ش زاد
محفلین
آنکھوں سے اپنی شوقِ نظارا نہیں گیا
جب تک کے تن سے سر کو اُتارا نہیں گیا
اُس نے پلٹ کے دیکھ لیا تھا بچشمِ نم
بس اُس کے بعد ہم سے پُکارا نہیں گیا
آئینہ دیکھ اُس پہ وہ برسا نہ پوچھئیے
پتھر سے اپنا روُپ سہارا نہیں گیا
سُورج کی ظلمتوں کا سبب یہ ہوا ! کہ میں
سُورج کے سامنے سے گُزارا نہیں گیا
کیا راہِ اِلتفات میں دیتے تُمھارا ساتھ
ہم سے تو اپنا بوجھ سہارا نہیں گیا
اُس نوبہارِ حُسن کی آمد نہیں ہوئی
گُلشن کو اِس بہار ، بُہارا نہیں گیا
کشکول ہم نے ہاتھ میں لے تو لیا !مگر
سر سے انا کا بوجھ اُتارا نہیں گیا
ش زاد