڑكيلي دکانیں کھول رككھي تھیں ؛
جو تمہاری نیکی کو
اپنے فرم کا اشتهار بنا کر
ڈگڈگی کے ساتھ شہر میں بانٹ رہے تھے.
والد! تمہاری آخری سفر میں وہ نہیں آئے
وہ نہیں آئے
مزید یہ کہ اس پوسٹ کا مطلب اسد محمد خان کی محنت کو بٹا لگانا نہیں ہے۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ پر، میرا مقصد صرف بطور خاص نثری نظم کے ترجمہ کی آسانی ہے۔