آنکھوں سے بات دل کی چھپائی نہ جا سکی----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
----------
آنکھوں سے بات دل کی چھپائی نہ جا سکی
لیکن زباں پہ مجھ سے یہ لائی نہ جا سکی
------------
عہدِ وفا جو مجھ سے وہ کر کے مُکر گئے
اپنی ہی بات ان سے نبھائی نہ جا سکی
-------------
کوشش تو میں نے کی ہے ، وہ مانے نہیں مگر
بگڑی تھی بات اتنی ، بنائی نہ جا سکی
-------------
تصویر اس کی میرے جو دل میں سجی رہی
دل چیر کر کر وہ اس کو دکھائی نہ جا سکی
-----------
دل میں مرے ہے جس کی محبّت بسی ہوئی
یہ آگ اس کے دل میں جلائی نہ جا سکی
------------
دھوکہ دیا ہے اس نے محبّت کے نام پر
مجھ سے کسی کو بات بتائی نہ جا سکی
-----------
چاہا تھا پیار جس کا وہ ارشد نہ پا سکا
چاہت یہ اس کے دل میں جگائی نہ جا سکی
-------------
 
آخری تدوین:
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
----------
آنکھوں سے بات دل کی چھپائی نہ جا سکی
لیکن زباں پہ مجھ سے یہ لائی نہ جا سکی
------------
عہدِ وفا جو مجھ سے وہ کر کے مُکر گئے
اپنی ہی بات ان سے نبھائی نہ جا سکی
-------------
کوشش تو میں نے کی ہے ، وہ مانے نہیں مگر
بگڑی تھی بات اتنی ، بنائی نہ جا سکی
-------------
تصویر اس کی میرے جو دل میں سجی رہی
دل چیر کر کر وہ اس کو دکھائی نہ جا سکی
-----------
دل میں مرے ہے جس کی محبّت بسی ہوئی
یہ آگ اس کے دل میں جلائی نہ جا سکی
------------
دھوکہ دیا ہے اس نے محبّت کے نام پر
مجھ سے کسی کو بات بتائی نہ جا سکی
-----------
چاہا تھا پیار جس کا وہ ارشد نہ پا سکا
چاہت یہ اس کے دل میں جگائی نہ جا سکی
-------------

چھاگئے ہیں ارشد بھائی۔
 
مکرمی ارشدؔ بھائی، آداب!
ماشاءاللہ اب تک کی آپ کی بہترین غزل کہا جاسکتا ہے اسے۔ مطلع بہت اچھا کہا ہے آپ نے۔
میں چند ایک مقامات کے لئے کچھ معمولی ردوبدل کی تجاویز دے رہا ہوں، اگر مناسب سمجھیں تو غور کیجئے گا۔

کوشش تو میں نے کی ہے ، وہ مانے نہیں مگر
بگڑی تھی بات اتنی ، بنائی نہ جا سکی
پہلے مصرعے کو تاکیدِ بیان کے لئے اگر یوں کردیا جائے
کوشش بہت کی میں نے، وہ مانے نہیں مگر
(اگر اصل مصرعہ ہی برقرار رکھنا چاہیں، تو ہے کو تھی سے بدل دیجئے تاکہ شعر میں زمانہ یکساں رہے)

تصویر اس کی میرے جو دل میں سجی رہی
دل چیر کر کر وہ اس کو دکھائی نہ جا سکی
تصویر دل میں اس کی سجا کر رکھی تھی جو
دل چیر کر ۔۔۔

دل میں مرے ہے جس کی محبّت بسی ہوئی
یہ آگ اس کے دل میں جلائی نہ جا سکی
دل جیسے میرا آگ میں الفت کی جلا ہے
یا
دل جیسے میرا آتشِ الفت میں جلا ہے
وہ آگ اس ۔۔۔

چاہا تھا پیار جس کا وہ ارشد نہ پا سکا
چاہت یہ اس کے دل میں جگائی نہ جا سکی
مقطع کچھ اور سوچ کر دیکھیں کیونکہ اس کا خیال، اس سے پہلے والے شعر سے کافی مماثل ہے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دل میں مرے ہے جس کی محبّت بسی ہوئی
یہ آگ اس کے دل میں جلائی نہ جا سکی
اصلاح میں راحل بحر سے اتر گئے ہیں! مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہو گئی ہے۔ مرے خیال میں اصل مصرع بھی درست ہے بس ماضی کا صیغہ کر دیا جائے
دل میں تھی میرے جس کی....
خیال رہے کہ مرا، ترا مجبوری میں ہی استعمال کیا جائے
مطلع میں 'یہ' کی جگہ وہ بہتر ہو گا
لیکن زباں پہ مجھ سے وہ...
بلکہ زبان کی جگہ ہونٹوں پر بھی غور کرو
لیکن وہ میرے /مجھ سے ہونٹوں پہ لائی.....
 
اصلاح میں راحل بحر سے اتر گئے ہیں! مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہو گئی ہے

سیدی استاذی، لکھتے ہوئے دھیان نہیں رہا، ہے جلا لکھنا تھا، اس کے بجائے جلا ہے لکھ گیا.
دوسرے متبادل میں تو مجھے خود بھی آتشِ الفت پر تردد تھا کہ درست وزن میں اتا ہے یا نہیں.
 
Top