بہزاد لکھنوی آنکھوں میں اشکِ غم جو مرے پا رہے ہو تم - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
آنکھوں میں اشکِ غم جو مرے پا رہے ہو تم
اللہ جانتا ہے کہ یاد آرہے ہو تم

کہنے بھی دو سکوں سے مجھے داستانِ غم
یہ کیا کہ بات بات پہ شرما رہے ہو تم

ہاں ہاں وفا کرو گے یہ مجھ کو یقین ہے
بےکار میرے سر کی قسم کھا رہے ہو تم

یا خود ہی بڑھ گئی ہے یہ تابانیء جہاں
یا گوشہء نقاب کو سرکا رہے ہو تم

اپنی جفا ہے یا کہ ہیں میری تباہیاں
کیا یاد آگیا ہے جو گھبرا رہے ہو تم

کچھ سوچ، کچھ ملال ہے، کچھ غم ہے، کچھ الم
خاموش سرجھکائے ہوئے آرہے ہو تم

حیرت میں کیوں ہو تم مرے سجدوں کو دیکھ کر
مجھ کو تو ہاں کچھ اور نظر آرہے ہو تم

یہ دل وہ ہے کہ جس پہ تصدق ہے کائنات
اللہ ایسی چیز کو ٹھکرا رہے ہو تم

ڈوبی ہوئی نظر ہے جہانِ سرور میں
اللہ رے شباب کہ بل کھا رہے ہو تم

میری گذارشوں کا تمہیں کب یقین تھا
کس حال میں بتاؤ مجھے پا رہے ہو تم

سمجھوں نہ سمجھوں اس سے تو کوئی غرض نہیں
پر یہ سمجھ رہا ہوں کہ سمجھا رہے ہو تم

شانِ کرم پہ کیوں نہ تصدق ہوں بار بار
جس جا میں ہوں وہیں پہ نظر آرہے ہو تم

نظریں ملا رہے ہو زمانہ کے سامنے
کچھ تو کرو خیال غضب ڈھا رہے ہو تم

تم سے نہ نبھ سکے گا یہ پیمانِ عاشقی
پھر درمیاں میں بات وہی لارہے ہو تم

دل سے لگا چکا ہوں تمہارے خیال کو
ہاں اب مری نظر سے گرے جارہے ہو تم

میری طرف کو دیکھ کے ہنستے ہو کس لیئے
جو آگ بجھ چکی ہے وہ بھڑکا رہے ہو تم

لطف و کرم کے بعد یہ کیسا عتاب ہے
اپنی جگہ سے آپ ہٹے جارہے ہو تم

دیر و حرم کی حد تو کبھی کی گذر چکی
بہزاد اب کدھر کو بہے جارہے ہو تم
 
Top