آنند نرائن مُلا :::: گزری حیات، وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی :::: Anand Narain Mulla

طارق شاہ

محفلین



t1da.png

آنند نرائن مُلّا

غزل

گزُری حیات، وہ نہ ہُوئے مہرباں کبھی
سُنتے تھے ہم، کہ عشق نہیں رایگاں کبھی

اِتنا تو یاد سا ہے ، کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کُچھ نِگاہ میں پرچھائیاں کبھی

دو گُل قفس میں رکھ کے نہ صیّاد دے فریب
دیکھا ہے ہم نے، جیسے نہیں آشیاں کبھی

بُھولے ہوئے ہو تم ، تو دِلائیں گے ہم نہ یاد !
ہم تم بھی، راہِ زیست میں تھے ہم عناں کبھی

ویرانئ نِگاہ پہ میری ، نہ جائیے
پلتی تھیں اِس کے سایے میں بھی بجلیاں کبھی

ہاں یاد ہے، کسی کی وہ پہلی نگاہِ لُطف
پھر خُوں کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی

مُلّا بنادیا ہے اِسے بھی محاذِ جنگ
اِک صُلح کا پیام تھی اُردو زباں کبھی

آنند نرائن مُلّا



 
گزُری حیات، وہ نہ ہُوئے مہرباں کبھی
سُنتے تھے ہم، کہ عشق نہیں رایگاں کبھی

اِتنا تو یاد سا ہے ، کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کُچھ نِگاہ میں پرچھائیاں کبھی




بہت خوب
 
مُلّا بنادیا ہے اِسے بھی محاذِ جنگ
اِک صُلح کا پیام تھی اُردو زباں کبھی




کوئی کچھ بھی کر لے ، اردو کل بھی شاندارتھی، آج بھی شاندارہے، کل اوربھی زیادہ شاندار ہوگی۔ انشااللہ
 

کاشفی

محفلین
واہ! عمدہ جناب۔
گزُری حیات، وہ نہ ہُوئے مہرباں کبھی
سُنتے تھے ہم، کہ عشق نہیں رایگاں کبھی

اِتنا تو یاد سا ہے ، کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کُچھ نِگاہ میں پرچھائیاں کبھی
 

طارق شاہ

محفلین
واہ! عمدہ جناب۔
گزُری حیات، وہ نہ ہُوئے مہرباں کبھی
سُنتے تھے ہم، کہ عشق نہیں رایگاں کبھی

اِتنا تو یاد سا ہے ، کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کُچھ نِگاہ میں پرچھائیاں کبھی
اظہار خیال اور داد کے لئے ، تشکّر کاشفی صاحب !
بہت خوش رہیں :)
 
Top