طارق شاہ
محفلین
آنند نرائن مُلّا
غزل
گزُری حیات، وہ نہ ہُوئے مہرباں کبھی
سُنتے تھے ہم، کہ عشق نہیں رایگاں کبھی
اِتنا تو یاد سا ہے ، کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کُچھ نِگاہ میں پرچھائیاں کبھی
دو گُل قفس میں رکھ کے نہ صیّاد دے فریب
دیکھا ہے ہم نے، جیسے نہیں آشیاں کبھی
بُھولے ہوئے ہو تم ، تو دِلائیں گے ہم نہ یاد !
ہم تم بھی، راہِ زیست میں تھے ہم عناں کبھی
ویرانئ نِگاہ پہ میری ، نہ جائیے
پلتی تھیں اِس کے سایے میں بھی بجلیاں کبھی
ہاں یاد ہے، کسی کی وہ پہلی نگاہِ لُطف
پھر خُوں کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی
مُلّا بنادیا ہے اِسے بھی محاذِ جنگ
اِک صُلح کا پیام تھی اُردو زباں کبھی
آنند نرائن مُلّا